ذہین و حسین علی رضا کھرل روزنامہ نئی بات، نیوچینل کے رپورٹر تھے ۔ اور پنجا ب اسمبلی کی کور یج کیا کرتے تھے ۔ان کی وفات پر نیوفیملی اپنے ایک مخلص ساتھی سے محروم ہوگئی ہے ۔علی رضا نئی بات اور نیو نیوز کے بانی کارکنوں میں شمار ہوتے تھے ۔انہوں نے ماس کمیو نیکشن 2011 میں سپیرئر کالج سے کیا اورروزنامہ نئی بات سے منسلک ہو گئے ،ایک محنتی اور ہر دلعزیز رپورٹر کے طور پر جانے جاتے تھے ۔
اور ہمیشہ حقائق عوام تک پہچانے کے لیے پوری لگن سے کام کرتے رہے ۔
چئیر مین نئی بات گروپ ،سپیرئیر گروپ آف کالجز جناب چودھری عبدالرحمن نے علی رضا کی المناک موت کونا قابل تلافی نقصان قرار د یتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک بہتر ین رپورٹر ہونے کے ساتھ ساتھ ادارے کا بہترین اثاثہ تھے ۔ان کی وفات ادارے کے لیے ناقابل تلافی نقصان ہے اور ان کی خدمات کو ادارہ ہمیشہ یاد رکھے گا ۔
مجھے جب اپنے دوست علی رضا کھرل کے ٹریفک حادثہ میں انتقال ہونے کی اطلاع ملی تو میں سکتے میں آ گیا ،مجھے اطلاع دینے والے کی بات پر یقین نہیں آ رہا تھا ۔صرف ایک دن قبل اس نے بتایا تھا کہ وہ ادارے سے دو چار چھٹیاں لے کر آ رہا ہے ۔اور مجھ سے ملنے آئے گا میں جو اس سے گلے کرتا رہتا ہوں وہ سب مٹا دے گا ۔لیکن اس کے آنے کی بجائے اس کی لاش آئی ۔کسی اپنے پیارے کی اچانک موت کا دکھ بہت عجب ہوتا ہے ایسے جیسے دل سینے سے کھینچ لیا جائے ،ایسا ہی حال میرا تھا ۔اطلاع دینے والا بتا رہا تھا کہ علی رضا کھر ل ٹریفک حادثہ میں جان بحق ہو گئے ہیں وہ دو چھٹیاں لے کر گھر آ رہے تھے ۔حادثہ اس قدرخطرناک تھا کہ وہ موقع پر ہی دم توڑگئے کہا جا رہا ہے کہ حادثہ تیز رفتار گاڑی کی وجہ سے پیش آیا۔
میں اس کی بات کہاں سن رہا تھا ۔میری آنکھوں کے سامنے اپنے دوست علی رضا کھرل کا چہرہ تھا ،اس کی باتیں تھیں ،اس کے ساتھ گزارے لمحے سب آنکھوں کے سامنے تھے ۔مجھے اس پر یقین نہیں آ رہا تھا ہمیشہ کے بچھڑ جانے کا یقین بہت مشکل ہوتا ہے بہت مشکل ۔
ابھی تو اس کی مرنے کی عمر نہیں تھی ،ابھی تو اس نے صرف زندگی کی تیس (30 ) بہاریں دیکھیں تھی ،ابھی تو اس کے بہت سے خواب ادھورے تھے ،تشنہ لب تھے ۔لیکن کیا کریں اس کا کہ موت کو کس سے راستگاری ہے، آج وہ کل ہماری باری ہے ۔۔میرا دل بھر آیا ۔یہ سوچ کر کہ سینکڑوں دوست رکھنے والا، ہنس مکھ جوان کسووال سے لاہور جا کر اپنے شہر کا نام روشن کرنے والا ،روشن ستارہ علی رضاکھرل جوانی میں ہی اس جہان فانی سے کوچ کر گیا ہے ۔ڈوب گیا ہے۔
علی رضا کھرل کے والد یونس کھرل میرے محروم والد محترم کے بہت اچھے دوست تھے ۔جن سے تعلقات اب تک قائم ہیں ۔وہ جب بھی کسووال آئیں مجھ سے مل کر جاتے ہیں ،علی رضا ان کی اکلوتی اولاد تھا ،سب امیدوں ،آرزوں کا مرکزسب سے بڑا دکھ تو وہ اٹھا رہے ہیں۔ان کی آنکھوں کا چین ،دل کا سکون ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے ۔
ابھی چند دن قبل ہی انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ علی رضا کی شادی جلد ہی کر دینی ہے، اس کے لیے دلہن زور و شور سے تلاش کی جارہی ہے ۔
علی رضا کھرل 2 نومبر پیر کی رات کار میں اپنے گھر کسووال آ رہے تھے کہ ملتان روڈ پر ایک ٹرالر بے قابو ہو کر علی رضا کی کار پر الٹ گیا، حادثہ اتنا اچانک اور شدید تھا کہ زخموں کی تاب نہ لا کر علی رضا موقع پر ہی دم توڑ گئے ۔
ریسکو اہلکاروں نے ان کی لاش جناح ہسپتال منتقل کر دی جسے ابتدائی تحقیقات کے بعد لواحقین کے سپر د کر دیا گیا ۔جب ان کی لاش کسووال پہنچی تو ان کے گاؤں ،گھر میں کہرام مچ گیا ۔ہر آنکھ اشک بار ہوگئی۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
ایک بچہ جب موجودہ دنیا میں پہلی بار آنکھ کھولتا ہے وہ روتے بلکتے اس دنیا میں قدم رکھتا ہے ۔بالکل ایسے ہی جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے عزیز سسک رہے ہوتے ہیں، رو رہے ہوتے ہیں ۔تصویر کا ایک رخ تو یہ ہے ، مگر اس کا دوسرا رخ بڑا عبرت انگیز ہے، مرنے والا ہمارا کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو، اپنے عزیز کے انتقال کے تھوڑی ہی دیر بعد ہم اْس کے مردہ جسم کو جلد سے جلد، عزت واحترام کے ساتھ سپرد خاک کرنے کے انتظامات میں لگ جاتے ہیں ۔
ان کی نما زجنازہ بروز منگل بعد نماز عشاء ساڑھے 7 بجے ان کے آبائی گاؤں 101بارہ ایل کسووال میں ادا کی گئی اور سینکٹروں سوگواروں کی موجودگی میں مقامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔
ان کی نماز جنازہ میں صحافیوں ،سیاسی وسماجی شخصیات سمیت لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی ۔ان کی وفات پر وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف،تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان اور دیگر بہت سے سیاست دانوں نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اللہ مرحوم کی روح کو جوار رحمت میں جگہ دے اور غمزدہ خاندان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔