دنیا عالم کونور علم و نور ایمان سے فیضیاب ہوئے چودہ صدیاں بیت چکی ہیں وقت نے بڑے بڑے علم کے سمندر پیدا کیے،نبی آخر زمان ﷺ کے دور کے بعد چاروں خلفائے راشدین اور اس کے بعد سے آج تک ہمیں بے پناہ علمی و قابل شخصیات میسر آئی ہیں مگر ان چودہ سو سالوں میں تاریخ کے مدو جزر سے ہم نے کچھ سیکھنے کی زحمت نہیں کی نجانے ہم کیوں بھلا بیٹھے کہ خطہ عرب سے امت مسلمہ کی ریاست یورپ کے قلب تک جا پہنچی اور غرناطہ کے بازار آج بھی اسلامی تہذیب کی عظمت رفتہ کے عکاس ہیں،خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق زیر انتظام ملت اسلامیہ کے علاقے آج بھی قرونِ اولٰی کے کردار کی داستانیں سناتے اور سلطنت عثمانیہ، عباسی خاندان اور مغلیہ ادوار کی تہذیبیں تاریخ دانوں کو حکمرانی کے اصولوں سے روشناس کراتی ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی اپنے اسلاف کی تاریخ پر نظر ڈالنے کی کوشش کی؟ جواب ہمیں نہیں میں ملے گا کیونکہ اگر ہم نے کوشش کی ہوتی تو یہ بات ہم پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی کہ وہ مسلمان جنھوں نے عظیم سلطنتوں کی داغ بیل ڈالی وہ درحقیقت کردار کے غازی تھے، ااج ہم فرقوں،گروہوں اور گروپوں میں تقسیم زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں فلسطین، برما اور کشمیر سمیت دنیا بھر میں مسلم امہ اازمائش سے دوچار اور ہم ان کی حالتِ زار پر تقریریں تو جھاڑتے ہیں مگر اپنے ملک میں قانون کا احترام کرنا بھی ہتک سمجھتے ہیں، یہی نہیں صحت،تعلیم اور سماجی انصاف کی ترویج کے لیے بھی ہم ذاتی حیثیت میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار نہیں، اپنی نا اہلی اور بے عملی کو حکمرانوں کی بدعنوانی سے تعبیر کرنا اب ایک فیشن بن چکا ہے،ہم اپنے ملک میں لاقانونیت کا رونا تو روتے ہیں مگر خود ٹریفک ایک سگنل پر رکنا بھی گوارہ نہیں کرتے، ہمارا پڑھا لکھا نوجوان اپنے ملک میں جہالت کا شکوہ توکرتا ہے مگر اپنی تعلیم سے نا خواندہ افراد کو بہرہ مند کرنا شاید اپنے لائف سٹائل کے منافی تصور کرتا ہو،ستم تو یہ ہے کہ اپنے آپ کو تعلیم یافتہ کہلانے والے جب اپنی بے بسی کا رونا روتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ جہالت کے ہاتھوں یرغمال ہیں، مختصر یہ کہ قوموں کو ترقی کے لیے جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور ترقی قربانیاں بھی مانگتی ہیں اور پھر قربانیاں دینی بھی پڑتی ہیں،اشفاق احمد اور سب کے بابا جی زاویہ میں اپنی ایک خوبصورت تحریر کیساتھ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک چھوٹی سی سلطنت کا کوئی بادشاہ ، اچھا،نیک بادشاہ صلح کل لیکن طبیعت میں بڑا ڈسپلنڈ تھا ۔ اور اس کو اپنے ملک کی صحت و صفائی کا بڑا خیال تھا ۔ مجھے صفائی کی بات کر تے ہوئے یاد آیا کہ اپنی رعایا کی صحت برقرار رکھنے کے لئے ، چونکہ وہ صفائی کا بڑا دیوانہ تھا اس لئے اپنی مملکت میں بھی اس نے صفائی کاخاصہ انتظام کر رکھا تھا ۔ اور ظاہر ہے گھر کا بھی ، محل کے اندر بھی صفائی کا انتظام بطور خاص دیکھا جاتا تھا ۔ قریب ہی اس کے ایک چھوٹی سی کالونی تھی بہت اچھے لوگوں پر مشتمل ، صفائی کا وہ بھی خاص خیال رکھتے تھے ، تو ایک اماں بوڑھی جو کہ صفائی کے معاملہ میں بادشاہ کی ، ملکہ کی ، اور شہزادی کی بڑی قابل اعتبار بھنگن تھی اس کا بڑا مقام تھا ۔ وہ آکے محل کے اندر زنان خانے میں صفائی کر تی تھی اور ان کی مرضی کے مطابق کام کرتی تھی اور اسکا احترام تھا ۔ بڑے آدمی کا احترام ہوتا ہے۔ اچھا ام کر نے والے کا احترام ہوتا ہے۔ کام چاہے کوئی بھی ہو تو کہانی بیان کر نے والے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اماں بڑی بیمار پڑگئی اور شاہی خاندان کا کام کیا جانا ضروری تھا۔ تو اس نے اپنے نوجوان بیٹے سے جوبڑا خوبصورت اچھا نوجوان تھا اس سے کہا میں نہیں جاسکتی محل میں تو جاکر میری جگہ کام کر ، چنانچہ وہ اپنا جھاڑو لے کر ، ٹاکی لے کر، جس طرح کا سامان اسے چاہئے تھا وہاں چلا گیا ۔ اس نے جاکر برآمدے میں جھاڑو ، ٹاکی لگائی ، پھر دوسرے کمرے میں لگائی ، وہ جب تیسرے کمرے میں جھاڑو لگا کر نکل رہا تھا تو شہزادی غسل خانے سے نہا کر کھلے بال آرہی تھی ، اور اس نے زندگی میں پہلی مرتبہ شہزادی کو دیکھا تھا ۔ وہ شہزادی جس کا ذکر کہانیوں میں ہوتا ہے۔ اور بے چارہ کھڑے کا کھڑا بت بنا رہ گیا ۔ اور شہزادی اپنا منہ لپیٹ کر وہاں سے بھاگی ۔ دوسرے کمرے میں چلی گئی ، جب وہ گھر آیا تو اس نے اپنی ماں سے کہا ، پیاری ماں یہ کیا مخلوق ہے تو اس نے کہا بیٹے کیا ہوا؟ اس نے کہا ماں وہاں تو ایک لڑکی نکلی ، لیکن جیسے آسمانوں سے اتری ہوئی لگتی تھی ۔ کبھی ہم نے بازار میں ، شہر میں تو ایسی مخلوق دیکھی نہیں ۔ اس نے کہا اوہ تیرا بھلا ہو جائے ، تو نے شہزادی کو دیکھ لیا ۔ کہنے لگا ماں میں نے اسے دیکھ تو آیا ہوں ۔ لیکن میری آرزو ہے میں اسے ایک بار پھر دیکھوں اور قریب سے دیکھوں ۔ اس نے کہا بیٹا اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونی چاہئے ۔ کیونکہ ابھی جلاد بلا کر ہم ماں بیٹے کا سر تن سے جدا کر دیا جائے گا۔ اس نے کہا ماں میری زندگی کی آرزو ہے۔ کہ اس حسن مجسم کو قریب سے دیکھوں میں بالکل بھونچکا ہو گیا ،(بوکھلا گیا تھا) میرے ذہن پرا سکے نقوش ٹھیک طرح سے نہیں آئے ۔ اسنے کہا بھئی ایسا نہ کر یہ نہیں ہو سکتا۔ وہ بیمار پڑگیا۔ جان کے لالے پڑگئے ۔ اب ماں ماں ہوتی ہے تو اس نے حوصلہ کیا سیدھی شہزادی کے پاس گئی ، چونکہ شہزادی اس کا احترام کر تی تھی ۔ سارے گھر والے کر تے تھے ۔ اس نے کہا بیٹی یہ بات ہوگئی ۔ اگرچہ بڑی ناقابل بیان تھی میں بیان کردی۔ ناقابل برداشت تھی وہ تو نے برداشت کر لی ۔ مہربانی ہے مشکل آپڑی تو اس کا حل نکال۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں اماں آمنا سامنہ ہو گیا غلطی سے ۔ اس نے کہا مشکل یہ آپڑی ہے کہ وہ تجھے دوبارہ دیکھنا چاہتا ہے۔ تو بہ نعوذ باللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ تو ہمارے ہاں ہوتا ہی نہیں ۔ لیکن میرا اکلوتا بیٹا ہے ، مر جائے گا۔ شہزادی نے کہا میں کیا کر سکتی ہوں مرتا ہے تو ٹھیک ہے۔ اللہ کی یہی رضا ہے۔ وہ بڑھیا رونے لگی گھر چلی گئی ۔ گھر بیٹھی بیمار بیٹے کو دیکھا جاں بہ لب بیٹے کو ماں تھی صبر نہ ہوا۔ پھر لوٹ کر آئی اور منتیں کر نے لگی ۔ شہزادی نے ترس کھا کر کہا اماں تو ایسا کر اس کو ایک جھوٹا پیر بنا دے کوئی بزرگ بنا دے ۔ اس کوکہو ، اللہ کی عبادت کیاکرے حق ہو کا نعرہ مارا کر ے اور جنگل میں بیابانوں کی سیر کرے ۔ میرے والد جو ہیں وہ پیروں ، فقیروں کو بڑا مانتے ہیں ۔ بزرگوں پر بادشاہ سلامت کا اعتقاد تھا ۔ تو میں سمجھتی ہوں کہ ایک وقت ایسا ضرور آسکتا ہے کہ اگر اس کا نام بہت دور دور تک پہنچ گیا کہ بڑا کمال کا فقیر ہے۔ تو شاہد میرے والد اس سے متاثر ہوں ۔ اور متاثر ہو نے کے بعد مجھ کو بھی کہیں بیٹی جا ان کی زیارت کر آ۔ اس نے کہا اللہ تیرا بھلا کر ے ۔ وہ گھر آگئی ۔ اس نے کہا بیٹا اٹھ یہ لمبا پینڈا ہے۔ لیکن طے کرنا ہے۔ اس مسافت کو تو نہا دھو پگڑی باندھ کے نیک بن جا۔ اللہ کا پیارا، اس نے کہا اللہ کا پیارا کیسے بنا جاتا ہے اس نے کہا یہ تو مجھے بھی نہیں پتا، تجھے بھی نہیں پتا ۔ اب جنگل میں جاکے بیٹھ کر اللہ سے کہہ۔ میں تیرا پیا ر ہوں اور وہ تجھے قبول کرے گا۔ وہ چلا گیا ۔ جنگل میں جاکر بیٹھ گیا مزے سے اور وہاں پر جا کر وقت گزارنے لگا،اور اللہ کی تسبیح جیسی بھی اسکو آتی تھی کر نے لگا۔ اور آرزو دل میں رکھنے لگا کہ کبھی شاید اللہ کی زیارت ہو اور میں کبھی اس راہ پر چل سکوں اوراس حسن آرا بھی دیکھ سکوں جس کی آرزو لے کر میں نے یہ سارا ڈرامہ رچایا ہے۔ کچھ عرصہ وہاں بیٹھا رہا ۔ کچھ دیر بعد لوگوں نے اسے دیکھا ایک نوجوان ہے شکل صورت بھی اچھی ہے۔ بات کسی سے نہیں کرتا ۔ آنکھیں بند کر کے لولگا کر بیٹھا ہے۔ تو انہوں نے جب اس کو دن رات وہاں بیٹھے دیکھا ۔ سردی گرمی میں ، دھوپ میں بارش میں تو انہوں نے جھونپڑی ایک بنوادی اور وہ اس جھونپڑی میں رہنے لگا۔ وقت گزرتا رہا تو آہستہ آہستہ اس کا نام کا ڈھنکا بجنے لگا کہ ایک بہت کرنی والا بزرگ ہے۔ اور پہنچے ہوئے بزرگ ہیں ۔ اورلوگ اس کی زیارت کو آنے لگے ۔ ایک سلسلہ چل پڑا کسی نے آکے بادشاہ سے بھی ذکر کیا کہ آپ کی راجہ دہانی کے فلاں علاقے میں ، فلاں جگہ پر گنے میں بڑا بزرگ آیا ہوا ہے۔ لمبی داڑھی ہے۔ لمبے بال ہیں اور بڑا حسین آدمی ہے۔ اور بات نہیں کر تا کسی سے تو بادشاہ کو اشتیاق ہوا۔ انہوں نے سواری نکالی پنج ہزاری ، دس ہزاری امیر ، اور وزیر اس کے ساتھ چلے کہ زیارت کرنے چلتے ہیں ۔ جنگل میں پہنچے ، کٹھیا کے پاس کھڑے ہوگئے ۔ بادشاہ نے دیکھا ، اسکو سلام کیا۔ آنکھیں بند کر کے بیٹھا تھا اس کو کیا پروا تھی ۔ اس نے کہا میں وقت کا بادشاہ ہو ں ۔ تجھے سلام کر نے آیا ہوں ۔ اس نے کہا بابا تیری ی مہربانی ہم نے تیرا سلام قبول کیا ۔ اب چلا جا۔ اس نے کہا نہیں میں یہاں بیٹھنے کی اجازت چاہتا ہوں ۔ کہنے لگا بیٹھ جا کھلی جگہ پڑی ہے۔ بادشاہ نے کہا ساتھ میرے سارا لاؤلشکر بھی ہے۔ اس نے کہا وہ بھی بیٹھ جائے ، فقیر وں کا ٹھکانہ ہے۔ چنانچہ وہاں پر بادشاہ کچھ دیر بیٹھا رہا ۔ اس نے اندر سے محسوس کیا ۔ اس کاوائبریشن جو ہے۔ ارتعاش اس کا روحانی،بہت طاقت ور ہے۔ جس نے بادشاہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چنانچہ خواتین وحضرات وہ بادشاہ وہاں پر آنے جانے لگا۔ ملنے ملانے لگا ۔ اس کی رعایا کے لوگ بھی ظاہر ہے آنے لگے ۔ اس کی دارھی بڑھ چکی تھی۔ بال لمبے تھے کسی نے پہچانا ہی نہیں ۔ تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بادشاہ نے ایک دن اپنی بیٹی سے کہا کہ پیاری بیٹی ایک بہت بڑے بزرگ ہماری سلطنت میں آئے ہیں اور ہماری خوش قسمتی ہے ہمارے قلم رو میں اپنا بڑا بزرگ آیا ہے۔ تو کسی دن جا اس کی زیارت کر نے تو اس نے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ ابا جی میں جاتی ہوں ۔ اس کو پتہ تھا کہ یہ کون ہے۔ چنانچہ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ پالکی میں بیٹھ کر پہنچی اور جاکر کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی دیکھ تیرے دل کی آرزو پوری ہوگئی ۔ میں نے جو بات بتائی تھی اس کے مطابق اتنے سالوں بعد تیرے سامنے آگئی ہوں ۔ تو اب آنکھیں کھول اور جس طرح سے چاہتا ہے میری زیارت کر ،دید کر میں تیرے سامنے کھڑی ہوں ۔وہ کہنے لگا اچھااچھا مہربانی مہربانی تین دفعہ کہا ۔ویسے ہی بیٹھا رہا ، آنکھیں بند کر کے ۔ اس نے کہا بدبخت میں اتنا لمبا سفر طے کر کے آئی ہوں اور تو آنکھیں بند کر کے بیٹھا ہے۔ تو اس نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔ تو لکھنے والے لکھتے ہیں کہ شہزادی نے کھینچ کر ایک تھپڑ اس کے منہ پر ماراتڑاخ سے کہنے لگی آنکھیں کھول جس کے لئے اتنا بڑا ڈرامہ رچایا تھا وہ گوہرمقصود تیرے سامنے موجود ہے۔ تواس نے کہا بی بی اب آنکھیں بند ہی رہنے دو ۔ وہ سچا ہے جس کو لوگ تلاش کرتے ہیں ۔وہ مل جائے گا کبھی نہ کبھی آنکھیں بند کرنے سے اب تجھ میں کیا رکھا ہے۔ اس نے کہا سن بی بی سچا تو کوئی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ لیکن اگر جھوٹ کی دھارنا دھارکر بھی آدمی چلے ۔ اور اس کے سامنے اس کا سفر موجود ہو۔ اور اس کارخ جو ہے ٹھیک ہو ۔ تو وہ سچائی کی طرف جانے لگتا ہے۔ لیکن اگر بدقسمتی سے شروع ہی سے اس کے سفر میں ٹیڑ ھ پڑجائے ۔ جیسے ہمارے معاشرے میں بڑی تکلیف دہ صورت حال پیدا ہونے لگی ہے تو پھر وہ کبھی اس منزل تک نہیں پہنچتا ۔ جس کی آرزو اس نے جھوٹے انداز میں کی ہے۔ چنانچہ وہ آنکھیں بند کئے ہی بیٹھا رہ گیا ۔ اور گوہر مقصود جو تھا وہاں سے واپس آگیا۔ تو باپ نے پوچھا کہ کیسے بزرگ ہیں ، کہنے لگی ابا جی ابھی کچھ کمی ہے۔ یہ اس کا پنا انداز تھا ۔ لیکن ایک وقت آئے گا یہ بہت بڑا بزرگ بنے گا۔ تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ بعض اوقات باہر کی وردی اختیار کر نے سے بھی اندر کے وجود پر اندر کی ذات کے اوپر اس کے اثرات مرتب ہو نے لگتے ہیں ۔یہ محض ایک داستان یا واقعہ ہی نہیں بلکہ وہ مثل ہے ہمارے لیے جس کو اگر ہم پلے باندھ لیں تو اخلاص کیساتھ ہم منزل کو چھو سکتے ہیں،ہم مقصد حیات کو پا سکتے ہیں،بس اخلاص کی چادر کو زیب تن کرنے اور پہلا قدم اٹھانے اور بارش کا پہلا قدم بننے کی ضرورت ہے۔