میرے نبیﷺ کا فرمان ہے کہ وہ قومیں برباد ہو جاتی ہیں جو کمزوروں کو سزا دیتی لیکن زور آوروں کو چھوڑ دیتی ہیں(مفہوم)۔آج لال مسجد کا سانحہ اپنی کربناک یادوں کے ساتھ پھر تازہ ہو گیا ۔آمر مشرف نے مولانا عبدالعزیز کو ایک سازش کے تحت گرفتار کیا اور صلح جُو غازی عبدالرشید کو ’’محفوظ راستہ‘‘ دینے سے انکار کر دیا ۔غازی عبدالرشید شہید کر دیئے گئے اور چشمِ فلک نے ایک دفعہ پھر اپنی انتہاؤں کو چھوتی یزیدیت کا اُس وقت نظارہ کیا جب لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے معصوم بچوں اور بچیوں کے خون سے اُن کی درسی کُتب کے صفحات رنگین ہو گئے ، قُرآنِ پاک جلائے گئے اور جب الیکٹرانک میڈیا نے معصوم بچوں کے جلے ہوئے بستے دکھائے تو ہر آنکھ اشک بار ہو گئی ۔تب میں نے لکھا کہ آج غازی عبد الرشید کو محفوظ راستہ نہیں دیا گیا لیکن وہ دن ضرور آئے گا جب یزیدیت کا علم بردار آمر مشرف محفوظ راستے کی بھیک مانگے گا لیکن اُس پر کان دھرنے والا کوئی نہ ہو گا ۔جب مشرف کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا گیا اور وہ خاموشی سے بیرونِ ملک پرواز کر گیا تب بھی مجھے یقین تھا کہ آمر ایک نہ ایک دن ربِّ لَم یزل کی پکڑ میں ضرور آئے گا کہ میرے ربّ کی رسّی جتنی دراز ہے اُس سے کہیں زیادہ اُس کی پکڑ مضبوط ہے ۔میرا ایمان ہے کہ آمر اب ربِّ جبار و قہار کی گرفت میں ہے اور مغرور و متکبر آمر کو نشانِ عبرت بنا دینے کی گھڑی آن پہنچی ۔
وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے پرویز مشرف کے خلاف آئین کی پامالی ، عدلیہ کی معزولی اور ججز کو پابندِ سلاسل کرنے کے اقدامات پر عدالتِ عظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں 18 نومبر سے آرٹیکل 6 کے تحت غداری کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 3نومبر 2007ء کے پرویز مشرف کے اقدامات سے متعلق ایف آئی اے کی تین رکنی کمیٹی نے اپنی تحقیقات مکمل کر لی ہیں اور تحقیقاتی رپورٹ 18نومبر کو سپریم کورٹ میں جمع کروا کر چیف جسٹس سپریم کورٹ سے مشرف کے خلاف مزید کارروائی کے لیے ہائی کورٹس کے تین جسٹس صاحبان پر مشتمل تین رکنی جوڈیشنل کمیشن بنانے کی استدعا کی جائے گی جو مشرف کے خلاف کارروائی کرے گا ۔وزیرِ داخلہ کے اِس اعلان کے ساتھ ہی تجزیوں اور تبصروں کا ایک طوفانِ بلا خیز اآمڈ آیا اورطرح طرح کی مو شگافیاں ہونے لگیں ۔مشرف کے دل کے بہت قریب شیخ رشید احمد نے کہا کہ اقتدار میں آنے کے بعد نواز لیگ کو غلط فہمی ہو جاتی ہے ۔یہ ایک شخص نہیں ادارے کے خلاف کیس ہے جِس سے نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا اور فوج نہیں چاہے گی کہ آرمی ایکٹ کی توہین ہو نہ ہی سعودی حکومت پسند کرے گی ۔شیخ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ 3نومبر کی ایمرجنسی پرویز مشرف نے ذاتی حیثیت میں بطور چیف آف آرمی سٹاف لگائی تھی جس کا سارا ریکارڈ موجود اور محفوظ ہے ۔مزید برآں اعلیٰ عدلیہ اِس ایمرجنسی کو پہلے ہی غیر آئینی قرار دے چکی ہے اِس لیے یہ سیدھا سادا غداری کا کیس ہے جس میں کوئی ابہام نہیں ۔رہی افواجِ پاکستان کی پسندیدگی یا نا پسندیدگی کی بات تو شیخ صاحب خاطر جمع رکھیں ، فوج کا ہر گز مداخلت کا کوئی ارادہ نہیں ۔ویسے بزعمِ خویش ایک قومی لیڈر ہونے کا دعویٰ کرنے والے شیخ صاحب کو اتنا تو احساس ہونا چاہیے کہ فیصلے کسی کی پسندیدگی یا نا پسندیدگی کو مدِ نظر رکھ کر نہیں کیے جاتے اور جو قومیں ایسا کرتی ہیں ، وہ برباد ہو جاتی ہیں ۔
پیپلز پارٹی نے توقع کے عین مطابق معاملے کو الجھانے اور لٹکانے کی کوشش کی ہے ۔پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول زرداری اور قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ دونوں نے ہی اِس بات پر زور دیا ہے کہ آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ 12 اکتوبر 99ء سے درج ہونا چاہیے ۔شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ مشرف کے خلاف اگر حکومت سنجیدہ ہوتی تو 12 اکتوبر 1999ء سے کیس بناتی جس میں مشرف کا ساتھ دینے والوں اور مشرف کے اقدام کو قانونی حیثیت دینے والوں سب کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج ہوتا ۔اُنہوں نے طنزیہ انداز میں کہا ’’اگر ہم شیر بن ہی گئے ہیں تو کرائم 12 اکتوبر 1999 ء سے بنتا ہے۔آپ کچھ لوگوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں ‘‘۔پیپلز پارٹی اپنے دَورِ اقتدار میں تو بھیگی بلّی بنی رہی اور اپنی قائد محترمہ بینظیر شہید کے قاتل کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا لیکن اب اسے بھی گرجنا برسنا آ گیا ہے ۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کے لیے اپنے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی نرم گوشہ نہ رکھنے والی پیپلز پارٹی کا مطمأ نظر یہ ہے کہ جج صاحبان کو اِس کیس میں شامل کرکے اپنی تشنہ آرزوؤں کی تکمیل کی جائے ۔اپنے دَورِ اقتدار میں تو وہ شدید ترین خواہش کے باوجود عدلیہ کا کچھ بگاڑ نہیں سکی لیکن اب وہ بدلہ لینے کے لیے نواز لیگ کا کندھا استعمال کرنا چاہتی ہے جو ممکن نہیں۔سیّد خورشید شاہ صاحب خوب جانتے ہیں کہ 12 اکتوبر 1999ء کے اقدامات پر کسی نے رٹ کی ، مقدمہ چلا نہ سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ آیا جبکہ 3 نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کو اعلیٰ عدلیہ غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے چکی ہے ۔اگر اکتوبر 99ء سے مقدمہ درج کرنا ہے تو پھر 1958ء کے ایوبی مارشل لاء سے کیوں نہیں ، پھر ضیاء الحق اور یحییٰ کے خلاف کیوں نہیں ؟کیا سیّد خورشید شاہ صاحب قوم کو ’’ٹرک کی بتّی ‘‘ کے پیچھے لگانا چاہتے ہیں ؟۔
آمر مشرف کے خلاف کارروائی کے بارے میں کئی آئینی شوشے چھوڑے جا رہے ہیں ۔ڈاکٹر خالد رانجھا نے تو یہ کہہ کر قصّہ ہی ختم کر دیا کہ حکومتی اقدام غیر آئینی ہے ۔آئینی ماہر ڈاکٹر خالد رانجھا سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا آئین کے ایکٹ 1976ء کے سیکشن 3 میں کوئی ابہام ہے ؟اور کیا وہ 3نومبر 2007ء کی ایمرجنسی پر اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے ؟۔یہ بجا کہ 1976ء کے قانون کے مطابق خصوصی عدالت کے قیام میں چیف جسٹس صاحب کا کوئی رول نہیں لیکن اگر حکومت درمیانی راستہ اختیار کرتے ہوئے چیف جسٹس صاحب سے ہائی کورٹس کے تین ججز کا پینل بنانے کی درخواست کرتی ہے تو اِس میں کیا غیر آئینی ہے؟۔سبھی جانتے ہیں کہ میاں برادران آمر مشرف سے شدید نفرت کرتے ہیں اور یہ نفرت بلا وجہ بھی نہیں ۔ غیر جانبداری کا تقاضہ تو یہی تھا کہ حکومت اپنے آپ کو اِس تمام قضیے سے الگ کرتے ہوئے معاملہ عدالتوں پر چھوڑ دیتی ، جو حکومت نے کر دیا ۔اگر حکومت کی طرف سے خصوصی عدالت کا قیام عمل میں آتا تو اِنہی لوگوں نے جانبداری کا الزام دھرنا تھا ۔اب حکومت نے سارا معاملہ عدلیہ پر چھوڑ دیا ہے اِس لیے عدالتی فیصلے کاانتظار کیا جانا چاہیے ۔
کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں عدالتی کمیشن کی تشکیل سے معاملہ لٹک جائے گا اور تاریخِ پاکستان بتلاتی ہے کہ جب کبھی حکومت کسی معاملے کو لٹکانا چاہتی ہے تو کمیشن تشکیل دے کر اپنی جان چھڑا لیتی ہے ۔اِس سلسلے میں عرض ہے کہ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار احمد نے اپنی پریس کانفرنس میں بار بار جوڈیشنل کمیشن بنانے کی بات تو ضرور کی لیکن شاید یہ سب کچھ غلط فہمی میں ہوا کیونکہ وزارتِ قانون کے ڈرافٹ کردہ خط کے مطابق چیف جسٹس صاحب کو مقدمے کی سماعت کے لیے ہائی کورٹس کے تین جج صاحبان کی خصوصی عدالت کی تشکیل کے لیے استدعا کی گئی ہے اور در حقیقت حکومت سپریم کورٹ کو یہ کیس تین رکنی سپیشل کورٹ کے قیام کے لیے بھیج رہی ہے۔ اِس کے علاوہ ایف آئی اے کی ٹیم اپنی انکوائری مکمل کر چکی ہے اور اُس نے بھی پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔یہ عدالت کسی کمشن یا ٹربیونل کی طرز کی نہیں ہو گی بلکہ یہ ایک خصوصی عدالت ہو گی جس میں مقدمہ آگے بڑھے گا ۔اب یہ پرویز مشرف پر منحصر ہے کہ وہ کس کس کے شریکِ جرم ہونے کااقرار کرتے ہیں ۔