بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
ادب کے میدان میں بہت سے شاہکار آئے اور اپنا اپنا کردار ادا کرکے چلے گئے مگران کی ادبی خدمات کی وجہ سے وہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی ادبی خدمات ان کو کبھی مرنے نہیں دیں گی۔ آج اردو ادب کا ایک اور پھول مرجھا گیا۔با پ کی طرف مرزا غالب کے خانوادے اور ماں کی طرف سے خواجہ میرد ردکے خاندان سے تعلق رکھنے والے جمیل الدین عالی( 23نومبر2015) کو قریباً نوے برس کی عمرمیں اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے۔ وہ کافی عرصہ سے علیل تھے اور کراچی کے نجی ہسپتال میں زیر علاج تھے۔جمیل الدین عالی اردو ادب کا وہ شاہکار ہے جس کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آپ ادیب اور شاعر ی کے حوالے سے پاکستانی ادب میں اپنا مقام آپ رکھتے ہیں۔
جمیل الدین جن کا تخلص عالی تھا وہ20 جنوری 1926ء کوبھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم دہلی سے حاصل کی۔ معاشیات ، تاریخ اور فارسی میں بی اے کیا۔ 1951ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور پاکستان ٹیکسیشن سروس کے لیے نامزد ہوئے۔ 1963ء میں وزارت تعلیم میں کاپی رائٹ رجسٹرار مقرر ہوئے۔ اس دوران میں اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو میں فیلو منتخب ہوئے۔ اس کے بعد دوبارہ وزارت تعلیم میں بھیج دیا گیا۔ لیکن فوراً گورنمنٹ نے عالی صاحب کو ڈیپوٹیشن پر نیشنل پریس ٹرسٹ بھیج دیا جہاں پر انہوں نے سیکرٹری کی حیثیت سے کام کیا۔ 1967ء میں نیشنل بینک آف پاکستان سے وابستہ ہوئے اور سینٹر ایگزیکٹو وائس پریزیڈنٹ کے عہدے تک پہنچے وہاں سے ترقی پا کر پاکستان بینکنگ کونسل میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ایڈوائزر مقرر ہوئے۔
جمیل الدین عالی نے نظمیں ، دوہے، ملی نغمے اور گیت تحریر کرنے کے علاوہ ہزاروں اشعار پر مبنی ایک طویل رزمیہ نظم ’ انسان ‘ پر کام کررہے تھے جسے اردو ادب کا ایک شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے۔ جمیل الدین عالی کی متعدد تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان کو بہت سے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ آپ کو 1989ء میں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی بھی ملا۔
صدر ایوب خان کے عہد میں پاکستان رائٹرز گلڈ انہی کی کاوشوں سے وجود میں آئی جس کی ترقی اور فروغ کے لیے وہ ہمہ تن کوشاں رہے۔جمیل الدین عالی پاکستان رائٹرز گلڈ کے اعلیٰ عہدوں پر رہنے کے علاوہ انجمن ترقی اردو سے بھی وابستہ رہے اور اپنی انتہائی قابلیت سے ملک میں اردو زبان کی ترقی اور ترویج کے لیے کام کرتے رہے۔ پاکستان کے معروف اخبارات میں کئی دہائیوں تک وہ باقاعدگی سے کالم لکھتے رہے جن کا مجموعہ ’ دعا کرچلے‘ اور ’صدا کرچلے‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔ ان کے کالم دنیا بھر میں مقبول ہوئے۔
انجمن ترقی اردو اور اردو ڈکشنری بورڈ کے تحت جمیل الدین عالی نے لازوال کوششیں کیں اور پاکستان رائٹرز گلڈ سے ادیبوں کے لیے خصوصی ایوارڈز کا اجرا کیا جو کئی برس تک جاری رہا۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ رنگ اور مستقبلیات کی جھلک بھی ملتی ہے اور ان کے تحریر کردہ ملی نغمے آج بھی زبان زدِ عام ہیں۔ جمیل الدین عالی بابائے اردو مولوی عبدالحق کے شاگرد رہے اور ابنِ انشا سے لے کر قدرت اللہ شہاب تک کے رفیقِ کار رہے۔
جمیل الدین عالی نے دودرجن سے زائد گیت قلمبند کئے ۔آپ ملی نغموں کے بھی مقبول شاعر رہے۔ 1965 کی جنگ میں ’اے وطن کی سجیلے جوانوں، میرے نغمے تمہارے لیے ہیں‘ گیت لکھا جس نے نورجہاں کی آواز میں کافی مقبولیت حاصل کی۔ 90 کے دہائی میں ’جیوے جیوے پاکستان‘ مقبول رہا۔ اس کے بعد پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے لیے ’ہم مصطفوی مصطفوی ہیں‘ لکھا جسے مہدی ظہیر نے گایا۔
انہوں نے سفرنامے ، دوہے، غزلیں، نظمیں، نثر، اور کالم تحریر کئے جن میں سے ہر تخلیق کا انداز جداگانہ ہے جو ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔جمیل الدین عالی نے سیاست میں بھی قدم رکھا۔ انھوں نے 1977 میں کراچی کے حلقہ 191 سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا لیکن ناکام رہے بعد میں 1997 میں وہ ایم کیو ایم کے حمایت سے سینیٹر بنے۔
جمیل الدین عالی کے انتقال شعبہ ادب کے لیے بڑا خلاہے جس کا پُر ہونا ناممکن ہے۔ آج ادبی دنیاکا یہ جگمگاتا ستارہ ہماری ادبی دنیا کو اندھیروں میں ڈبوگیا۔اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ اللہ ان کو کروٹ کروٹ اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔