محمد سفیان متعلم جامعہ علوم القرآن پشاور
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العلمین والعاقبۃ للمتقین والصلاۃوالسلالم علی رسولہ الکریم۔
امابعد: فأعوذباللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم.لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃحسنۃ۔
اللہ تعالیٰ کافضل وکرم ہے کہ ہم سب کومسلمان بنایااورپھراپنے محبوب نبی اکرم ﷺ کے امتی بنایا،وہ نبی جس کاامتی ہونے کے لیے حضرت عیسیؑ نے اللہ سے دعاکی تھی اوروہ دعا قبول ہوئی۔ ہمیں اللہ نے بغیرکسی دعاکے، بغیرکسی سفارش کے اپنے محبوب کے امتی ہونے کااعزازبخشاہے۔ اس پراللہ کاجتناشکربھی اداکریں توکم ہے۔
اب مسلمان اورآپ کامتی ہونے کی حیثیت سے ہمیں چاہیے کہ ہمیں یہ معلوم ہوکہ آپ ﷺ کون ہیں ۔ آپ کی زندگی کیسی ہے۔ قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ توکہ دیجئے ان سے کہ اگرتم یہ چاہتے ہوکہ اللہ تم سے محبت کرے تومیری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کامعیارآپﷺ کااتباع قراردیاہے لیکن ہم آپﷺ کی اتباع تب کرسکیں گے جب ہمیں علم ہوکہ آپﷺ کی زندگی کیسی تھی۔آپﷺ کی زندگی کوعام طورسے’’ سیرت النبی‘‘سے معنون کیاجاتاہے۔
سیرت کا لغوی معنیٰ:
لغت میں طور،طریقہ ،طرززندگی کوکہتے ہیں۔
سیرت کااصطلاحی معنیٰ:
سیرت ویسے توپوری احادیث مبارکہ ہیں لیکن کچھ متقدمین ومتأخرین کااختلاف ہے۔
متقدمین کے نزدیک فقط سرایاوغزوات کے واقعات کو سیرت کہا جاتا ہے۔ لیکن متأخرین کے نزدیک آپﷺ کی سوانح عمری پرسیرت کااطلاق ہوتاہے۔
سیرت النبی ﷺقرآن کی روشنی میں:
قرآن مجیدمیں سیرت کی اہمیت پرآیات موجودہے جیسے ’’لقدکان لکم فی رسول اللہ اسوۃحسنۃ‘‘ تحقیق آپﷺ کی زندگی ایک بہترین نمونہ ہے۔
’’ومااتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتہو‘‘ اورجوکچھ تمہیں رسول دے اسے لواورجس سے منع کرے اسکوچھوڑدو۔ اس سے بھی آپﷺ کے افعال کی اہمیت معلوم ہوتی ہے یعنی جوافعال آپﷺ نے کئے تھے تووہ آپﷺ کی زندگی تھی۔ہمیں بھی چاہئے کہ ہم ان کی اتباع کرتے ہوئے ان کے کہنے پر عمل پیراں ہو۔
’’قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ویغفرلکم….الخ‘‘ان سے کہہ دیجئے (اے پیغمبر)کہ اگرتم چاہتے ہوکہ اللہ تم سے محبت کرے تومیری اتباع کروتواللہ تم سے محبت کرے گا۔
ولادت باسعادت:
پوری کائنات میں اللہ تعالیٰ نے عرب کی سرزمین کوپسندکیاعرب میں مکہ کاانتخاب کیا،مکہ میں قریش کاانتخاب کیا،قریش میں بنوہاشم کا، بنوہاشم میں عبدالمطلب کا، عبدالمطلب کے دس بیٹوں میں عبداللہ کاانتخاب کیااوراپنے محبوب کوایک اعلیٰ واشرف خاندان میں بھیجا۔
واقعہ فیل کے تقریباً ۵۰ سال بعداورواقعہ اصحاب الاُحدکے تقریباً۷۰ سال کے بعدآپ ﷺ کی ولادت ہوئی۔ جمہورمحدثین کے قول کے مطابق ۸ربیع الاول کوہوئی۔ پوری تاریخ ۵۷۱ء ۸ ربیع الاول ہے، اس میں اگرچہ ایک قول ۱۲ربیع الاول کابھی ہے لیکن جمہورمحدثین کاقول یہی ہے کہ ۸ ربیع الاول ہے۔
شجرہ نسب:
اللہ تعالیٰ اپنانبی ایسے شخص کوبناتے ہیں جولوگوں میں سب سے زیادہ عزت ،شرافت ونسب والاہو۔ہمارے نبی بھی مکہ میں نہایت اعلی نسب والاتھے۔
آپﷺ کاشجرہ نسب کچھ یوں ہے۔
سیدناومولانامحمدﷺبن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہربن مالک بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضربن نزاربن معد بن عدنان(متفق علیہ) یہاں تک آپ ﷺ کانسب اطہرمتفق علیہ ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کاارشادہے کہ آپ ﷺ یہاں تک اپنانسب بیان فرماتے اورپھررُک جاتے اورفرماتے کذب النسابون نسب والوں نے جھوٹ کہاہے۔
مادری شجرہ نسب:
مادری شجرہ نسب کچھ یوں ہے۔
محمدبن آمنہ بنت وہب بن عبدمناف بن زہرہ بن کلاب. کلاب پرماں وباپ دونوں کاشجرہ نسب مل جاتاہے۔
رضاعت:
عرب کادستورتھاکہ مالدارلوگ اپنے بیٹوں کودیہات میں بھیجتے تھے تاکہ صاف آب وہوا ہوصاف ستھراماحول ہواورفصیح زبان سیکھے اس کے لیے مختلف جگہوں سے عورتیں آتی تھی مکہ میں بچوں کواپنے ساتھ دیہات لے جانے کے لیے۔ جس سال آپ ﷺ کی ولادت ہوئی اس سال بنوں سعدکے عورتوں کے ساتھ حلیمہ سعدیہ بھی آئیں تھیں۔سب عورتوں نے مالداروں کے بچوں کولیاحلیمہ چونکہ بعدمیں پہنچی توصرف آپﷺرہ چکے تھے توشوہرکی اجازت سے انہوں نے آپ ﷺ کولیا۔جس اونٹ پروہ آئیں تھیں بہت ہی کمزورتھااورخودبھی سینوں میں دودھ نہ تھالیکن جیسے ہی انہوں نے آقائے نامدار ﷺ کا اٹھایاتویک دم آپؓکی سب کچھ ٹھیک ہوگئی۔ آپﷺ کواپنی ماں نے تین چارروزتک دودھ پلایاتھاپھرابولہب کی آزادکردہ لونڈی ثویبہ نے دودھ پلایااوراس کے بعد حلیمہ سعدیہ نے۔
نبوت:
آپﷺ کوچالیس سال کی عمرمیں نبوت عطا کی گئی اوراس کے بعدآپﷺ نے دعوت کاکام شروع کیا۔ آپﷺ کی دعوت کاعرصہ تقریباً ۲۱سال تھا۔ اس میں آپﷺ نے مختلف جگہوں پرکام کیا۔ اس تھوڑے عرصہ میں عرب کے جاہلوں پرمحنت کرکے ان سے رجال بنائے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنی رضاکااعلان کیا۔
حضرت ابوبکرسے صدیق بنایا،عمرسے فاروق بنایا،عثمان سے ذوالنورین بنایا،علی سے حیدرکراربنایا،حمزہ سے شیرخدابنایا۔ آپﷺ کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ اگرکوئی راہنمائی لیناچاہے تووہ سب کچھ پائے گا۔ آپﷺ کے زندگی کے چندپہلوں مندرجہ ذیل ہیں۔
نبی اکرم ﷺبحیثیت معلم:
آپﷺ کاارشادہے ’’انمابعثت معلماً‘‘ میں معلم بناکربھیجاگیا۔ آپﷺ دنیامیں احدایسے معلم ہیں کہ آپ ﷺ نے دنیامیں کسی سے کچھ نہیں پڑھا۔ اس میں بھی اللہ کی حکمت تھی کہ اگردنیامیں کوئی اُستادہوتاتواس کادرجہ تواونچاہوتاہے پھرآپﷺ سے درجہ میں کوئی اونچاہوتا ۔قرآن میں اللہ تعالیٰ کاارشادہے کہ آپﷺ تمہیں جو کچھ دیااُسے لے لواورجس سے منع کرے اسے چوڑوتوجس کی تعلیم دیں گے ویساہی کرو۔
نبی اکرم ﷺ بحیثیت مبلغ:
آپﷺ کی پوری زندگی تبلیغ تھی۔ ایک ایک کافرکے گھرگئے تھے اوراسلام کی دعوت دی تھی۔ جب جنگ کرتے توبھی پہلے اسلام کی دعوت دیتے۔ قرآن میں ہے کہ اے رسول پہنچاؤ اسے جونازل ہوتمہیں تمہارے رب کی طرف سے۔
نبی اکرم ﷺبحیثیت شوہر:
آپﷺ کی ایک حیثیت شوہرکی ہے ۔ متعددازواج تھی اگرچہ آپﷺ کوانصاف نہ ہونے کی صورت میں رخصت تھالیکن پھربھی آپﷺ نے ایساانصاف قائم کیاکہ جوقیامت تک انسانوں کے لیے نمونہ ہے ہرایک بیوی کانمبرمقررتھا۔
نبی اکرم ﷺکی اخلاق:
اخلاق کاباب توبہت وسیع ہے قرآن مجیدمیں ہے کہ بے شک آپﷺاخلاق کے بلندمرتبے پرہے ۔ اخلاق کے بہت واقعات ہیں جس سے آپﷺ کے حسن خلق کاپتہ چلتاہے۔
نبوت سے قبل ایک آدمی نے آپ کے ساتھ کچھ خریدوفروخت کی تواس نے آپﷺ سے کہاکہ آپ انتظارکرے میں آتاہوں وہ گیااوربھول گیا۔ وہ شخص کہتاہے کہ تین دنوں کے بعدمیں آیاتوآپﷺ کووہاں منتظرپایاتوآپ ﷺ نے صرف اتنافرمایاکہ تم نے مجھے زحمت دی ہے۔ یہ تونبوت سے قبل کاواقعہ ہے۔
نبوت کے بعدبہت واقعات ہے جوہمیں اخلاق کاسبق دیتے ہیں۔
نبی اکرم ﷺبحیثیت سپہ سالار:
آپﷺ نے تقریباً ۲۷غزوات کی ہیں اور۵۴ سرایا۔ آج بھی اگرجنگ کی نوبت آئے توآپﷺ کی زندگی سامنے موجودہے۔تاریخ دان تھک گئے ان کی قلمیں ٹوٹ گئیں ،سیاہیں خشک ہوگئیں لیکن آپﷺ کی زندگی کوایک بھی مکمل نہ لکھ سکاتومیں کیسے اتنے مختصروقت میں آپ کی زندگی کوسمیٹ سکاتاہو۔ چند پہلوں کوآپ کے سامنے کیا۔
وفات:
آپﷺ کی وفات ۱۲ربیع الاول کوہوئی اورجہاں وفات پائی وہاں مدفون بھی ہیں آپﷺ کاجنازہ کسی نے بھی جماعت کے ساتھ نہ پڑھایا بلکہ سب نے الگ الگ نماز جنازہ پڑھا۶۳۴ء کوآپ وفات پاگئے۔