بلاشبہ فروغ اُردو ادب کے حوالے سے متحدہ عرب امارات ہر دور میں بہت زرخیز ثابت ہوا ہے ۔ سلیم جعفری کے مشاعرے اپنی مثال آپ کو اب حاضرین کے دل و دماغ پر اپنے گہرے نقوش ثبت کئے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے جس طرح ادبی شاموں کی بنیاد رکھی اس نے ادبی منظر نامے پر اپنے انمنٹ نقوش چھوڑے ان کے بعد جناب ظہورالسلام جاوید نے ابوظہبی میں اس علم کو بلند کیا اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے،جبکہ پاکستان ایسوسی ایشن دبئی بھی ایک تسلسل کے ساتھ ادبی تقریبات کے انعقاد کے حوالے سے بہت فعال کردار ادا کر رہا ہے ۔ امارت میں شعراء کابسلسلہ روزگار قیام پذیری اور وطن واپسی کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے ۔ سلیمان جاذب ؔ امارات کے ادبی حلقے میں آئے تو چند ہی سالوں میں اپنا منفرد مقام بنا نے میں کامیاب ہوئے اس کی بنیادی وجہ اخلاص نیت ہے ۔ سلیمان جاذب نے اپنے سطح پر اردوکی ترویج و ترقی کے لئے ادبی اور ثقافتی تنظیم ’’ مُسفرہ انٹرنیشل ‘‘ قائم کی تاکہ ادب اور ثقافت کی خدمت کی جا سکے اور وہ اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہیں انہوں نے ان تنظیم کے زیر سایہ بہت سے ادبی و ثقافتی پروگرامز کا اہتمام کیا۔ خصوصاً امارات میں آنے والے مہمان شعراء کے اعزاز میں تقاریب کا سلسلہ بھی تک جاری ہے ۔ گزشتہ دنوں برطانیہ سے معروف شاعرہ ’’ فرزانہ خان نیناں‘‘ دبئی تشریف لائیں تو ان کے اعزاز میں یو اے ای میں مقیم معروف شاعر ڈاکٹر صباحت عاصم واسطیؔ کے زیرِصدارت ایک ادبی تقریب کا اہتمام کیا گیا۔مقامی شعراء میں ڈاکٹر ثروت زہرہ ، اختر ملک ، زاہد علی درویش ، کنول ملک ، علی زیرک ، آفتاب بابر ہاشمی اور خرم جان نے بھی محفل میں شرکت کر کے ادبی رنگ و رونق میں مزید اضافہ کر دیا۔
تقریب کا با قاعدہ آغاز تلاوت کلام ربانی سے کیا گیا جس کی سعادت جناب زاہد علی درویش نے حاصل کی ۔ صدر محفل جناب ڈاکٹر عاصم واسطی نے بحضور سرورِ کونینﷺ نعتیہ اشعار پیش کئے۔تقریب کی نظامت کے فرائض سلیمان جاذب نے اپنے مخصوص انداز میں بخوبی سرانجام دئیے۔تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے معروف افسانہ نگار پیر محمد کیلاش نے محترمہ فرزانہ نیناں کے فن و شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فرزانہ نیناں بلاشبہ بہت اچھی شاعرہ ہی نہیں بلکہ ان کا تعلق میڈیا سے بھی ہے اور یہ بات خوش آئند ہے کہ با ذوق اور اہم علم اس شعبہ سے منسلک ہیں اور علم و ادب کی ترویج کے لئے اپنی بساط کے مطابق کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
جناب ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی نے فرزانہ نیناںؔ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فرزانہ آج بھی اپنے ماضی سے جڑی ہوئی ہیں ان کے کلام میں استعمال کی گئی تراکیب اور موضوعات اپنی ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں ۔ان میں وہ ہی مناظر آج بھی دکھائی دیتے ہیں جو برسوں قبل چھوڑکر برطانیہ چلی گئیں تھیں ۔انہوں نے کہا کہ مُسفرہ انٹرنیشنل کے زیر اہتمام اس تقریب میں جتنے بھی شعراء نے شرکت کی ان کے کلام میں نیا پن اور اچھوتے موضوعات ہیں جو اب نا پید ہوتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن یہ اچھی بات ہے کہ نئے لکھنے والے اچھے شعرلکھ رہے ہیں ۔
محترمہ فرزانہ نیناں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں جب بھی آنا ہوا یہاں مقیم شعرا اور ادیبوں سے مل کر بہت خوشی ہوئی ۔ اور جس قدر اچھا کلا م یہاں لکھا اور پڑھا جا رہا ہے وہ بہت کم ہی سننے کو ملتا ہے اور دوسری اہم بات کہ یہاں یہاں مقیم شعراء باقاعدگی سے لکھ رہے ہیں اور ان کے کلام میں نکھار کی وجہ یہاں ڈاکٹر عاصم واسطی ، ظہورالالسلام جاوید اور بھی ہے۔۔انہوں نے سلیمان جاذب اور ان کی ٹیم کو پروگرام کے انعقاد پر سراہااور کہا کہ جب تک نئی نسل اردو ادب کی خدمت کے لئے آگے آتی رہے گی اردواپنی ترقی کی منازل طے کرتی رہے گی۔ تقریب میں ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی اور فرزانہ نیناں کے علاوہ یو اے ای میں مقیم شعراء جن میں ڈاکٹر ثروت زہرہ ، سلیمان جاذب، اختر ملک ، زاہد علی درویش ، کنول ملک ، علی زیرک ، آفتاب بابر ہاشمی اور خرم جان نے اپنا کلا م پیش کیا۔ اور پروگرام کے اختتام پر محترمہ فرزانہ نیناںؔ کو مُسفرہ انٹرنیشنل کے طرف سے اُنکی ادبی خدمات کے اعتراف میں تعریفی سندبھی ڈاکٹر عاصم واسطی ، ڈاکٹر ثروت زہرہ اور سلیمان جاذبؔ نے پیش کی۔
مشاعرہ میں پیش کئے گئے شعراء کرام کے کلام سے منتخب چند اشعار ذوقِ قارئین کی نذر
خرم جان
گھر سے باہر میں جاؤں تو کیسے
شہر کا شہر مجھ پہ ہنستا ہے
آفتاب بابر ہاشمی
دست سفاک میں تھے ظلم کے خنجر کتنے
آنکھ نے دیکھے ہیں کٹتے ہوئے منظر کتنے
علی زیرک
تم کہیں ہم کہیں پڑے ہوئے ہیں
راستے برف سے ڈھکے ہوئے ہیں
کنول ملک
جو ملا آج ایک مدت میں
کھو نہ جائے کہیں وہ عجلت میں
زاہد علی درویش
وہ جس کے عشق نے برباد کر دیا ہم کو
وہ ہم سے پوچھتے ہیں کیا ہوا محبت کی
اختر ملک
پھر تذکرہ کسی کا حوالے میں آ گیا
دریا کہیں سے ٹوٹ کے کھالے میں آ گیا
سلیمان جاذبؔ
ترے الفاظ تیرے ہیں تو ہوں گے
ترا لہجہ ترا لہجہ نہیں ہے
یقیناًخوشنما ہے دیکھنے میں
تمہارا شہر گھر جیسا نہیں ہے
ڈاکٹر ثروت زہرہ
زمیں سے پہلے زماں سے پہلے بس ایک میں تھی بس ایک تم تھے
نظر سے پرلے گماں سے پہلے بس ایک میں تھی بس ایک تم تھے
خدائے سادہ تمہیں خبر کیا یہ عشق کیا ہے وفور کیا ہے؟
کھلی ہوئی خوئے جاں سے پہلے بس ایک میں تھی بس ایک تم تھے
فرزانہ نیناںؔ
ہوا کے شور کو رکھنا اسیر جنگل میں
میں سن رہی ہوں قلم کی صریر جنگل میں
ہوا میں آج بھی روتی ہے بانسری نیناںؔ
اُداس پھرتی ہے صدیوں سے ہیر جنگل میں
صباحت عاصم واسطی
دیکھتا ہوں میں اسے منظر میں گم ہوتے ہوئے
اور پھر اپنی نظر سے دور ہو جاتا ہوں میں
عجب انداز کا آیا ہے اب کے زلزلہ عاصم
گری دیوار لیکن سایہ دیوار باقی ہے