قومی ایکشن پلان

Published on November 14, 2015 by    ·(TOTAL VIEWS 311)      No Comments

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ہرپاکستانی شہری اسLogo-G-M-Bajwa کشمکش میں ہے کہ اب کیاہوگا۔بتایاجاتاہے کہ ملک کی سیاسی حکومت اور فوجی قیادت نے یہ طے کیا ہے کہ وہ مل کر سیاسی اور سکیورٹی امور طے کریں گے۔ اس لئے انہیں مشترکہ طور سے کامیابیوں کا کریڈٹ لینے اور ناکامیوں کی ذمہ داری قبول کرنا پڑے گی۔ فوج آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھتے ہوئے باقی امور پر ناکامی کا الزام سیاسی حکومت پر عائد نہیں کر سکتی۔ قومی ایکشن پلان فوج کے اصرار پر منظور کیا گیا تھا۔ فوج ہی کے کہنے پر آئین میں اکیسویں ترمیم لائی گئی تھی اور فوجی عدالتیں قائم ہوئی ہیں۔ ہر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی JIT میں فوج کے نمائندے موجود ہوتے ہیں۔ پھر جنرل راحیل شریف اپنے کمانڈروں کے سامنے ان فیصلوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے سیاسی حکومت سے بہتری کا تقاضہ کیسے کر رہے ہیں۔ وہ خود اس سارے عمل کا حصہ ہیں۔ وہ خود ذمہ دار ہیں۔ انہیں نہ صرف اس فرض سے عہدہ برآ ہونا ہے بلکہ اس میں حائل مشکلات کو بھی خود ہی دور کرنا ہے۔
اب اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری چوہدری جعفر اقبال نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا جسے کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا، بل کے مندرجات کے مطابق ملزمان کی گرفتاری اور نظر بندی کو قانونی تحفظ ملے گا، مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے پہلے سے حراست میں لیے گئے شخص کو گرفتار تصور کیا جائے گا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے کسی اقدام پر کوئی مقدمہ یا ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی جاسکے گی۔نئے قانون میں گواہان اور عدالتی کارروائی چلانے والوں کو بھی تحفظ دیا جائے گا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ بل کا مقصد ملزمان کی گرفتاری، نظر بندی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قانونی کارروائیوں کو تحفظ دینا ہے،واضح رہے کہ اس سے قبل سکیورٹی فورسز کو تحفظ پاکستان ایکٹ کے ذریعے کسی بھی ملزم کو نوے روز کے لیے حراست میں رکھنے کا اختیار دیا جاچکا ہے۔
مبصرین اور ماہرین کاکہناہے کہ جنرل راحیل شریف نے بھی وہی بات کی ہے جو ہر روز گلی کوچوں ، ڈرائنگ رومز ، ٹاک شوز اور اخباری کالموں میں کہی جاتی ہے لیکن اس کی گونج قومی اسمبلی میں بھی سنائی دی۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ بات ملک کے سب سے طاقتور ادارے کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی طرف سے کی گئی ہے۔زراولپنڈی میں کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے آپریشن ضرب عضب میں کامیابی پرفوج کو شاباشی دی لیکن یہ گلہ بھی کیا کہ ملک کی سویلین حکومت فوج کی کامیابی کے نتیجے میں مستقل بنیادوں پر امن قائم کرنے کی بنیاد فراہم کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ فوج کے ادارہ تعلقات شعبہ عامہ کی پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں ناقص حکومتی کارکردگی کا حوالہ دیتے ہوئے خاص طور سے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد میں ناکامی ، فاٹا میں اصلاحات کے عمل کا نفاذ اور دہشت گردی کے واقعات میں قائم کی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹیوں JIT کی سست روی کا حوالہ دیا گیا۔ فوج کے سربراہ کی یہ شکایتیں درست ہیں۔ لیکن اگر وہ ملک کے سیاسی امور میں عملی طور سے شریک ہیں تو ان ناکامیوں کی ذمہ داری ان پر بھی اسی طرح عائد ہوتی ہے جس طرح ملک کے وزیراعظم کو اس کا قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاک فوج کے سربراہ نے دہشت گردی کے خلاف حکومتی سست روی کی شکایت کی ہے اور کہا ہے کہ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ حیرت انگیز طور پر وزیراعظم نواز شریف خود بھی انہی خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ایسی صورت میں فطری طور سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسائل سے آگاہی اور سویلین اداروں کی غیر اطمینان بخش کارکردگی کے باوجود وزیراعظم کیوں اس حوالے سے اقدام کرنے میں ناکام ہیں۔ فوج جو ملک میں سکیورٹی کی صورتحال بہتر بنانے کے لئے آگے بڑھ کر سیاسی حکومت کا ہاتھ بٹا رہی ہے، کیوں کر ان معاملات کی تکمیل کے لئے حکومت کے اقدام کی محتاج ہے۔ یا وہ کیوں اس عمل میں معاونت فراہم کرنے سے گریز کر رہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ جنرل راحیل شریف کی پریشانی بجا ہے لیکن اسے دور کرنے کے لئے انہیں خود مستعد ہونا پڑے گا اور اپنے زیر کمان اداروں کو چوکنا کرنا پڑے گا۔ انہیں خود یہ دیکھنا ہو گا کہ اگر انتہا پسندوں کے خلاف سندھ میں رینجرز سرگرم ہیں، بلوچستان میں ایف سی قوم پرستوں سے جنگ آزما ہے اور خیبر پختون خوا میں فوج دہشتگردوں سے برسر پیکار ہے تو پنجاب میں چھپے ہوئے انتہا پسند عناصر تک ان کا ہاتھ کیوں نہیں پہنچ سکتا۔ اگر فوج آئین میں ترمیم کروا سکتی ہے تو قومی ایکشن پلان کیوں ادھورا رہتا ہے۔ یہ سوال پوری قوم کے لئے باعث تشویش ہے۔ لیکن اس کا جواب صرف جنرل راحیل شریف کے پاس ہے۔

Readers Comments (0)




WordPress主题

WordPress Blog