صحافی ایک ایسے شخص کو کہاجاتا ہے جو مختلف خبریں لاتے ہیں مختلف ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے لئے اور در بہ در گھوم پھر کے مختلف تازہ ترین خبریں دیتے ہیں۔اس کام کو صحافت کہا جاتا ہے۔ پاکستان اس شعبے میں کافی ترقی کر رہا ہے ۔ایک صحافی معاشرے میں بیداری پیدا کرنے میں بڑا کردار ادا کرسکتا ہے اور ایک خبر کو وہاں پہنچاتا ہے جہاں شاید عام انسان کے لئے ناممکن ہو۔تو یہ طے ہوا کہ صحافی معاشرے کا وہ فرد ہوتا ہے جو عوام کو معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے علمی ذوق کے اضافے کا سبب بھی بنتا ہے ۔ یعنی صحافی بننا کوئی معمولی بات نہیں، یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جسے نبھانے کے لیے ایک خاص قسم کی علمیت اور سمجھ درکار ہے۔
صحافیوں نے اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے مختلف نام سے تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں جوصحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہیں۔ یہی نہیں ہر شہر میں صحافیوں نے پریس کلب بھی بنائے ہوئے ہیں جہاں سب صحافی ملکر کام کرتے ہیں۔ بہت سے شہروں میں ایک کی بجائے مختلف ناموں سے کئی پریس کلب بھی بنے ہوئے ہیں۔
کچھ دن پہلے ایک دوست نے فون کیا اور مجھے لاہور آنے کی دعوت دی جب میں نے اس سے لاہور آنے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ پریس کلب کا الیکشن ہے ۔ وہاں پر سب دوست اکٹھے ہونگے تو آپ بھی تشریف لے آئیں ۔میں نے بھی بہت چرچا سنا تھا کہ لاہورپریس کلب کے الیکشن کے بارے میں مگردیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ سو میں نے بھی فوراً ہاں بھر لی۔ 30دسمبر کے دن الحمرا ادبی بیٹھک میں الیکشن ہونا تھا اس لیے 30 دسمبر کومیں الحمرا پہنچ گیا۔ میں اور افسانہ نگار محمدعلی رانا دونوں جب الحمرا میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے کالمسٹ شاہد محمود سے ملاقات ہوئی ۔گپ شپ کرتے جب ادبی بیٹھک کے قریب پہنچے تو ادھر بڑے بھائی اور دن نیوز گروپ کے ایڈیٹر ایثار رانا صاحب سے ملاقات ہوئی ان سے سلام دعا کے بعد آگے بڑھاتو فیملی میگزین کے رائٹر سید بدرسعید صاحب سے تشریف فرما تھے ان سے سلام دعا ہوئی۔ اسی طرح بہت سے دوستوں سے ملتارہا جن میں فرخ شہبازوڑائچ،روزنامہ جناح کے میگزین ایڈیٹر طاہر انجم،کالمسٹ حبیب اللہ سلفی،کالمسٹ ماجد امجدثمر اورنامور اداکاربالخصوص ڈرامہ عینک والاجن کا مرکزی کردار ’’ہامون جادوگر‘‘حسیب پاشا بھائی بھی شامل تھے۔ حسیب بھائی نے اتنی محبت دی کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اپنے تجربے کی رو سے بہت سے ٹپس بھی دیے۔ ان سے مختلف اداکاروں کے بارے میں تفصیلی گفتگو بھی کی بالخصوص زکوٹاجن ۔میں اور رانا صاحب چاربجے کے قریب الحمرا سے واپس کچھ دوسرے دوستوں سے ملنے کے لیے نکل آئے۔اسی دوران روزنامہ خبریں کے میگزین ایڈیٹر اور کالمسٹ ندیم نظر صاحب کی کال آگئی اور حکم صادر کردیا کہ جناب آپ جدھر بھی ہو فوری الحمرا میں واپس پہنچے۔ بھائی کے حکم کو ٹال نہ سکے اور ہم واپس الحمرا آگئے۔ ابھی ہم لوگ کیفے ٹیریا میں چائے پی ہی رہے تھے کہ باہر شورشرابا ہوا۔ باہر نکل کردیکھا تو وہ لوگ جوباشعور اور دوسروں کو امن کا درس دیتے تھے وہ خود سیخ پا نظرآرہے تھے۔
ویسے تو پولنگ بوتھ کے باہر دونوں بڑے پینلز کی جانب سے دن بھرشدید نعرے بازی جاری رہی تھی مگرپولنگ کا وقت ختم ہونے سے کچھ دیر پہلے دونوں پینلز میں اختلافات شدت اختیار کر گئے۔اس جھگڑے کے دوران ادبی بیٹھک کا دروازہ بھی ٹوٹ گیا۔پروگریسو پینل کے لوگوں کاکہنا تھا کہ حکمراں جرنلسٹ پینل نے بہت سے ایسے افراد کو پریس کلب کی ممبر شپ دی ہے جن کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان نئے ممبران میں سے بیشتر سرکاری ملازمتیں بھی کرتے ہیں۔ان کا مزیدکہنا ہے کہ جعلی ووٹرز کی موجودگی میں شفاف انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے لہذا انتخابات ملتوی کیے جائیں۔دوسری جانب جرنلسٹ گروپ نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے پولنگ جاری رکھنے کا مطالبہ کیا۔
وقت زیادہ ہوگیا تھا اور مجھے اپنے گھر پہنچنا تھا اس لیے میں ادھر سے نکل آیا ۔ تقریباً رات کے ساڑھے آٹھ بجے کے قریب میں گھر پہنچا تو مجھے ذرائع سے معلوم ہوا کہ لاہور پریس کلب کے انتخابات ایک ماہ کے لیے ملتوی کر دیے گئے۔دوبارہ الیکشن تک نگران سیٹ اپ لاہور پریس کلب کے انتظام سنبھالے گا۔
جیسے ہی میں نے یہ سنا تو مجھے دلی دکھ ہوااور میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ پڑھے لکھے، ادبی شخصیت اور تجزیہ نگاروں کے ہوتے ہوئے بھی ایسا ہوا ۔ جب جنرل الیکشن میں عوام لڑتی ہے تو ان پر یا ان سیاسی جماعتوں پر یہ لوگ کیسے انگلیاں اٹھاسکتے ہیں جو لوگ اپنے اندر شفافیت نہیں رکھ سکتے وہ دوسروں کے بارے میں کس حیثیت سے تنقید کرتے ہیں؟کیا ہماری صحافت یہی درس دیتی ہے کہ ہم اکٹھا ہونے کی بجائے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوں؟ آج جو ماحول دیکھا گیا وہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔بہت سے دوستوں کو یہ کہتے سنا کہ وہ آئندہ سال سوچیں گے کہ ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے جانا چاہیے یا نہیں ؟
یہ صورتحال کیوں پیداہوئی؟اس کا ذمہ دارکون ہے؟انتخابات میں اختلاف رائے پہلے بھی ہوتا تھا مگر گلی محلوں کے بازوں والا ماحول نہیں دیکھا گیا تھا ۔ آج تو لگا کہ کسی دوردرازقصبے کے بلدیاتی انتخابات ہورہے ہیں ۔ اگر یہ الیکشن کسی اور کمیونٹی کا ہوتا اور ایسا ڈرامہ لگتا تویہی میڈیاکے لوگ چنگاڑرہے ہوتے۔ اینکرزحضرات چیخ چیخ کر برا بھلا کہہ رہے ہوتے۔سوال یہ ہے کیا معاشرے کے باشعور اور پڑھے لکھے طبقے کو ایسی حرکات زیب دیتی ہیں؟
خدارا سوچئے کہ ہم لوگ جو دوسروں کی تصحیح کرتے ہیں اپنے آپ کو کب سدھاریں گے۔ آج ہم نے عوام کو اپنے اوپر انگلیاں اٹھانے کا کیوں موقع دیا؟ ہمیں ملکر اپنے اندر سے ایسی کالی بھیڑوں کو نکالنا ہوگا جو ہماری بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ ابھی وقت ہے اس صحافت کو مقدس پیشہ رہنے دیں اس کو سیاسی نہ بنائیں۔میری دعا ہے کہ اللہ تمام صحافی برادری کو ہدایت دے کہ وہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ثابت کرنے کی توفیق دے آمین