پشاور(یواین پی)سانحہ آرمی پبلک سکول ،سسکیاں ، آنسوؤں اور دلاسوں کا ایک برس بیتنے کو ہے اس سانحہ میں دو بھائی بھی اپنے ماں باپ کو یوں چھوڑ کر چلے گئے کہ ماں تصویریں دیکھ دیکھ کر روتی ہے اور باپ اپنے دکھ کو روکنے میں رو پڑتا ۔تفصیلات کےمطابق نور اللہ اور سیف اللہ 16دسمبر کو ایک ساتھ جان کی بازی ہا ر گئے تو سوائے بیٹیوں کے ماں باپ کا کوئی سہارا نہیں رہا دونوں بھائیوں کو ماں نے نازوں سے پالا ماں گھر سے باہر جاتی تو گھر کو تالہ لگا کر بچوں کو اندر چھوڑ جاتی تو انہیں گرم ہوا تک لگنے نہیں دی مگر جب فرشتہ اجل پہنچا تو ایک ساتھ دونوں کو ماں کی آغوش سے چھین لیا۔نور اللہ نے آرمی پببک سکول کو چھوڑ کر او لیول میں داخلہ لیا مگر جب او لیول میں اس کے دوست شاہ فہد کو داخلہ نہیں ملا تو اسی سکول واپس آگئے سانحہ اے پی ایس میں وہ اپنے دوست شاہ فہد اور بھائی سیف اللہ کے ساتھ جام شہادت نوش کر گئے نور اللہ اور سیف اللہ کی بہین ڈاکٹر بن کر اپنے بھائیوں کے نام پر ہسپتال بنانے کی متمنی ہےگھر میں پڑی سیف اللہ کی پتنگ اور نور اللہ کا سکول بیگ دیکھ دیکھ کر والدین کے آنسو نہیں تھمتےْنور اللہ اور سیف اللہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے مگر اپنے خاندان کو ایسا روگ دے گئے جسے عمر بھر فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔