کامل مرشد کی محبت کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ دل دنیا سے دوراور حق کی طرف راغب ہو جاتا ہے مگر اعتراض اور کدورت لے کر آنے والے ہمیشہ محروم رہتے ہیں جو مرشد کی رشدوہدایت پر یقین رکھے گا کبھی گناہوں میں مبتلا نہ ہو گا جب کسی مرید کو گناہ کی رغبت ہوتی ہے تو مرشد بارگاہ الہٰی میں مرید کی گناہ سے دوری کی دُعاکر تا ہے اور نتیجے میں اللہ تعالیٰ گناہ کی طرف کشش رکھنے والوں کے ضمیر کو پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہ شرم و ندامت میں ڈوب جاتا ہے۔ایسا مرید بوجہ ندامت پیر کے سامنے حاضر ہونے سے ہچکچاتا ہے کیونکہ ادب ندامت دلاتا ہے اور ندامت قدم روکتی ہے ۔ مگر مرشد کے بغیر چین و قرار نہیں پاتا یہ ندامت ورنج و غم بالا خر اسے اللہ تعالیٰ کی بخشش اور درگزر کے دروازہ پر لا کر کھڑا کر دیتے ہیں ۔ پیر کامل حق گو، حق بین اور حق شناس ہوتا ہے کسی کامل کو ظاہری قوت و اقتدار اور شان و شوکت اسے نہ تو مرغوب کرتے ہیں اور نہ ہی اسے حق گوئی اور حق جوئی سے باز رکھ سکتے ہیں کیونکہ وہ دنیاوی اغراض و مقاصد سے فارغ ہے ۔ اسے وہی سعادت مند لوگ پسند ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ سے لو لگائے بیٹھے ہیں۔ دنیا کی زینت میں مردانِ حق کیلئے کوئی کشش نہیں ہوتی کیونکہ وہ ارشادِ الہٰی سے غافل نہیں رہتے اور غریبوں سے زیادہ شفقت فرماتے ہیں ۔ مخلوق کے احوال سے با خبر رہتے ہیں مگر خاموشی اختیار کرتے ہیں ۔ کسی کی پردہ دری نہیں کرتے خود دانا اور بینا ہیں کسی کے کہنے اور سننے پر بد گمانی اختیار نہیں کرتے ۔ کامل مرشد کے درباری ریا کاروں کی رسائی نہیں ہوتی ۔ کسی کی تذلیل کرنا اُن کا دستور نہیں ہوتا بلکہ وہ ہرایک کے بہی خواہ ہوتے ہیں سب پر مہر بانی فرماتے ہیں کسی کی غلطی پر موخذہ نہیں کرتے بلکہ درگزر سے کام لیتے ہیں اور اپنے دلوں کو بغض ، کدوت اور حسد سے ہمیشہ پاک رکھتے ہیں کیونکہ جو دل اللہ تعالیٰ کی یاد سے بھرے ہوئے ہوں اُن دلوں میں ایسی چیزیں نہیں سما سکتیں ۔اللہ والوں کی مجلس میں کسی کا بغض اور کینہ رکھنے والا صحیح راہ نہیں پا سکتا ہے ۔ دل کی صفائی کے بغیر اہل اللہ کی خدمت میں حاضر ہونا ادب کے خلاف ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے خاص رنگ میں رنگے ہوتے ہیں۔
اللہ والوں کی روحانی محفلوں اورمجلسوں شرکت دل و دماغ کو سکون بخشتی ہے انسان کے اندر کا شیطان ایسی محفلوں سے دور بھاگتا ہے گناہوں سے توبہ کرنے کی طرف دل راغب ہوتا ہے ۔ مرشد کامل مل جائے تو کایا ہی پلٹ جاتی ہے ۔ ایک دور وہ تھا جب طبیب ولی کامل ہوتے تھے ۔ مریدوں کی بیماریوں کا روحانی علاج کرتے ۔ شہنشاہ وقت اللہ والوں کی راہ میں بچھ جاتے ان کی قدم بوسی کیلئے بے قرار رہتے ۔ بعض بادشاہ بھی ولی کامل ہوا کرتے تھے۔ جب کسی شخص پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا سینہ اپنے علم کے لیے کشادہ فرماتا ہے۔ یہ اسکی اپنی مرضی کا معاملہ ہے کسی شخص کی تگ و دو پر اسکا انحصار نہیں ہوتا ہے ۔
ہمارے ہاں آج کل اخبارات میں عاملوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں ۔ اشتہارات میں اپنے علم کی صداقت کے لیے لاکھوں روپے کے انعام کا اعلان کیا جاتا ہے فی سبیل اللہ روحانیت بانٹنے والوں کو بھی خط لکھ کر دیکھ لیجئے وہ بھی آپ سے تعویزات و عمل کے لیے ایک ہزار روپے منی آرڈر بھیجنے کا حکم کریں گے ۔ پیر کاملوں نے جگہ جگہ دکانیں کھول رکھیں ہیں۔روزانہ لاکھوں روپے کا بزنس ان کی قسمت میں لکھا ہے ۔مجبور پریشان حال ان کے در پر ہزاروں کی تعداد میں حاضری دیتے ہیں ۔ کچھ ملے نہ ملے کاغذی تعویزوں کا بیگ بھر کر ان کے ہاتھ پکڑا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ فضل کرے گا۔جو دین کو فلاح و اصلاح کیلئے استعمال میں لائے ہیں اللہ کے دیئے ہوئے روحانی علوم کو پریشان حال، بیمار اور لا علاج مریضوں کیلئے وقف کرتے ہیں گزشتہ منگل راقم کو میاں مشتاق احمد قادری کے در پر قدم بوسی کا موقع ملا ان کے روحانی ڈیرے ( آستانہ عالیہ ) پر روزانہ سینکڑوں لوگ حاضر ہوتے ہیں اور شفا پاتے ہیں ۔ میاں مشتاق احمد قادری بے لوث اللہ والے ہیں ۔ سہراب سائیکل فیکٹری میں فورمین کے عہدہ پر فائز ہیں ۔ وہ ہجوم دیکھ کر پریشان نہیں ہوتے بلکہ ان کے در پر آنے والوں کو تسلیاں دیتے ہیں۔ ان کا دم بہت مقبول ہے ۔ تعویزات میں بھی بلا کا اثر ہے۔ ہر بیماری والے شفا پاتے ہیں ۔ شوگر والے مریض ان کے روحانی علاج سے بہت مطمئن ہیں۔ کوٹ عبدالمالک کے نزدیک جڑانوالہ روڈ پر چٹھ لنگیانوالہ دیہات میں انکے آستانہ عالیہ پر راقم دو بار حاضری دے چکا ہے ۔راقم کی تمنا ہے کہ دل و دماغ کو سکون مل جائے اور کامل مرشد سے پلہ بندھ جائے اور دل و دماغ میں سمائے شیطانی فتور سے نجات مل جائے ۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ میری یہ تمنا بر آئے اور کوئی اللہ والا مجھے اپنے سینے سے لگا کر میرے سینے میں نور بھر دے دنیا کے مال و متاع نہ سہی آخرت تو سنور جائے ۔ راقم آج کل انتہائی پریشان ہے اور کامل مرشد کی تلاش میں سر گرداں ہے ۔ قارئین بھی دعا کریں کہ میری مشکل حل ہو جائے اور میں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر پا ؤ ں کیونکہ مرشد کے بغیر راہ نہیں ملتی ۔ منزل اسی کو ملتی ہے جس کو کامل مرشد مل جائے۔