پنجاب اور سندھ میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات اسی ماہ اکتوبر کی آخری تاریخ کوہو رہے ہیں پنجاب میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے قائد جمہوریت ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی جو کبھی پنجاب میں ایک سیاسی قوت سمجھی جاتی تھی آج اس پارٹی کو امیدوار نہیں مل پا رہے پیپلزپارٹی کا ووٹرتو موجود ہے لیکن اس نظریاتی ووٹر کو کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا پارٹی کی اعلی قیادت کو اپنے مفاہمتی فارمولے کو ترک کرتے ہوئے اپنی ناقص پالیسیوں کے ساتھ ساتھ صوبائی قیادت کو بھی تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ پاکستان پیپلزپارٹی کا نظریاتی ووٹرموجودہ صوبائی قیادت کو قبول نہیں کر پایاپی پی پی پہ پھر کبھی قلم اٹھائیں گے اب آتے ہیں ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والہ کیبلدیاتی حلقہ نمبر26جوکہ شاہ فیصل کالونی،شاہ فیض کالونی اور صادق ٹاؤن پہ مشتمل ہے اس حلقہ میں پانچ ہزار کے قریب رجسٹرڈووٹ ہیںیہ حلقہ شہر بھر کی عوام میں موضوع بحث بنا ہوا ہے جہاں ووٹروں کی نظریں اس حلقہ پہ لگی ہوئی ہیں وہیں ’’سیاسی پنڈت‘‘ بھی اپنے سیاسی کارڈ بڑی خوبصورتی سے کھیلتے دکھائی دے رہے ہیں یوں تو اس حلقہ میں پانچ امیدوارغلام مصطفی بھٹی،محمدنعیم شان آرائیں ،خان خالدخان ،وحید احمد گجر،اللہ دتہ سیاسی قسمت آزمائی کر رہے ہیں لیکن اصل کانٹے دار مقابلہ دوسیاسی حریفوں کے درمیان متوقع ہے دونوں ہی اس حلقہ سے پہلے بھی منتخب ہو چکے ہیں ان میں سے ایک امیدوار غلام مصطفی بھٹی جو کہ سابق نائب تحصیل ناظم بھی رہ چکے ہیں موصوف کبھی پیپلزپارٹی کی آنکھوں کا تارا ہوا کرتے تھے اب سونامیوں کے ساتھ مل کر ہاتھ میں ’’ بلا ‘‘ تھامے اپنے مدمقابل کی ’’وکٹ گرانا ‘‘چاہتے ہیں جبکہ ان کے مدمقابل چوہدری محمد نعیم شان آرائیں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے’’لاڈلے‘‘ امیدوارسمجھے جاتے ہیں انہیں شہر کے دو بڑے’’آرائیوں ‘‘کی بھر پورسیاسی حمایت حاصل ہے اور یہ دو بڑے’’ آرائیں ‘‘ شہر کے ایم این اے اور ایم پی اے ہیں ایک چوہدری نذیر احمد آرائیں اور دوسرے چوہدری ارشاد احمد آرائیں ہیں جو آج کل اسی حلقہ میں نظر آتے دکھائی دیتے ہیں اگر یوں کہا جائے کہ ووٹروں کی ’’ منتیں اور ترلے‘‘کر رہے ہیں توبے جا نہ ہوگا شہر بھر کے ’’ آرائیں ‘‘حکمران جماعت کے ’’لاڈلے‘‘ امیدوار کو جتوانے کے لئے کسی ’’مذہبی فریضہ ‘‘کی ادائیگی سمجھ کر اپنا من تن دھن وارتے دکھائی دیتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ جہاں ’’ آرائیں ازم ‘‘ کو فروغ دیا جا رہا ہے وہاں حکمران جماعت کے ’’لاڈلے ‘‘ امیدار کے لئے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ’’باغی‘‘ امیدوار خان خالد خان جس کا انتخابی نشان ’’ہیرا‘‘ ہے درد سر بنا ہوا ہے کیونکہ ’’ہیرا ‘‘پہلے بھی ایک دوسرے حلقہ سے دو بار کونسلر منتخب ہو چکا ہے حکمران جماعت کے ’’لاڈلے‘‘ امیدوار کاسر درد ختم کرنے کے لئے ’’باغی‘‘ امیدوار کو دستبردار کرانے کے لئے دو بڑے ’’آرائیں ‘‘ اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہیں اور انہیں اب تک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ رہا ہے کیونکہ ’’باغی ہیرا ‘‘ بکنے والا اور جھکنے والانہیں اور اسی ’’باغی ہیرے ‘‘نے حکمران جماعت کے لاڈلے امیدوار کی ناکامی کا سبب بننا ہے’’باغی ہیرے‘‘ نے کم وقت میں اپنا حلقہ احباب پیدا کر لیا ہے کیونکہ پاکستان مسلم لیگ(ن) کا نظریاتی ووٹر دو واضح حصوں میں تقسیم ہوچکا ہے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے نظریاتی ووٹر کی تقسیم سے سارا فائدہ پاکستان تحریک انصاف کے مضبوط امیدوار غلام مصطفی بھٹی اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ بھٹی صاحب پرانے کھلاڑی ہیں اور سیاسی داؤ پیج بخوبی جانتے ہیں حلقہ کی بااثر سیاسی ،سماجی شخصیات،تمام برادریوں اور ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کی حمایت حاصل ہے ان کی کامیابی میں پاکستان تحریک انصاف کے نوجوان ووٹر کا بھی ہاتھ ہوگا ان کا ماضی بے داغ اور شاندار رہا ہے حلقہ کے عوام کے کام سیاسی ہمدردیوں سے بالاتر ہو کر کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حلقہ میں ہر دل عزیز امیداور سمجھے جاتے ہیں حلقہ کی عوام نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اب ان کی فتح کارسمی اعلان 31اکتوبرکو ہونا باقی ہے