ہلوبھائی کیا حال ہیں؟میں برکت دین بات کررہاہوں ۔میں ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم ہوں ۔بھائی آپ اخبار میں لکھتے ہیں؟ میں نے ہاں میں جواب دیا۔ بھائی میں نے بھی کچھ لکھا ہے۔ میں نے پوچھاآپ نے کیا لکھا ہے؟۔ میرے سوال پربرکت دین بولا میں ساری رات بیٹھا سوچتا رہتا ہوں کہ تبدیلی کیسے آئیگی؟ باہر کے بنکوں میں پڑی ملکی دولت کیسے واپس آئیگی۔ہم کب تک یہودیوں سے سود پرقرض لے کر ملک کا نظام چلائیں گے؟کب تک ہمارا تعلیمی ڈھانچہ اسلام کے مطابق ڈھلے گا؟ باہر کی طاقتیں ہماری سرحدوں پر کب تک حملے کرتی رہیں گی اور خاص طور پر کب ہمارے بچوں کوخالص غذا کھانے کو ملے گی؟ہرطرف ملاوٹ کا راج ہے۔جان بچانے والی ادویات کا کوئی اعتبار نہیں،ناپ تول میں کمی ہماراقومی فریضہ بن چکاہے۔ایک دوسرے کو دھوکہ دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ ثوات کا کام ہو۔میں نے برکت دین سے دوبارہ سوال کیا آپ نے کیا لکھاہے؟وہ بولا بھائی میں لکھنے بیٹھتا ہوں توذہن بہت سی باتوں میں اُلجھ جاتاہے ۔ایسا الجھتا ہے کہ پھر لکھناتودور کی بات ہے کچھ پڑھنا بھی ممکن نہیں رہتا پر آپ میری فرمائش پرملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کے خلاف ایک کالم ضرور لکھنا۔میں سمجھ گیا برکت دین بھی میری طرح کچھ کہنا چاہتا ہے پر الفاظ اکھٹے کرنے میں ناکام ہے،کچھ کرنا چاہتا ہے پر مقدر کے ہاتھوں مجبور ہوکررہ جاتاہے،کچھ لکھنا چاہتا ہے پر ابھی تک لکھ نہیں پایا ۔خیر جی راقم نے برکت دین سے ناپ تو میں کمی اور ملاوٹ کے خلاف لکھنے کا وعدہ کرلیا ۔ایک سادہ دل انسان کی فرمائش بھی انتہائی سادہ رہی ،کیا جی ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کے خلاف لکھوں ،ارے بھائی میرے لکھنے سے آج کے تاجروں کو کیا فرق پڑے گاجبکہ ملاوٹ کے خلاف اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺکے حکمات موجود ہیں اور پچھلی قوموں پر ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کے باعث آنے والے عذاب بھی سامنے ہیں۔ایک دن نبی کریمؐ کا گزر مدینہ منورہ کے بازار سے ہوا۔ دونوں طرف بازار سجا ہوا تھا۔ ایک شخص گندم کا ڈھیر فروخت کیلئے سجائے بیٹھا تھا۔ گندم اتنی اچھی نظرآرہی تھی کہ خریدداروں کودورسے متوجہ کر رہی تھی۔ حضورﷺ کے قدم مبارک بھی اس کے پاس جاکر رک گئے۔ آپﷺ نے گندم میں ہاتھ ڈالا تو وہ اندر سے گیلی تھی۔ آپﷺ نے گندم ہاتھ میں پکڑ کر فرمایا! کہ تم نے ایسا کیوں کیا،؟اس نے جواب دیا، اچھا منافع کمانے کے لئے۔ حضورﷺ نے فرمایا! جس نے سچائی کو جھوٹ کے پردے میں چھپایا(ملاوٹ کی) وہ ہم میں سے نہیں۔ حضور پاک ﷺنے جھوٹ بول کر مال بیچنے اور ناجائز منافع کمانے والوں کو اپنی اُمت سے خارج کر دیا۔ دین اسلام میں تجارت ایک مقدس پیشہ ہے جس سے انسان بہترین طریقے سے ملک و قوم کی نہ صرف خدمت کرسکتا ہے بلکہ اس کی ترقی میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ سرکار دو عالم نے فرمایا، سچے اور امانت دار و دیانت دار تاجر کا حشر صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا جو تاجر مشقت و تکلیف اٹھا کر کاروبار کرتا ہے اور قیمت میں زیادتی نہیں کرتا، اس کا درجہ صدقہ کرنے کے برابر ہے۔ یہاں تک کہ رزق حلال کو عبات قرار دیا گیا۔ ہر معاشرے کے کچھ اصول اور رواج ہوتے ہیں۔ جوانکی تعلیمات کا حصہ یا انکے بڑوں کے تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ جب معاشرے اپنی بنیاد سے روگردانی کرتے ہیں تو ان کی تباہی لازم ہوجاتی ہے۔ حضرت شعیب ؐکی قوم کو اللہ تعالیٰ نے کم ناپ تول کرنے اور ناجائز منافع خوری کی وجہ سے قیامت تک کے لئے عبرت کا نشان بنایا دیا۔ جس معاشرے میں ناپ تول میں کمی اور منافع خوری عام ہو جائے اللہ اس سے خیروبرکت اٹھا لیتا ہے،رحم و کرم کے دروازے بند کردیتاہے۔ تجارت میں سچائی اور دیانت وہ نعمت تھی جس کے بل بولتے پر مسلمان تاجر جہاں بھی گئے وہاں اسلام کا بول بالا ہوا۔ اسلام بہت حد تک ان ایمان دار تاجروں کے حسن سلوک اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ستھرا مال بیچنے کی وجہ سے پھیلا ۔ ذخیرہ اندوزی کرنا، ملاوٹ کرنا، ناپ تول میں کمی، کسی خریدار کو عیب والا مال بیچنا، جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنا یا عمدہ چیز بتا کر خراب چیز فروخت کرنا، ذخیرہ اندوزی کر کے چیزوں کی مصنوعی قلت پیدا کرنا۔ اور پھر چیزوں کو مہنگے داموں بیچنا، یہ وہ تمام چیزیں ہیں جن کی اسلام میں سختی سے نہ صرف ممانعت ہے بلکہ ایسے لوگوں کے لئے جہنم کی آگ تیارہے۔ حضرت عمر فاروقؓ فرماتے ہیں نبی کریمﷺ نے ذخیرہ اندوزی کرنے والے کو ملعون قرار دیا۔ ملاوٹ کرنے والوں کے لئے رسول کریمﷺ نے فرمایا جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے (مسلم شریف)۔ ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو حضورﷺ اپنی امت سے خارج دیں اور ہم اسی شعار کو اپنالیںیہ انتہائی نقصان کا سودا ہے۔ ملاوٹ کرنا، ناپ تول میں کمی کرنا اور پوری قیمت وصول کرنا، اچھامال دکھا کر خراب مال بیچنا کیا آج ہمارے معاشرے میں یہ چیزیں عام نہیں ہوگئی ہیں؟ یہ چیزیں اب ایک مافیا کی صورت اختیار کر گئی ہیں۔افسوس صد افسوس کہ آج ناصرف کھانے پینے کی اشیاء بلکہ ہمارے رویوں ،اخلاق،آپسی پیارومحبت اور بھائے چارے میں بھی انتہائی ملاوٹ ہوچکی ہے ہم بات بات پر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں ،دوسروں کو نیچا دیکھانے کیلئے ہر وقت سازشیں کرتے رہتے ہیں ،خودغرضی کی حد کہ ہم ایک دوسرے کو خوشحال دیکھنا بھی نہیں چاہتے ہیں،دوسروں کو تکلیف میں پاکر جھوٹی ہمدردی کے ساتھ طنزکے نشتر چلانا معمول بن چکا ہے۔