صحافت سے وا بستگی کے بعد لکھنا کبھی اتنا مشکل تو نہیں تھا جس قدر آج دقت کا سا منا ہو رہا ہے قلم اور کا غذ پکڑے سو چو ں میں گم ہوں مگر خیا لات ،احساسات اور جذ بات الفاظ کے روپ میں ڈھلنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ذ خیرہ الفاظ یوں کم دکھا ئی دے رہا ہے کہ شا یدلکھنے لکھا نے سے کبھی وا سطہ ہی نہ پڑا ہو اپنی اس کیفیت پر خو د ہی شرمندگی کا احساس ہو رہا ہے سکتے کا شکار ہوں وہ کو ن سی خبر ہے جس نے سوچنے کی صلا حیت سے مفلوج کر دیا ہے لکھنا چا ہوں بھی تو لکھ نہیں پا رہاہوں صرف سو چوں کے دا ئرے میں گھر چکا ہوں کہ وطن عزیز میں کرپشن ظلم وزیادتی ،ناانصافی،استحصال اور بدترین بد انتظامی کے خاتمے اور گڈگورنس کے مطالبے پر سیاست دانوں کا سیخ پا ہونا اور خصوصاََاپوزیشن لیڈرخورشید شاہ کی ہرزہ سرائی دیکھ کر سر شرم سے جھک گیا ہے ۔اپوزیشن لیڈرجس کا کام ہی حکومتی خامیوں کی نشاندہی کرنا ہوتا ہے جس کی ذمہ داری ہی عوامی مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔جس کو اپوز یشن لیڈر منتخب ہی اس لیے کیا جاتا ہے کہ جب آ ہین کی پامالی ہو رہی ہویا بنیادی حقوق کی دھجیاں بکھر رہی ہوں تو وہ حکومت وقت کو راہ راست لانے میں اہم کردار ادا کرئے مگر یہاں تو عجیب ہی منظر دیکھنے کو مل رہا ہے جسے دیکھ کر چشم فلک بھی محوحیرت ہے کہ ارکان اسمبلی کی لوٹ مار کی بے نقابی حکومتی بد انتظامی اور وزرا ء کی طرف سے امور سلطنت میں عدم دلچسپی پر اپوزیشن لیڈر حکومت کی حمایت کرتے ہوئے بلکہ ہلہ شیری دیتے ہوئے نظر آ رہیں جب کہ محمود اچکزئی شریف خاندان کو قدم بڈھاو ا نواز شریف ہم تمھارئے ساتھ ہیں کہ فامولے پر عملدرآمدکرنے کا مشورہ د ے رہے ہیں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کہتے ہیں کہ سسٹم کو ہر صورت چلنا چاہیے۔مگر میرا سوال یہ ہے کہ کون سا سسٹم ،کیسا سسٹم،وہ سسٹم جس میں ایک میٹرریڈر چند سالوں میں اپوزیشن لیڈر تک کا سفر طے کر لے وہ سسٹم جس میں محمود اچکزئی کا پورا خاندان حکومتی عہدوں اور پرکشش مراعات سے لطف اندوز ہو رہا ہو وہ سسٹم جس میں مولانا فضل الرحمان سدابہار چیرمین کشمیر کمیٹی کی کرسی کے مزئے جھولتے ہیں وہ سسٹم جس میں الطاف حسین ’’را ‘‘ سے مالی ،ا خلاقی اور دفا عی مدد مانگ کربھی محب وطن کہلائے وہ سسٹم جس میں نیب زدہ سیاست دان وزراء اعظم ،وزرا ء اعلیٰ اور وزرا ء قلیدی ریاستی عہدوں پر فائزہو جاتے ہیں وہ سسٹم جس میں کروڑوں کی کرپشن کو برا نہ سمجھا جائے وہ سسٹم جس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بے روز گاری سے تنگ آ کر جرائم کی دنیا میں داخل ہو کر مجرم کہلاتے ہیں جب کہ پیسے اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر جعلی ڈگری کے سہارئے رکن اسمبلی بن کر مراعات کے مزئے لوٹتے ہیں ایسا سسٹم جس میں ہر طرف رشوت کا بازار گرم ہوقتل و غارت روزکامعمول بن چکا ہولا قانونیت کا رقص جاری ہوچادراور چار دیواری کاکا تحفظ خواب بن گیا ہو ایسا سسٹم جس میں پانچ سو روپے چوری کرنے والاپابندسلاسل اور کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث اقتدار کے جھولے جھولنے میں مصروف ہو ایسا سسٹم جس میں میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اقرا پروری کے فروغ پر فخر محسوس کیا جارہا ہووہ سسٹم جس میں وطن عزیزکے شہری بنیادی سہولتوں سے محروم ہوں اور ارکان اسمبلی ماہانہ لاکھوں روپے تنخواہ اور مراعات کی مد میں وصول کر رہے ہوں ایسا سسٹم جس میں عوام مہنگائی ،بے روزگاری اور تنگدستی کی چکی میں پس رہی ہوایسا سسٹم جس میں عوامی نمایندے منتخب ہونے کے بعد اگلے انتخابات تک چہرہ دکھانے میں ہتک محسوس کرتے ہوں ایسا سسٹم جس میں کمیشن مافیا،قبضہ مافیا اور بھتہ مافیاکا راج ہوایسا سسٹم جس میں سیاست دان اور حکومتی ارکان قومی وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں
جی ہاں۔۔۔ایسے سسٹم کو چلنا ہی چاہیے کیونکہ خورشیدشاہ۔محمود اچکز ئی ۔الطاف حسین ۔فضل الرحمان ۔اسفندیار ولی خاں رانا ثنااللہ ۔خواجہ سعد رفیق۔پرویز رشید ۔خواجہ آصف ۔طلال چوہدری ۔دانیال عزیز ۔ آصف علی زرداری،رحمان ملک اور شریف برادران اس تعفن زدہ
ماحول میں ہی زندہ رہ سکتے ہیں ۔مگر یاد رکھیں جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے استحصال اپنی حد سے گزر جاتا ہے اور ہر طرف مایوسی ڈیرے ڈال لیتی ہے تو پھر مایوسی کے اندھیروں میں گھرا استحصال زدہ طبقہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ظالموں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے میدان میں نکلتا ہے خدا کے لیے ایسا وقت آنے سے پہلے اپنی اصلاح کر لیں ۔قبل اس کے سوئی ہوئی عوام بیدار ہو جائے ۔