جذام جس کو عام زبان میں کوڑھ بھی کہا جاتا ہے ۔کوڑھ ایک ایساچھوت کامرض ہے، جس میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے ۔جسم میں پیپ پڑجاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی مریض کے جسم کا گوشت ٹوٹ ٹوٹ کر نیچے گرنے لگتا ہے ۔کوڑھی کے جسم سے شدید بدبو بھی آتی ہے۔ کوڑھ کے جراثیم بارے بتایا جاتا ہے کہ یہ ٹی بی کے جراثیم کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے ۔ جذام کا موجب بننے والے جراثیم کا انکشاف سب سے پہلے ہانسین نے کیا تھا ۔لیکن یہ مرض صدیوں پرانا ہے ۔
جذام کی بیماری ان افراد کو عام طور پر ہوتی ہے ،جن میں قوت مدافعت کی کمی ہو۔قوت مدافعت کی کمی آلودگی ،نا مناسب غذا،ورزش نہ کرنے ،ملاوٹ اور کیمکل والی خوراک کھانے اور آلودہ پانی پینے سے ہوتی ہے ۔اس جراثیم کے جسم میں داخل ہونے کا راستہ عام طور پر سانس ہوتا ہے ۔ایک مریض سے دوسرے مریض کو بیماری لگ جاتی ہے ۔
دنیا بھر میں جذام کا عالمی دن 30 جنوری کو منایا جاتا ہے ۔یہ دن منانے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کی توجہ جذام کے موذی مرض کی طرف مبذول کرانے ۔اس کے بارے آگاہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عوام میں یہ احساس بیدار کرنا کہ جذام کی بیماری کے علاج کے سلسلے میں لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔اور یہ کہ یہ قابل علاج بیماری ہے۔ اِسی ضرورت کے پیشِ نظر 1952 ء میں جذام کا دن منانے کی ابتدا ہوئی۔عالمی سطح پر1954 ء میں جذام کے مرض سے متعلق آگاہی اور اس مرض میں مبتلا مریضوں سے اظہار یکجہتی کا دن منانے کا فیصلہ کیا گیا ۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ عوام کو چاہئے کہ جسم پر کوئی بھی ہلکا سفیدی یا سرخی مائل دھبہ نمودار ہو ،جس میں خارش اور چھونے کا احساس نہ ہو،کئی ہفتوں تک دھبہ ختم نہ ہو،دوائی یا مرہم اس پر اثر انداز نہ ہو،بازوؤں اور ٹانگوں کی نسوں میں درد کا احساس ہوتو فوری اپنے قریبی اسپتال سے رابطہ کرکے اس بیماری کی معلومات کریں تاکہ مرض پر فوری قابو پایا جاسکے ۔
اس مرض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جذام قابل اعلاج مرض تو ہے لیکن بر وقت تشخیص نہ ہونے کے باعث مریض کئی بیماریوں میں بھی مبتلا ہو جا تاہے ۔ملک میں فضائی آلو دگی اور گھروں میں صفائی ستھرائی کے فقدان اور نامناسب،غیر معیاری ،ملاوٹ شدہ خوراک (چونکہ اس سے قوت مدافعت کمزور ہوتی ہے )کے باعث ہر سال 300 سے زائد افراد اس جذام کا شکار ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر روتھ فاؤنے سن 1958ء میں جب ان کی عمر 30 سال تھی، پاکستان میں کوڑھ ( جذام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی۔اس وقت پاکستان میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا تھا ۔کوڑھ کے مریضوں کے لیے الگ کالونیاں بنی ہوئی تھیں ۔ان کو ان کیا اپنے خون کے رشتے ان بستیوں میں چھوڑ جاتے تھے ۔یعنی ان سے ہر طرح کا تعلق ختم کر لیا جاتا تھا ۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ جرمنی کی شہری تھی، جب اس نے فلم دیکھی تو اندر سے لرز گئی وہ انسانیت کی محبت میں کوڑھ کے مریضوں کا علاج کرنے کراچی آئی ۔ اس نے پاکستان کے کوڑھیوں کے لیے اپنا ملک ،اپنی جوانی ،اپنا خاندان چھوڑ دیا ۔انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا۔یہ عظیم خاتون نے اپنے ہاتھوں سے ان کوڑھیوں کو دوا بھی کھلاتی تھی اور ان کی مرہم پٹی بھی کرتی تھی۔ جن کو ان کے سگے بھی چھوڑ گئے تھے ۔اس کی نیت صاف تھی، اللہ نے اس کے ہاتھ میں شفا دی ۔
یہ سینٹر 1965ء میں ایک اسپتال کی شکل اختیار کر گیا۔یوں پاکستان میں جذام کے خلاف انقلاب آ گیا۔ وہ پاکستان میں جذام کے سینٹر بناتی چلی گئی، یہاں تک کہ ان سینٹر کی تعداد 156 تک پہنچ گئی ۔ڈاکٹر روتھ فاؤنے اس دوران 60 ہزار سے زائد مریضوں کو زندگی دی۔
حکومت نے 1988ء میں ان کو پاکستان کی شہریت دے دی۔ اسے ہلال پاکستان ،ستارہ قائداعظم ،ہلال امتیاز اور جناح ایوارڈ بھی دیا گیا اور نشان قائداعظم سے بھی نوازا گیا۔ آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔
ڈاکٹر روتھ فاؤ کو پاکستان کی مدرٹریسابھی کہاں جاتا ہے، اس عظیم خاتون نے اپنی زندگی اس نیک کام کے لیے وقف کر دی تھی ۔پورے ملک میں سنٹر کھل گئے ۔جذام کا علاج ہونے لگا ۔اس پر عالمی ادارہ صحت نے 1996ء میں پاکستان کو ’’لپریسی کنٹرولڈ‘‘ ملک قرار دے دیا ۔یہ بات قابل فخر ہے کہ پاکستان ایشیاء کا پہلا ملک تھا، جس میں جذام کنٹرول ہوا تھا۔