کراچی(یواین پی)اربن ڈیموکریٹک فرنٹ کے بانی چیرمین ناہیدحسین نے کہاہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے قیادت میں ہجرت کرکے آنے والوں نے جذبہ ایمانی کے تحت اور نئے ولولوں کے ساتھ ہندوستان چھوڑا تھااور یوں وہ پاکستان سے محبت میں کھینچے چلے آئیں اور 68برسوں کے بعد طویل سفر میں اہلیان پاکستان خاص طور پر کراچی کے باشندوں نے انتھک جہدوجہد اور محنت سے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا ۔ مگر بعض انجانی قوتوں کو ان کا جذبہ پسند نہ آیااور یوں سازشوں کے ذریعے ہجرت کرکے آنے والوں کے خلاف ایسے منصوبے ترتیب دیئے گئے جو ان کی حب الوطنی پر سوالات کھڑے کرتے رہیں۔ ان سازشی عناصر میں وہ لوگ بھی شامل رہے جو ہم میں سے ہی تھے۔ جنہوں نے چند سکوں کے عوض اپنی وفاداریاں اور اقتدار کا سودا کیا۔ عارضی دنیا کیلئے عارضی مفادات کے خاطر اپنوں کو ہی نشانہ بنایا اور ہم پر مصلت رہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے عہداران و کارکنان کی ایک فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ناہید حسین نے مزید کہا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ جنہوں نے اپنی نسل کیلئے خوبصورت اور حسین خواب دیکھے تھے انہیں ذلت کی گھرائی میں دھکیل دیا گیا تاکہ وہ اپنی نسل کو اعلیٰ مقام اور ہنر نا دلاسکے۔ جس کی آرزو میں انہوں نے ہجرت کی تھی ۔ تعلیم میں واضح اکثریت حاصل کرنے والے اپنے اقدار پر مر مٹنے والے آج اپنے ماضی کو تلاش کررہے ہیں جس کی مثالیں دی جاتی تھی۔ ان کے کردار گفتار اور اخلاق کی مٹھاس کو کڑواہٹ میں بدل دیا گیا۔ اپنے نام سے عزت پانے والوں کی اولادوں کو ایسے ناموں سے پکارا گیا کے انسانیت بھی شرماجائے ۔ ہمیں ایسی قیادتیں نصیب ہوئی جنہوں نے ہم سے ہماری تہذیب بھی چھین لی اور یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت ہوا۔ ہمارے یہاں تو ملازمین سے گفتگومیں بھی حد ادب کا پاس رکھا جاتا تھا کیونکہ ہم روایت پسند لوگ ہیں مگر اب نا تو روایت پسندی رہی اور نہ ہی حد ادب کا معیار قائم رہا اور ہمارا شمار بھی نا معلوم افراد میں ہونے لگا۔ انہوں نے کہا افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کا تعلق اس مقام سے ہیں جن کے نزدیک اخلاقی قدروں کو پامال کرنا میوب نہیں سمجھا جاتا ۔ وہ ہمیں تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بذات خود عیش وعشرت کیلئے اپنا کلچر داؤپر لگا دیا ۔ خاندانی روایات کا گلہ گونٹ دیا ۔ جس نسل کو اعلیٰ تربیت دیکر والدین اپنی پہچان بنانا چاہتے تھے آج وہی ان کیلئے کلنگ کا ٹیکہ بن چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انسانی اقدار کی پامالی سے معاشرے میں درندگی وجود میں آئی دو قومی نظریہ کے تحت حاصل ہونے والے پاکستان کی ہم نے قدر نہیں کی اور جس مادر وطن کی آزادی کیلئے لاکھوں جانیں قربان ہوئی ۔ ناہید حسین نے کہا اس اہم نقطہ پر غور کریں کہ غلطی کہاں سرزد ہوئی ۔ کیا ہم نے اپنے قائد کا مان رکھا ، کیا ہم نے اتحاد یقین محکم اور تنظیم پر عمل کیا ؟ کرپشن کرنے کیلئے نہیں ، غبن کرنے کیلئے نہیں بلکہ ترقی کی بلندیوں کو چھونے کیلئے آزادی حاصل کی تھی لہٰذا مادر پدر آزاد معاشرے کو روایت پسندی کی حدود میں لاکر پھر سے اپنی پہچان بنانا ہوگی تاکہ ان قوتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے ۔ جن کی بدولت ہماری نسلیں بکھرتی جارہی ہے ۔ اس کیلئے ہم سب کو اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور پاکستان کو مضبوط بنانا ہوگا اور اپنی سوچ کو پاکستانی بنانا ہوگی۔ ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی ۔ ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ، اب بھی وقت ہے اور ابھی وقت کی لگامیں ہمارے ہاتھ میں ہیں ۔ ابھی وقت ہے کہ ہم سب ایک پرچم تلے سب فرق ختم کرکے پوری دنیا کو دکھائیں کہ پاکستان کی اصل طاقت اس کی 20کروڑ عوام ہیں اور آخر میں صرف کرپٹ سیاستدانوں اور بے حس حکمرانوں سے اتنا کہوں گا کہ اب بس کردو مت لوٹوپاکستان کو۔