پشاور(یو این پی)باچا خان یونیورسٹی کی تفتیش میں اہم پیش رفت ہوئی ہے مقامی صحافی کے ساتھ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دہشت گردون کے کمانڈر عمر نے حملے سے متعلق جو گفتگو کی اس کی ریکارڈنگ ائی ایس پی ار نےجاری کر دی ۔تفصیلات کےمطابق پشاور میں موجود صحافی کو جب کال موصول ہوتی ہے تو اس سوال کے جواب میں وہ پوچھتا ہے کہ یہ تو یونیورسٹی ہے یہ تو پھر اے پی ایس والا معاملہ ہو گیا تو دوسری طرف سے جواب ملتا ہے یہ تو صحیح ہے کیونکہ یہ تو ہمیں در بدر کر رہے ہیں یہ کون ہیں یہ بھی تو اسی نظام کا حصہ ہیں اور یہ جمہوریت کا حصہ ہیں اور طاغوتی نظام کا حصہ ہیں۔صحافی نے جب سوال کیا کہ حملہ آوروں کی تعداد کیا ہے جو جواب ملا کہ ہمارے چار بندے ہیں ان کا حملہ آوروں کے ساتھ رابطہ ہے ہمارے وضاحتی بیان میں سب کچھ ہےتمہیں تصویریں اور ویڈیو بھیج دینگے ہم تحریک طالبان کی جانب سے ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔صحافی نے سوال کیا کہ آپ کے ساتھی خود کش حملہ آور یا وہ خود کش نہیں تو جواب دیا گیا کہ یہ سب فدائی ہیں جن کے نام عثمان،عمر،عابد اور علی محمد ہیں، صحافی نے سوال کیاکہ کیا یہ ان کے اصل نام ہیں یا کوڈ نام ہیں تو جواب ملا کہ یہ انکے اصل نام ہیں صحافی نے پوچھا کہ حملہ آوروں میں کتنے زندہ ہیں تو اسے جواب دیا گیا کہ انہیں اطلاع ہے کہ ایک مارا گیا ہے اور تین کارروائیاں کررہے ہیں فون پر یہ بھی پیغام دیا گیا کہ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہمارے معاونین اور سہولت کار سب کو ختم کیا جائے گا اس پر عمل شروع ہے 332 کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا ہے اور 21 ہزار آپریشن کئے گئے ان سب کو مجاہدین کے سہولت کار ہونے کا نام دیا گیا ہے ہم ان کو یونیورسٹی والے سہولت کار کہیں گےکل بھی پشاور اور ڈی ائی خان میں ہمارے بندے مارے گئے۔