حالیہ دورہ امریکہ کے دوران آرمی چیف پاکستان جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری اور خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لئے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے، کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل وجہ نزاع ہے، اس لئے جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا، دونوں ملکوں میں تعلقات کی بہتری کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ماضی قریب و بعید میں مسئلہ کشمیر کو نظر انداز کر کے تعلقات کو بہتر کرنے کی جتنی بھی کوششیں ہوئیں وہ ناکام ہو گئیں، اول تو ایسی کوششوں کی گاڑی چل ہی نہ سکی اور چل پڑی تو تھوڑی دور جا کر رک گئی۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت پر بھی بہت زور دیا جاتا رہا ہے، اور اس وقت بھی کسی نہ کسی انداز میں یہ تجارت ہو رہی ہے، لیکن تعلقات کی کشیدگی کا براہ راست منفی اثر فوری طور پر تجارت پر ہی پڑتا ہے، اچھی بھلی تجارت ہو رہی ہوتی ہے اور سیاسی سطح پر کوئی واقعہ تجارت کا پہیہ جام کر دیتا ہے۔
امریکہ نے مقبوضہ کشمیر میں تشدد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنا ہوگا، اس سلسلہ میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے واشنگٹن میں پریس بریفنگ میں کہا کہ مسئلہ کشمیر پر امریکہ کا موقف پرانا ہے۔ ترجمان کے بقول امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے دہشتگردوں کیخلاف پاک فوج کے آپریشن کو سراہا ہے جبکہ جنرل راحیل شریف کے دورہ واشنگٹن میں خطے کی سلامتی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
امریکہ کو بھی پاکستان اور بھارت کے مابین جاری تنازعہ کشمیر کے حوالے سے ہی علاقائی اور عالمی سلامتی کو خطرہ لاحق نظر آرہا ہے، یواین سیکرٹری جنرل بانکی مون بھی اسی تنازعہ پر تشویش کا اظہار کرکے اسکے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ اسی طرح برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی کشمیر ایشو پر ہی دونوں ممالک کے مابین جاری سرحدی کشیدگی پر تشویش ظاہر کرچکے ہیں اور یورپی یونین کی پارلیمنٹ بھی اپنی قرارداد کے ذریعے پاکستان اور بھارت پر مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دے چکی ہے تو کیا انہیں تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان کیساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیلئے بھارت پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔اگر بھارت نے اپنی دیرینہ ڈھٹائی کو برقرار رکھتے ہوئے کشمیر پر بزور اپنا تسلط جمانے کی بدنیتی کے کھلم کھلا اظہار کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے تو اسکے یہ عزائم علاقائی اور عالمی سلامتی کیلئے خطرات بڑھانے والے ہی ہیں۔ اگر ان عزائم کو بھانپ کر بھی امریکہ اور علاقائی و عالمی سلامتی کو لاحق خطرہ محسوس کرنیوالے دیگر ممالک بھارت ہی کیساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے معاہدے اور جدید ایٹمی اسلحہ کی فراہمی میں اسکی سرپرستی کررہے ہیں تو اسکے جنگی جنون میں اضافہ کرکے وہ اسکے ہاتھوں امن و سلامتی کیلئے خطرات خود ہی بڑھا رہے ہیں۔ اسی تناظر میں بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے بھی گزشتہ نئی دہلی میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہی پاکستان بھارت کشیدگی کی بنیادی جڑ ہے جبکہ بھارت نے پیشگی شرائط عائد کرکے دوطرفہ مذاکرات کی راہیں مسدود کردی ہیں۔ صرف یہی نہیں‘ بھارت تو پاکستان پر نئی جارحیت مسلط کرنے کی منصوبہ بندی بھی کئے بیٹھا ہے جس کا وہ جنگی جنون اور اپنی حربی برتری کے زعم میں کھلم کھلا اظہار بھی کررہا ہے اور اسی مقصد کے تحت بھارت کی مودی سرکار نے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر یکطرفہ فائرنگ اور گولہ باری کے ذریعے قائم کی گئی کشیدگی میں ایک لمحہ کیلئے بھی کمی نہیں آنے دی۔ اب تو اس نے کشیدگی بڑھانے کیلئے پاکستان کی جانب آنیوالا دریائے چناب کا پانی بھی روک لیا ہے جس سے پاکستان کی زرعی اراضی متاثر ہوگی تو اس کا ردعمل بھی دوطرفہ کشیدگی بڑھانے کا باعث بنے گا۔ یہی بھارت کی حکمت عملی ہے کہ کسی بھی محاذ پر پاکستان کو چین سے نہ بیٹھنے دیا جائے چنانچہ مودی سرکار پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتی اور ساتھ ہی ساتھ اپنی جنگی جنونی تیاریوں میں بھی مصروف ہے جبکہ وہ اپنے تربیت یافتہ دہشتگردوں کے ذریعے پاکستان کے اندر دہشتگردی کو پھیلانے کی سازشوں میں بھی مصروف عمل ہے اور ان سازشوں کو خود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پروان چڑھا رہے ہیں جن کا ماضی کا ریکارڈ بھی انکی پاکستان دشمنی کی گواہی دے رہا ہے اور پاکستان توڑنے کی مکتی باہنی کی تحریک میں خود حصہ لینے کا اعتراف کرکے بھی مودی اپنی پاکستان دشمن سوچ اور آئندہ کے عزائم آشکار کرچکے ہیں۔ امن کی داعی عالمی قیادتوں سے یہ بھارتی عزائم ڈھکے چھپے نہیں رہے جبکہ مودی سرکار کو پاکستان اور مسلم دشمنی پر مبنی اپنے ایجنڈے پر بھارت کے اندر بھی سخت مزاحمت کا سامنا ہے جس کے ان عزائم کو بھارت کے دانشوروں‘ کھلاڑیوں‘ فنکاروں اور سابق فوجیوں نے بھی احتجاجاً اپنے سرکاری میڈل واپس کرے عالمی برادری کے سامنے بے نقاب کردیا ہے اس لئے امریکہ اور دوسری عالمی قیادتیں اس بھارتی جنونیت سے آگاہ ہونے کے باوجود بھارت کیساتھ جنگی‘ دفاعی تعاون اور ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے معاہدے کر رہی ہیں تو اس سے بڑی منافقت اور دہرا معیار اور کیا ہو سکتا ہے۔ انہیں تو بھارت کی مودی سرکار کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی سلامتی کو لاحق خطرات بھانپ کر بھارت کے جنونی ہاتھ روکنے کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے چہ جائیکہ اسے ہر قسم کے جدید اور روایتی اسلحہ سے لیس کرکے اسکی جنگی جنونیت بڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔
اگر عالمی قیادتوں کو فی الواقع علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق خطرات پر تشویش ہے تو وہ بھارتی جنونی ہاتھ روک کر اور یواین قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کراکے ہی ان خطرات کو ٹال سکتی ہیں۔ یہ عجیب صورتحال ہے کہ امریکہ کو پاکستان اور بھارت کے مابین جاری دیرینہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے علاقائی اور عالمی امن کو لاحق ہونیوالے خطرات پر بھی تشویش ہے جبکہ دوسری طرف وہ بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دے کر اسکے ساتھ سول ایٹمی تعاون کے معاہدے بھی کررہا ہے اور اسکے ساتھ جدید ترین اسلحہ اور گولہ بارود کی فراہمی اور تیاری کے معاہدوں میں بھی خود کو باندھ رہا ہے۔ بھارت کیساتھ امریکی سول نیوکلیئر تعاون کا معاہدہ امتیازی پالیسی کا غماز ہے جبکہ بھارت نے حالیہ دنوں میں ہی برطانیہ اور آسٹریلیا کیساتھ بھی ایٹمی تعاون کے معاہدے کئے ہیں۔ یہ صورتحال تو بھارت کو مزید بدمست بنا کر اسکے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کی تباہی کی نوبت لانے کی غمازی کررہی ہے جبکہ کشمیر ایشو پر پاکستان کیساتھ مذاکرات کے دروازے بھارت پہلے ہی رعونت کیساتھ بند کرچکا ہے۔ عالمی برادری کوچاہیے کہ جنوبی ایشیاء میں ایٹمی امتیازی پالیسیاں روا نہ رکھی جائیں کیونکہ ان پالیسیوں کی بدولت خطہ کے سٹرٹیجک استحکام پر مضر اثرات مرتب ہونگے۔ دو نوں ملکوں کے مابین تعلقات معمول پر لانے اور بر صغیر میں امن واستحکام کے قیام کی خاطر مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کیا جانا از حد ضروری ہے۔
***