تحریر۔۔۔ ڈاکٹر بی اے خرم
قارئین کو بخوبی یاد ہے کہ جب پٹھان کوٹ کا واقعہ روونما ہواتوہمسایہ ملک بھارت کے وزیر دفاع نے کیا کہاتھابھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے پٹھانکوٹ حملے کا الزام پاکستان پر دھرتے ہوئے کھلم کھلا دھمکیاں دیں۔ منوہر پاریکر نے کہا تھا جوابی حملہ کس وقت اور کہاں کرنا ہے اس کا تعین وہ کریں گے ابھی پٹھان کوٹ کے واقعہ کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ پاکستان میں دل ہلا دینے والے سانحہ نے رونگھٹے کھڑے کر دیئے ۔ منوہر پاریکر کی پاکستان کو کھلے عام دھمکیوں کے بعد پہلے پشاور میں چیک پوسٹ اور اس سے اگلے دن ہی چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ ہوا۔منوہر پاریکر نے ایسا بیان پہلی بار نہیں دیا پچھلے سال بائیس مئی کو منوہر پاریکر نے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کانٹے سے ہی کانٹا نکلتا ہے۔ صرف ہمارا فوجی کیوں مرے‘ ہم بھی دہشت گردوں کو استعمال کر سکتے ہیں۔ دہشت گردی کا مقابلہ دہشت گردی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔پاکستان دہشت گردی کے کئی واقعات میں بھارت کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت عالمی برادری کو دے چکا ہے۔ پاکستان نے عالمی برادری کو بارہا آگاہ کیا کہ افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانے دہشت گردی کے اڈے بن چکے ہیں جہاں دہشت گردوں کو تربیت دیکر پختونخوا اور ملک کے دیگر حصوں میں داخل کیا جارہا ہے۔چارسدہ حملے کی تحقیقات میں سکیورٹی ادارے یقیناًاس پہلو پر بھی تحقیق کریں گے کہ پاکستان پر بے بنیاد الزام لگانے والے بھارتی وزیر دفاع نے دھمکیوں پر عمل کی کوشش تو نہیں کی۔دہشت گردوں کو کس کی پشت پناہی حاصل تھی ؟ کون پاکستان میں دہشت گردی کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے ؟ اس کے ثبوت تو تحقیق اور تفتیش کے بعد ہی سامنے لائے جائیں گے تاہم بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کی دھمکیوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
جب وطن عزیزپاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت سعودی عرب اور ایران کشیدگی کے حل کے لئے سرکاری دورے پہ تھی تب دہشت گرد اور سماج دشمن عناصر نے خیبر پختون خواہ کا رخ کر لیا پہلے انیس جنوری کو پشاورکو نشانہ بنایا جس میں 10افراد جاں بحق ہو گئے تھے یہ دھماکہ جمرود روڈ پر خاصہ دار چیک پوسٹ کے قریب کیا گیا دہشت گردوں نے خیبر ایجنسی اور پشاورکے سنگم پر واقع علاقے کار خانوبازار میں خاصہ دار فورس کی چیک پوسٹ کو نشانہ بنایاجاں بحق ہونے والوں میں خاصہ دار فورس کے افسر نواب شاہ ،باڑہ پریس کلب کے صدر محبوب شاہ آفریدی اور ایک بچہ بھی شامل ہیں اس دھماکے میں دس قیمتی جانوں کے علاوہ مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا دوسرے ہی روزباچا خان کی برسی کے موقع پہ باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں دہشتگردوں نے خون کی ہولی کھیلی جس کے حملے کے نتیجے میں ایک پروفیسر، دو طالبات، چار گارڈز دیگر عملہ اور ایک پولیس اہلکار سمیت25افراد شہید اور 50سے زائد افراد زخمی ہوئے،جبکہ پاک فوج کے کمانڈوز نے6دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا،زخمیوں کو چارسدہ اور پشاور کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیاگیاجہاں پر کئی زخمیوں کی حالت تشویشنا ک ہے اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے اس سانحہ سے ہر آنکھ اشکبار ہوئی چارسدہ کا ہیرو ,بہادر ڈرائیور جس کی حاضر دماغی نے سینکڑوں طالبات کی جانیں بچا لیں۔جب دہشتگردوں نے یونیورسٹی پر حملہ کیااور گارڈ پر فائرنگ کی جسے پہلی گولی کندھے میں لگی ڈرائیور اکرام نے جیسے ہی فائرنگ کی آواز سنی اوراور سکیورٹی گارڈ کو گرتے دیکھا تو وہ فوری طور پر گرلز ہاسٹل کی جانب بھاگا اور طالبات کو حملے سے باخبر کیا اور فوری طور پر انہیں یہاں سے نکلنے کی ہدایت کی۔یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ڈرائیور اکرام کی بہادری اور حاضر دماغی نے سینکڑوں طالبات کی جانیں بچالیں سیکیورٹی اداروں کی بروقت کارروائی سے بھی بڑے نقصان سے بچالیا گیا۔
دسمبر 2014میں آرمی پبلک سکول پشاور پر حملے کے بعدباچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر حملہ خیبر پختو خوامیں کسی تعلیمی ادارے پردوسرا بڑا حملہ ہے ۔آرمی پبلک سکول 16دسمبر 2014ء کو دہشتگردوں کا نشانہ بنا جبکہ دہشتگردوں نے باچا خان یونیورسٹی چار سدہ پر حملے کیلئے 20جنوری 2016ء کا دن چنا ۔آرمی پبلک سکول پر حملے کا دن پاکستانی تاریخ میں ایک افسوسناک دن تصور کیا جاتا ہے کیونکہ 16دسمبر کو ہی سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا تھا اورپاکستان دولخت ہوگیا تھا ۔20جنوری قوم پرست رہنما باچا خان کی وفات کا دن ہے اوربدھ کو ان کی 28ویں برسی منائی رہی تھی جب ان کے نام سے موسوم یونیورسٹی پر دہشتگردوں نے حملہ کیا ۔دونوں حملوں کے درمیان پورے 400دنوں کا وقفہ ہے ۔
بیس جنوری باچا خان یونیورسٹی چارسدہ میں قوم پرست رہنما باچا خان کی برسی کے موقع پر مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں شرکت کے لئے طلبہ، اساتذہ اور عملے کی بڑی تعداد موجود تھی کہ صبح ساڑھے نو بجے کے قریب دہشت گرد وں نے یونیورسٹی میں داخل ہوکر اچانک فائرنگ شروع کردی ، جس سے خوف ہراس پھیل گیا اور بھگدڑ مچ گئی، اس دوران دو دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئی ہیں۔ حملے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور پاک فوج کے کمانڈوز نے چارسدہ یونیورسٹی کا محاصرہ کر لیا اور جامعہ کے اندر فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا،حملے کے بعد یونیورسٹی میں موجود طلبہ شدید خوف و ہراس کا شکار رہے اور کئی طلبہ بھگدڑ کے نتیجے میں زخمی بھی ہوئے ۔یونیورسٹی میں 3ہزار سے زائدطلبہ و طالبات جبکہ مشاعرے کیلئے 600مہمان بھی آئے ہوئے تھے۔ مسلح دہشتگرد یونیورسٹی کی پچھلی طرف سے اندر داخل ہوئے ۔ حملہ پشاور سکول طرز کا لگتا ہے ٗ دہشتگرد دیوار پھلانگ کر اندر آئے ۔ حملہ آور یونیورسٹی کے عقب میں موجودگنے کے کھیتوں اور دھند کا سہارالے کریونیورسٹی میں داخل ہوئے اور فائرنگ شروع کر دی باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرنے والے دہشتگردوں کی عمریں 25سے 30سال کے درمیان تھیں کافی دنوں سے افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ درس گاہوں کو نشانہ بنایا جائیگا ٗ سوالیہ نشان ہے کہ اس سلسلے میں معلومات کا کتنا تبادلہ ہوا؟انھوں نے کہا کہ طلبہ سافٹ ٹارگٹ ہیں ٗحملے سے زیادہ دہشت پھیلتی ہے اور دہشت گرد یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ آپریشن ضربِ عضب کے بعد بھی ان میں اب بھی صلاحیت ہے کہ وہ دہشت پھیلا سکتے ہیں سیاسی طور پر ہم آہنگی اور از سرنو پلان مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔اگر کوئی پیشگی اطلاع تھی تو اس پر غور و فکر اور موئثر حکمت عملی کیوں نہ بنائی گئی دہشت گردوں سے جو سمیں ملی وہ ہمسایہ ملک افغانستان کی ہیں دہشت گردی کے دوران فون کالز ہوئیں دہشت گردوں نے جس سم سے آخری کال کی بھی افغانستان ہی کی گئی عسکری ذرائع کے حوالہ سے بھی بہت سے شواہد کو منظر عام پہ لایا گیا اور مزید شواہد جلد سامنے لانے کا عندیہ بھی دیا گیا اس ساری صورت حال میں جو افسوس ناک پہلو ہے وہ یہ ہے کہ ہماری حکومت اس سارے معاملے پہ مذمت کا ایک لفظ بھی بھارت کے خلاف نہیں بول سکی بھارت میں ایک چڑیا کی بھی ہلاکت ہوجائے تو انڈین حکومت ردعمل کے طور پہ پاکستان پہ کھلم کھلا الزام عائد کردیتی ہے قوم کے معماروں کو انتہائی بے دردی اور سفاکی سے شہید کیا گیا لیکن وطن عزیز کے حکمرانوں کی زبانوں پہ تالے لگ چکے ہیں پٹھان کوٹ کے واقعہ پہ میڈیا بھی چیخ چیخ کر پاکستان پہ الزام عائد کر رہا تھا اور اب میڈیا کی زبان بھی بند ہو چکی ہے یہ دوہرا معیاربھی قابل مذمت ہے
نئے سال کے پہلے بیس دنوں میں چار دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے جس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا بیس جنوری کو خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں کو دہشت گردوں کی جانب سے متعدد بار نشانہ بنایا گیا جس میں معصوم بچوں سمیت کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں خیبر پختونخوا میں گذشتہ ہفتے بھی سیکیورٹی خدشات اور دھمکی آمیز خطوط ملنے کے بعد پشاور میں سرکاری اور نجی اسکولوں کو بند کردیا گیا تھا۔۔16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 130 بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوئے تھے۔یکم اکتوبر 2014 کو پشاور میں ہی ایک اسکول پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تھا جس میں سکول کی خاتون ٹیچر ہلاک اور 2 بچے زخمی ہوئے تھے۔18 نومبر 2014 کو پاک افغان سرحد پر واقع کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پارا چنار میں ایک سکول وین کو بم سے نشانہ بنایا گیا تھا جس میں گاڑی کا ڈرائیور سمیت ایک بچہ ہلاک ہوا تھا۔29 اکتوبر 2015 کو خیبر پختونخوا میں چارسدہ میں شبقدر کے علاقے میں 2 سرکاری سکولوں کے سامنے نامعلوم افراد نے فائرنگ کی تاہم اس فائرنگ سے کوئی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا تھا۔3 نومبر 2015 کو خیبر پختونخوا میں ہی نوشہرہ میں 3 حملہ آوروں نے ایک گرلز سکول کے باہر ہوائی فائرنگ کی تھی ،سکول کے باہر فائرنگ کرنے والے افراد کو پولیس گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔سانحہ چار سدہ ہونے پہ پورے ملک میں ایک روزہ،آزاد کشمیرمیں دو روزہ،خیبر پختون خوا میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیاواقعہ کے اگلے روز قومی پرچم بھی سرنگوں رہادہشتگرد اعلیٰ انسانی اقدار سے محروم ہیں ٗعام شہریوں ٗزیر تعلیم معصوم بچوں کے خلاف کارروائیوں سے گریز نہیں کرتے ٗ عالمی برادری دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران عام شہریوں کے تحفظ کیلئے موثر اقدامات کرے ٗ بین الاقوامی سطح پر امن و سلامتی کے فروغ کیلئے مسلح تنازعات کی بنیادی وجوہات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے چارسدہ میں جو کچھ ہوا ہے اس پر پوری قوم آبدیدہ ہے پوری پاکستانی قوم متحد ہے اور ملک دشمن عناصر کے ایسے بزدلانہ ہتھکنڈوں سے ہرگز مرعوب نہیں ہو گی ،دہشتگردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان کے ایک ایک نقطے پر عملدرآمد کرنا ہوگا تاکہ آئندہ اس طرح کے دلخراش واقعات رونما نہ ہوں