پچھلے دنوں گھریلو مصروفیات میں ایسا اُلجھے کہ سَرکھجانے تک کی فرصت نہ ملی ۔موسم کی تبدیلی سے پروفیسرمظہر توباقاعدہ ’’بمارشمار‘‘ ہوکر بستر کے ہورہے اورتاحال اُنکا قلم ،کالم سے دورہے ،ویسے بھی وہ ’’موڈ‘‘ کے بندے ہیں اِس لیے اُن کا ’’کَکھ‘‘ پتہ نہیں ہوتا کہ کب کالم لکھیں گے اورکب نہیں۔ وہ مردم بیزارتو ہرگزنہں لیکن تقریبات میں جانابھی اُن کے موڈپر ہی منحصر ہوتاہے البتہ ڈاکٹرعمرانہ مشتاق کی طرف سے یوایم ٹی میں پُرتکلف ناشتے کی دعوت ملی توجانے کاپکّا ارادہ کرلیا کہ ناشتے کے ’’پائے‘‘ بہت اعلیٰ پائے کے ہوتے ہیں اورپروفیسر صاحب ’’پایوں‘‘ کے کچھ زیادہ ہی شوقین، لیکن بُراہو بخارکا جس نے نہ صرف پروفیسرصاحب بلکہ ہمارابھی ایساگھیراؤ کیاکہ اُٹھنے کی ہمت تک نہ رہی۔ لوجی ! ہم بھی کیاذاتی دُکھڑے لے بیٹھے حالانکہ ذاتی زندگی پرتو ہمارے ’’رہنماء‘‘ کافرمان ہے کہ کچھ شرم ہوتی ہے ،کچھ حیاہوتی ہے ،کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں، یہ الگ بات کہ ہمارے ’’مُنہ پھَٹ ‘‘تجزیہ نگارپتہ نہیں کہاں کہاں سے مثالیں ڈھونڈ کریہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ دُنیابھر میں سیاستدانوں کی ذاتی زندگی ذاتی نہیں رہتی اوراقوامِ عالم کامیڈیا کسی رہنماء کی لغزش پرانتہائی بے رحم ہوجاتا ہے۔ دُنیابھر میں اصول یہی ہے کہ عوامی مفادمیں رہنماؤں کی نجی زندگی کے بارے میں بھی اطلاعات بہم پہنچائی جائیں۔ فرانس کے سابق صدرنکولاس سرکوزی ، امریکہ کے سابق صدربل کلنٹن ،صدرفرانسوامتراں، سابق امریکی صدرکی جان ایف کینیڈی کی بیوہ جیکولین ،روسی صدرپوتن، اٹلی کے سابق وزیرِاعظم برلسکونے، نیلسن منڈیلا، ہوگوشاویز ،یونانی وزیرِاعظم آندرے ،پایاندریو سمیت بہت سے سربراہانِ مملکت اوروزرائے اعظم ایسے تھے جن کی نجی وذاتی زندگیوں کو میڈیانے اُدھیڑکے رکھ دیالیکن کسی نے اُف تک نہ کی۔ اِس کے علاوہ کھلاڑیوں اور سیاستدانوں کی نجی زندگیوں کے بارے میں بھی بہت کچھ لکھاجا چکااور لکھاجا رہاہے۔وجہ یہ کہ اِن لوگوں کا عوام کے جذبات ،احساسات اور مفادات سے براہِ راست تعلق ہوتاہے اوراِن کے کسی اچھے کام کی اگرکھُل کرتعریف کی جاتی ہے توجذبات کوٹھیس پہنچنے پرغُصّے کااظہار بھی اِن کاحق ہے۔ اگرکسی رہنماء کویہ منظورنہیں کہ اُس کا خاندان حرفِ تنقیدہو توپھر اُسے اپنے خاندان کو سیاست سے دورہی رکھناچاہیے ۔میاں برادران کے خاندان کے کسی فرد کانام کبھی میڈیاپر نہیںآیا سوائے حمزہ شہبازاور محترمہ مریم نوازکے ،جوپاکستانی سیاست میں’’اِن‘‘ ہیں جبکہ دوسری طرف کپتان صاحب نے ریحام خاں سے شادی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ ریحام خاں بھرپور سیاسی شعوررکھتی ہیں۔قوم نے اُنہیں جلسے جلوسوں میں بھرپور شرکت کرتے اوراپنے جذبات کااظہارکرتے ہوئے بھی دیکھا۔محترمہ توپاکستان کی ’’خاتونِ اوّل‘‘بننے کاخواب لے کر آئی تھی۔ اُس نے ایک صحافی کے سوال کاجواب دیتے ہوئے برملاکہا ’’اگرکل عام انتخابات ہوجائیں تومیں خاتونِ اوّل بن جاؤں گی‘‘۔ شنیدہے کہ کپتان صاحب کاطرزِ سیاست دیکھ کروہ مایوس ہوئی اورجب اُسے اپنے خواب ادھورے رہتے نظرآنے لگے تواُس نے سیاست میں اپنے آپ کواتنازیادہ نمایاں کرنے کی کوشش کی کہ کل کلاں تحریکِ انصاف کی قیادت سنبھال کراپنے تشنہ خوابوں کی تکمیل کرسکے ۔اُس کایہ رویہ عمران خاں کو پسندآیا نہ پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو ۔اگرکپتان صاحب کوزہر دے کرراستے سے ہٹانے کامعاملہ محض افسانہ طرازی بھی سمجھ لیاجائے تو پھربھی یہ توبہرحال طے ہے کہ وہ سیاست میں کپتان صاحب سے آگے نکلنے کی کوشش کررہی تھی اورتحریکِ انصاف کے کچھ رہنماء عمران خاں سے اپنی بات منوانے کے لیے ریحام خاں سے براہِ راست رابطے بھی کررہے تھے ۔ہمیں اِس سے کچھ غرض نہیں کہ طلاق کی صورت میں کپتان صاحب اورریحام خاں کے مابین لین دین کے کیامعاملات طے ہوئے کہ یہ خالصتاََ اُن کانجی معاملہ ہے لیکن عمران خاں کی شادی اورپھر طلاق دونوں ہی کسی بھی صورت میں نجی نہیں کہلائے جاسکتے کیونکہ اِن کابراہِ راست سیاست اورعوامی جذبات سے تعلق تھا۔ ایک عام سی غیرمعروف خاتون کاعمران خاں کی زندگی میں داخل ہوتے ہی لاکھوں کروڑوں لوگوں کی ’’بھابی‘‘ بن جانا’’نجی‘‘ نہیں کہلاسکتا۔ میاں برادران کے خاندان میں جب شادی کی کوئی تقریب ہوتی ہے توکسی کوکانوں کان خبرتک نہیں ہوتی لیکن خان صاحب نے تو کنٹینرپر کھڑے ہوکر اپنی شادی کی خوہش کااظہار کیا پھرتحریکِ انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے طلاق کااعلان کیا حالانکہ طلاق نامے پرفریقین کے دستخط سات ،آٹھ روزبعد ہوئے ۔اِس لیے کپتان صاحب اورتحریکِ انصاف کے رہنماؤں کی طرف سے میڈیا تنقیدپر چیں بہ چیں ہوناچہ معنی دارد۔
طلاق کامعاملہ توتقریباََ اختتام کوپہنچااور اگلے چنددنوں کے بعدپرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاکے ہاںیہ قصّۂ پارینہ بھی بن جائے گالیکن خاں صاحب نے پاکستانی سیاست میں جونئی ’’طرح‘‘ ڈالی ہے وہ توبہرحال میڈیاکو مرغوب ہی رہے گی ۔شاید یہ خاں صاحب کاواحد سچ ہوکہ’’میں کبھی شکست تسلیم نہیں کرتا‘‘کیونکہ عملی طورپر بھی ایساہی کررہے ہیں۔لاہور کے حلقہ 122 کے ضمنی انتخاب میں ایازصادق کی دوبارہ جیت کوقبول نہیں کیا گیا۔ عمران خاں کہتے ہیں کہ لگتاہے کہ حلقہ 122 میں ایک دفعہ پھرضمنی انتخاب ہوگا۔ دراصل خاں صاحب کوالیکشن ،الیکشن کھیلنے کاشوق ہی بہت ہے ۔ چالیس سال تک انگلینڈمیں رہنے کے بعد پاکستانی سیاست میں طبع آزمائی کے شوقین سرورچودھری نے دورکی کوڑی لاتے ہوئے کہہ دیاکہ الیکشن کمیشن نے دھاندلی کرتے ہوئے ہمارے ووٹردوسرے حلقوں میں بھیج دیئے ،ثبوت وہ ایک بھی پیش نہیں کر سکے۔ ایک حلقے سے دوسرے حلقے میں ووٹ کی منتقلی کاایک مخصوص طریقِ کارہے اورالیکشن کمیشن کے مطابق کوئی ایک ووٹ بھی ایسانہیں جسے مخصوص طریقِ کاراپنائے اورووٹرکی مرضی کے بغیرکسی دوسرے حلقے میں منتقل کیاگیا ہو۔ پھر پتہ نہیں کس بنیادپر دھاندلی کاشور مچایاجا رہاہے ۔کیاپاکستان میں صرف تحریکِ انصاف ہی ایسی جماعت ہے جومتقیوں اورپرہیزگاروں پرمشتمل ہے؟۔ کیازبانِ خلق نقارۂ خُدانہیں ہوتی؟۔ کیااکابرینِ تحریکِ انصاف کوادراک نہیں کہ وہ میدانِ سیاست میں تنہا ہوتے جارہے ہیں؟۔ سپیکرکے انتخاب میں ایازصادق کو 300 میں سے 268 ووٹ ملے اورشفقت محمودکو صرف 31 ۔ایازصادق کی جیت توطے تھی لیکن شفقت محمودکو تو تحریکِ انصاف کے اتحادیوں نے بھی ووٹ نہیں دیئے۔ ہم توتحریکِ انصاف کوقومی دھارے میں شامل ہونے کی استدعا ہی کرسکتے ہیں کہ اگرایسا نہ ہوا تو تحریکِ انصاف کاانجام بھی تحریکِ استقلال کی طرح ہونا اظہرمن الشمس ہے۔