ماہِ رواں کے دوسرے ہفتے میں ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے برطانیہ کا دورہ کیا ۔ اِس دورے کے موقع پر عالمی سطح پر مودی کو وہ پذیرائی نہیں ملی جو دورہ امریکہ کے وقت ملی تھی ۔ امریکہ میں انہوں نے گوگل ، مائیکرو سافٹ اور فیس بک سمیت کئی بین الاقوامی اداروں کا دورہ کیا ۔ اُس دورہ کو ذرائع ابلاغ میں غیر معمولی کوریج بھی ملی تھی، جبکہ دورہ برطانیہ کئی حوالوں سے مایوس کُن تھا ۔ ایک تو دورہ برطانیہ کے موقع پر کشمیری ، نیپالی ، سری لنکن اور بہت سے ہندوستانیوں نے ان کی آمد پر 10ڈاوننگ اسٹریٹ کے باہر مظاہرے کئے ۔ دوسرا برطانوی ذرائع ابلاغ میں بھی وزیر اعظم مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی ہوئی ۔ برطانوی پارلیمنٹ کے اپوزیشن لیڈر نے نہ صرف وزیر اعظم مودی کے خطاب کا بائیکاٹ کیا ۔ بلکہ ان کے اعزاز میں ہونے والی دیگر تقریبات میں بھی احتجاجاً شرکت نہیں کی ۔ اقتصادی حوالوں سے تو نریندر مودی کچھ نہ کچھ حاصل کرپائے ہیں مگر اِن کی اخلاقی ساکھ پر برطانوی معاشرے میں طرح طرح کے سوالات اُٹھتے رہے ، برطانوی عوام اور پریس نے نریندر مودی کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ خاص طور پر ہندوستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور عدم رواداری کی برطانوی پالیسیاں اور برطانوی اپوزیشن لیڈر کے بائیکاٹ نے یقیناً ہندوستان کے پالیسی سازوں اور لابنگ کرنے والے اداروں کو یہ اَمر ضرور باور کرایا ہوگا کہ اب مہذب دنیا میں نفرت ، تشدد اور عدم رواداری کی کوئی گنجائش نہیں ۔ مودی کے دورہ برطانیہ کے موقع پر مجھے ذاتی طور پر نہ صرف احتجاج کو دیکھنے کا موقع ملا بلکہ احتجاجی مظاہرین کے قائدین سے تبادلہ خیال نے بھی میرے اندر یہ احساس اُجاگر کیا کہ مستقبل میں کئی تنازعات مودی کا ساری دنیا میں آسیب کی طرح تعاقب کرتے رہیں گے ۔ وہ سانحہ گجرات سے جتنی بھی جان چھڑانے کی کشش کریں ۔ مگر دو ہزار بے گناہ مسلمانوں کا خون اُن کی گردن پر ہے۔12 نومبر کو برطانوی پارلیمنٹ کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے وہاں سے عام آدمی کا گزرنا بھی مشکل تھا ، ہزاروں لوگ سیاہ جھنڈیوں کے ساتھ مودی کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے تھے ۔ سکھ فیڈریشن کا احتجاج انتہائی موثر تھا ۔ بہت سے احتجاجی بینروں اور پلے کارڈز پر نریند مودی کو ہٹلر کے روپ میں دکھایا گیا تھا اور بعض پر لکھا تھا مودی دہشت گرد ہیں ۔ مظاہرین میں برطانوی کشمیری ، دلت،سکھ ، سری لنکن اور نیپالی ایسوسی ایشنوں کے نمائندگان سرفہرست تھے ۔ خود ہندوستان کی انسانی حقوق کی تنظیموں کے کارکن بھی سراپا احتجاج تھے ۔ بعض جگہوں پر برطانوی شہری بھی مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے شامل تھے ۔ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ایک ایسا وزیر اعظم جس کے دامن پر بے گناہوں کے خون کے دھبے ہیں جس کی امن مخالف پالیسیوں سے ہمسایہ ممالک بھی متاثر ہورہے ہیں ،ان کے اس دورے پر پاکستانی ذرائع ابلاغ نے بہت کم وقت دیا ۔ اس موضوع پر مذاکرے ، مباحثے ، ٹاک شوز نہ ہونے کے برابر تھے ، ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔ اس پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے ۔ کم از کم کشمیریوں اور سکھوں کے حوالے سے تو یہاں میڈیا رپورٹس شائع ہونی چاہئیں تھیں کیونکہ کشمیریوں کی پاکستان اخلاقی سپورٹ کرتا ہے اور جبکہ خالصتان تحریک اپنے عروج کے دنوں میں پاکستان میں کافی توجہ حاصل کرپائی تھی ۔ اس موقع پر میں نے ایک سکھ رہنما سے سوال کیا کہ آزادی کے وقت قائد اعظم محمد علی جناح سکھوں کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے کیا اُس وقت اُن کی بات نہ مان کر آپ لوگوں نے خود اپنا نقصان نہیں کیا ؟ ایک اکالی لیڈر نے کھلے دل سے میرے موقف کو تسلیم کیا اور کہا کہ تقسیمِ ہند کے وقت ہم پاکستان کے ساتھ چلے جاتے تو ہماری حیثیت مختلف ہوتی ۔ اَب خدا معلوم ہندوستان کی غلامی میں ہمیں کتنے سال بسر کرنا پڑیں گے ۔ گفتگو کے دوران بہت سے بزرگ سکھ میرے اردگرد اکٹھے ہوگئے ۔ ان سب نے اس بات کو مانا کہ 1947 ء میں سکھ قیادت نے بہت بڑی غلطی کی تھی ۔ جبکہ جناح صاحب کی نگاہ دور رس جو مستقبل کا خاکہ دیکھ رہی تھیں وہ ہم دیکھنے سے قاصر تھے ۔ ہماری قیادت مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی ۔ میں احتجاجی مظاہرین کے رویے ، نعروں اور تقاریر کو بڑے غور سے سن رہا تھا میں نے دیکھا کہ نیپالی ایسوسی ایشن کے کارکن پریس کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہیں وہ اُن لوگوں کے ساتھ جاکر کھڑے ہوجاتے جن کے گرد مظاہرین جمع ہوتے تھے ۔نیپالیوں کی کوششیں اجتماعی بھی تھیں اور انفرادی بھی ۔ اس سے پہلے برطانیہ کے لوگوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ ہندوستان نے نیپالی سرحد کی ناکہ بندی کرکے نیپالی عوام پر کتنے مظالم ڈھائے ہیں ۔ نیپالیوں کو غذائی قلت کا سامنا تھا۔ پیٹرول نہ ہونے کی وجہ سے بچے تعلیمی اداروں اور بیمار افراد اسپتال نہیں جاسکتے تھے ۔ نیپالی مظاہرین نے اپنے احتجاج کی بنیاد انسانی حقوق کو بنایا۔ اگلے دن پریس میں انہیں کافی پذیرائی ملی ۔ اب ہمیں بھی اس اَمر کو بھی دیکھنا چاہئے کہ دنیا کے سامنے جب ہم اپنی بات رکھیں تو اس بات کا خیال ضرور رہے کہ بین الاقوامی دنیا کیا دیکھتی اور سوچتی ہے ۔ عالمی ضمیر کو کیسے بیدار کیا جاسکتا ہے ؟ ہر بات گہری سوچ و بچار کا تقاضہ کرتی ہے ۔ وہ ہمسایہ ملک جن کے ساتھ ہندوستان کا جارحانہ رویہ ہے، اُن کی خبریں ہمارے ذرائع ابلاغ میں بھی جگہ بنائیں تاکہ خطے کے دیگر ملکوں کو پتہ چلے کہ ہندوستان کی انتہا پسند حکومت کے جارحانہ رویوں کی وجہ سے ہمسایہ ممالک کن مسائل و مشکلات کا شکار ہیں ۔کشمیریوں کا احتجاج میرے لیے حوصلہ مند نہیں تھا ۔ اگر چہ کشمیری تعداد میں بہت زیادہ تھے لیکن ان میں نظم و ضبط کا فقدان تھا ۔ وہ مختلف گروپوں میں بٹے ہوئے تھے ۔ ان میں ہم آہنگی اور یکسوئی کا فقدان تھا ۔ کشمیریوں نے اپنے مقدمے کا کوئی کتابچہ نہیں بنایا تھا نہ ہی وہ میڈیا کے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔ کچھ لوگ ویڈیو اور ٹیپ ریکارڈر اپنے ساتھ لائے تھے جن پر پاکستان کے ملی نغمے اور جنگی
ترانے بج رہے تھے ۔ جن کی اُس وقت قطعاً ضرورت نہ تھی ۔ زیادہ تر لوگ ٹولیوں کی شکل میں تھے ۔ اپنی تصویروں اور سیلفیوں میں مشغول تھے ۔ ان کی بے ترتیبی اس بات کی غماز تھی کہ انہوں نے کسی قسم کا ہوم ورک نہیں کیا جبکہ کشمیریوں کا کیس تو سکھوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے جس کے متعلق اقوام متحدہ سمیت کئی فورموں پرسینکڑوں بار مباحث ہوچکے ہیں ۔ کشمیریوں نے آزادی کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں ۔ ان پر ظلم کی داستانیں انسانی ضمیر کو جگانے کیلئے کافی ہیں ۔ ان کی لہورنگ تصویریں عام آدمی کو اَشک بار کردیتی ہیں ۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کیلئے یہ ایک اہم موقع تھا کہ وہ اپنے سیاسی اور سفارتی نمائندوں کے ذریعے عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کرتی ۔ اس موقع پر کشمیریوں کے احتجاج کو منظم کیا ہوتا تو اس کے اچھے نتائج سامنے آتے ۔ہمیں نریندر مودی کے دورہ کے پس منظر میں ایک جامع اسٹڈی کی ضرورت ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے جب مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا تھا تو اُس وقت مقبوضہ وادی میں کرفیو کا سماں تھا ۔ اب تو خود ہندوستان کے بھی دانشور کہہ رہے ہیں کہ مودی کی انتہا پسندانہ پالیسیاں ہندوستان کے سیکولر چہرے پر بد نما داغ ہیں ۔ برطانوی ذرائع ابلاغ نے بی جے پی کیلئے ’’ہندو طالبان ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ۔ ہندوستان کے بڑے بڑے ادیب ، دانش ور ، فنکار ، سائنس دان اور سابق فوجی افسر حکومت کو ا پنے اعزازات واپس کررہے ہیں۔ وہاں کا پڑھا لکھا طبقہ عدمِ تشدد کے ماحول کو خراب نہیں کرنے دینا چاہتا ۔ میں نے برطانیہ میں مظاہروں میں دیکھا کہ چھوٹی ذات کے لوگ جنھیں ہندوستان میں ’’دِلت‘‘ کہا جاتا ہے وہ بھی سراپا احتجاج تھے کیونکہ ہندو ازم پرمبنی پالیسیوں نے غریب طبقے کی زندگی اَجیرن کر رکھی ہے ۔ بڑی ذاتوں کے غیر مساویانہ سلوک کے وہ شاکی تھے ۔ آر ایس ایس کا یہ نظریہ کہ پڑوسی ممالک کو ہمیشہ دباؤ میں رکھا جائے ۔ مودی سرکار نے اُسے بھی بڑھاوا دیا ہے ۔ شاید ہمارے ہاں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ نہ صرف مشرقی پنجاب میں بلکہ عالمی سطح پر سکھوں میں آزادی کی لہر زور پکڑ رہی ہے ۔ آج وہ ماسٹر تارا سنگھ جیسے اکالی لیڈر کی غلطیوں کی سزا بھگت رہے ہیں ۔ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی پر وہ ہندوستانی بھی سخت پریشان ہیں جو بیرونی ملک مقیم ہیں ۔جیسا کہ میں پہلے کشمیریوں کے ضمن میں تذکرہ کر رہا تھا کہ روایتی جلوس اور تقلیدی اندازِ فکر کو دیکھتے ہوئے احساس ہوا کہ ہمارے لوگ عصر حاضر کے تقاضوں سے نابلد ہیں ۔ ہم لوگ موثر لابنگ کرتے تو نتائج مختلف ہوتے ۔ نریندر مودی کے دورہ برطانیہ کے موقع پر بد قسمتی سے کشمیریوں کو ذرائع ابلاغ میں بہت کم کوریج ملی ۔ اگر ہم لوگ اپنے جھنڈے اور سیاسی شناختوں اور گروہی مفادات سے بالاتر ہوکر کام کریں تو اس کے اچھے نتائج نکل سکتے ہیں ۔ کشمیریوں کے پاس تو حق خود ارادیت کا نعرہ ہی بہت طاقتور ہے ۔ اقوام متحدہ ضامن ہے ۔ اگرپاکستانی کشمیری اور مقبوضہ کشمیرکے باسی اپنے احتجاج میں عالمی رائے عامہ کو اس بات کا احساس دلا سکیں کہ کشمیر ایک انسانی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی ہے ۔حق خود ارادیت کے اصول پراگر ایسٹ تیمور کو الگ شناخت مل ہوسکتی ہے تو کشمیریوں کو کیوں نہیں ۔ مؤثراور مربوط حکمت عملی سے منزل بہت قریب آجائے گی ۔نریندر مودی کے دورہ امریکہ ، برطانیہ کے حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مودی وزیر اعظم ہند نہ بنتے تو کیا امریکہ اور یورپ میں ان کے داخلے پر یوں ہی پابندی ہوتی ؟ کیا کسی ظالم اور فاشسٹ کے وزیر اعظم بننے سے اُس کے سابقہ تمام جرائم دُھل جاتے ہیں ؟ آئندہ ہمیں جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔ ہندوستان کی جارحانہ پالیسیوں کا شکار دیگر اقوام اور ممالک کو ہم ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں ۔ عالمی سطح پر سفارتی تگ و دو جاندار ہونی چاہئے ۔ جلسے ، جلوس منظم اور نظم و ضبط کے ساتھ منعقد کیے جائیں ۔ اس بات کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ گاندھی جیسا شخص جو تشدد کا مخالف تھا ، اُس کے قاتل کو ہندوستان میں ہیرو بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ یہ مودی سرکار کے اندازِ حکومت کا ایک افسوسناک پہلو ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کا زیادہ عرصہ اقتدار میں رہنا ہندوستان کی بقا ء اور سلامتی کے لئے خطرناک ہے۔ سکھوں کی مذہبی علامتوں کی مسلسل بے حرمتی کی جارہی ہے ، یہ عوامل ہندوستان میں خانہ جنگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ جبکہ ابھی تک آپریشن بلیو اسٹار کے گھاؤ سے خون رس رہا ہے ۔ بی جے پی کے کارکنوں اور رہنماؤں کے پر تشدد رویوں نے ہندوستان کی بزنس کلاس کو بھی مایوسی کا شکار کردیا ہے ۔ ہندوستان میں ریپ کے واقعات بڑھ رہے ہیں ۔ سارک کا پلیٹ فارم اَب نہ صرف غیر مؤثر ہوچکا ہے بلکہ اِس کی حیثیت ’’ ڈیبیٹنگ کلب ‘‘ سے زیادہ نہیں ۔ کاش قیام پاکستان کے وقت سکھ حضرات قائد اعظم کی بات مان لیتے تو نہ صرف اُن کے مذہبی مقامات محفوظ ہوتے بلکہ ایک ہی خطے میں رہتے ہوئے انہیں مذہبی اور ثقافتی محاذ پر دشواری پیش نہ آتی ۔ ہمیں اس جانب بھی توجہ دینی چاہئے کہ نیو یارک میں ہم ہر سال کشمیریوں کا کیس اقوام عالم کے سامنے پیش کرتے ہیں ، اس مرتبہ برطانیہ میں پیش کرنے سے ہم کیوں ہچکچائے ؟ جبکہ برطانیہ تقسیمِ ہند کے وقت ایک فریق تھا ۔ ہماری وزارتِ خارجہ اور برطانیہ میں سفارتخانے کو بھی اپنی کاوشوں کاجائزہ لینا چاہئے ۔ کشمیری رہنماؤں جناب سید علی گیلانی ، یاسین ملک ، شبیر شاہ ، میر واعظ عمر فاروق اور دیگر رہنماؤں کو اپنی پالیسی از سر نو تربیت دینی چاہئے ۔ہمیں عالمی برادری سے یہ سوال بھی کرنا چاہئے کہ اگر کسی ملک میں داعش کا کوئی لیڈر ووٹ لے کر انتخابات میں کامیاب ہوجائے تو کیا امریکہ اور برطانیہ سمیت مہذب دنیا اُسے تسلیم کرے گی ؟ بی جے پی ’’آر ایس ایس‘‘ اور مودی کا چہرہ ساری دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ نریندر مودی اور تشدد ایک سکے کے دو رُخ ہیں ۔ بھارت کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی دینا جنوبی ایشیاء کا امن غارت کرنے کے مترادف ہے ۔ الجزیرہ ٹی وی نے تو یہاں تک کہا کہ مودی کے دورہ برطانیہ کے موقع پر برٹش انڈین تقسیم تھے ۔ اِن میں اپنے وزیر اعظم کے بارے میں خیر سگالی کے جذبات نہیں تھے ۔ مودی کے اعزاز میں ہونے والی تقریبات احتجاج کی وجہ سے گہنا گئیں ۔ برطانوی حکومت کو غیر معمولی سیکورٹی اقدامات لینا پڑے ۔ دورۂ امریکہ کے موقع پر نریندر مودی کو جو پذیرائی ملی ،
برطانوی دورے میں اس کا صرف تصور ہی کیاجاسکتا تھا۔ اُس وقت برطانوی وزیر اعظم نے نریندر مودی کے حق میں کوئی جاندار بیان بھی نہیں دیا ۔ دہلی اور بہار کے انتخابات میں ناکامی کے بعد نریندر مودی کو تشدد اور انتہا پسندی کو بطور سرکاری پالیسی ترک کردینا چاہئے ۔ مشترکہ اعلامیے میں بھی روایتی باتوں کے علاوہ کوئی موثر اور متاثر کن بات نہیں تھی ۔ زیادہ سے زیادہ بھارت اب مغربی کمپنیوں کی منڈی بننے جارہا ہے۔