تبصرہ: حسیب اعجاز عاشرؔ
پاک ٹی ہاوس میں کئی صحافی دوستوں سے خوبصورت ملاقات کا شرف حاصل ہوا،مگراِن میں نسیم الحق زاہدی سے میری یہ پہلی ملاقات تھی ، گپ شپ کا سلسلہ چلا اور چائے کے آخری گھونٹ سے قبل ہی پہلی ملاقات اِنکی خوش کلامی، خوش اخلاقی،ملنساری کے باعث پُرانی دوستی میں بدل گئی ۔انہوں نے اپنے منتخب کالموں کے پہلے مجموعے ’’سپہ سالارامن۔۔۔حضرت محمدﷺ‘‘کے اول صفحہ پر’’مکرمی جناب حسیب اعجاز عاشرؔ صاحب کی خدمت عالیہ میں انتہائی ادب و احترام کے ساتھ ۔۔ذوقِ مطالعہ اور تبصرہ کے لئے‘‘لکھ کر اپنے اُردو دستخط کے ساتھ بے تکلفانہ انداز میں یہ کہتے ہوئے کہ ’’تبصرہ ضرور کیجئے گا ‘‘مجھے تھما دی۔دیدہ زیب سرورق، عمدہ کاغذ اور دلکش کتابت،مطالعہ میں تاخیر ممکن تھی مگر تبصرے کی شرط نے فوراًمطالعہ پر آمادہ کر دیا،ویسے میں کوئی تبصرہ نگار یا نقاد تو نہیں بس انکے لاجواب مقدس مجموعہ کالم کے سرسری مطالعہ سے نسیم الحق زاہدی کے قلب و ذہن میں اتر کر انکی سوچ و فکر کو پرکھ کر جو تاثرات فی البدیع قائم ہوئے،پیش کرنے کی جسارت کر رہاہوں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ نسیم الحق زاہدی کی شخصیت اور قلمی ہنرمندیاں ’’سپہ سالارامن۔۔۔حضرت محمدﷺ‘‘کے مطالعہ کے بعد ہی مجھ پر منکشف ہوئیں ہیں ۔اور میں یہ بات اب ڈنکے کی چوٹ پرکہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک اُجلا مسلمان،نکھرا پاکستانی، دردِ دل رکھنے والاشفاف و نفیس انسان اور ایک ایسا سچا اور کھرا لکھاری ہے کہ جسے نہ نام کی حوس ہے نہ دام کی لالچ، جس کی ایمانی قوت اسے اپنے مقصد سے کبھی ہٹنے نہیں دیتی۔نسیم الحق زاہدی کا تعلق شہرلاہورہے اور اپنی قلمی خدمات کے اعتراف میں گولڈ میڈلسٹ برائے امن ۲۰۱۲، امن ایوارڈ ۲۰۱۲ اور مادر ملت محترم فاطمہ جناح ایوارڈ ۲۰۰۳بھی حاصل کر چکے ہیں،بقول نسیم کے انکی بہت کم لوگوں سے طبیعت ملتی ہے اسی واسطے حلقہ یاراں کم اور انجمن رقیباں زیادہ رکھتے ہیں،انکے لکھنے کا مقصد کوئی ایوارڈ وصول کرنا نہیں بلکہ دنیا کفر کو یہ پیغام دینا ہے جو اسلام کو جبر کا دین اور پیغمبر امن پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔کہ اسلام امن و انسانی حقوق کا علمبردار مذہب ہے اور سپہ سالار امن حضرت محمدﷺ اس کے بانی و پاسبان ہیں۔اللہ تعالی نے نسیم کو نہ صرف منفی روایات کو مسمار کرنے کے فن سے نوازا ہے بلکہ مثبت روایات کو قائم کرنے کی صفتِ عالیہ سے بھی آراستہ کیا ہے انکی غیر جانبدار تحریریں انقلاب و بغاوت کے ایسی روشن کرنوں میں لپٹی محسوس ہوئی ہیں جویہاں رائج فرسودہ سوچ و نظام کو چیرتی ہوئیں پھوٹنے کو بیتاب ہیں۔
نسیم الحق زاہدی کی یہ نادرکتاب عرصہ قلیل میں مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگی ہے اور ایسا کیونکر نہ ہو،جس ایمان افروزکتاب کا ٹائٹل ہی ’’سپہ سالارامن۔۔۔حضرت محمدﷺ‘‘ہو، تو یہ کیسے ممکن ہے وہ بابرکت نہ ہو۔مزید یہ کہ ۔۔۔’’سپہ سالارِ امن۔۔حضرت محمدﷺ‘‘کو نسیم الحق زاہدی نے جس عظیم ایمانی انداز و بیان میں دنیا کی عظیم تر ہستیوں کے نام کیا ہے اُس سے خودہی اپنی نگاہوں کو ٹھنڈا کیجئے’’رحمت دو عالم حضرت محمدﷺ کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ عدل و انصاف اور امن قائم کرنے والے مرادِ نبی خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت عمر بن العزیزؒ کے نام‘‘جس پر زبان پے جاری بے ساختہ سبحان اللہ سبحان اللہ کے علاوہ ایک لفظ بھی تبصرے میں لکھنے کو نہیں ۔جبکہ ماں کی دعائیں اور اپنوں کی چاہت نے بھی انہیں،انکی سوچ ،ان کے الفاظ اور اندازِ تحریر کو معتبربنادیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگلے ہی صفحہ پر انہوں نے قدم بہ قدم حوصلہ افزائی پر اپنی پیاری ماں جو آج انکے ساتھ نہیں ہیں مگر ہمیشہ انکے ساتھ ہیں ۔لختِ جگر صباحت نسیم شیخ، شریک حیات بشری نسیم شیخ سے اظہارِ تشکر بھی کیا ہے ۔ایسے میں رضاالہیِ سے اس کتاب کی مقبولیت میں کیونکر اضافہ نہ ہو۔اس کتاب کے مرتبین نامور لکھاری خانزادہ محمد فرخ اشفاق، عرفان سعیدانور اور علی رضا شاف کا ذکر بھی لازم ہے جن کا خلوص اِس کارِ خیر میں شامل ہے۔
عصرِ حاضر کے معروف نوجوان لکھاری بھی اس کتاب’’سپہ سالارامن حضرت محمدﷺ‘‘ جسے ایک روشنی کا سفر بھی کہا جا سکتا ہے، پر اپنی خوبصورت آراء کا اظہار کر چکے ہیں،جس کے بعدمجھ جیسے کم علم کے پاس کچھ لکھنے کو بچا ہی نہیں ۔جیسے سید محمد قاسم اِس کتاب میں اپنے پیشِ لفظ میں لکھتے ہیں کہ نسیم الحق زاہدی کی تحریر میں علم بھی ہے اور ادب بھی جو نہ اتنا مقفی مسجع ہے کہ پڑھنے والے کے سر سے گزر جائے اور نہ ہی ایسی ارزاں تحریر کر مدعا بھی واضح نہ کر سکے اسکے قلم میں روانی ،پراثر، پرلطف اور دلپذیر ہے۔یہ ایک ایسا دردِ دل کھنے والا نوجوان ہے جو اصلاح اور بھلائی کے ہر سوتے کو پروان چڑھانے کیلئے بے تاب رہتا ہے اور اس عمل میں مصروف لوگوں پر تحسین و آفریں کے پھول برساتا ہے۔ اس میں شک نہیں یہ قلم اور قلمکار ملک کا قیمتی سرمایا ہے جو یقیناًآگے چل کر نہایت منافع بخش ثابت ہوگا۔سابق صدر پی ایف یو سی عبدالماجد ملک اپنے تبصرے بعنوان ’’نسیم الحق زاہدی عصر حاضر کا خوبصورت لکھاری‘‘میں لکھتے ہیں کہ’’سپہ سالارامن حضرت محمدﷺ‘‘ نسیم الحق زاہدی کی آقا مدنیﷺ دے حد درجہ محبت کا ثبوت ہے ،یہ خوبصورت نوجوان من وعن بغیر کسی لگی لپٹی کے بیان کر دیتا ہے اس کی تحریروں میں انسانیت کا درد کوٹ کوٹ کا بھرا ہوا ہے وہ اپنی تحریروں میں امن کا پرچار کرتا بھی دکھائی دیتا ہے اور کہیں کہیں بین المذاہب ہم آہنگی کا درس دیتے ہوئے نظر آتا ہے۔صدر پی ایف یو سی فرخ شہباز وڑائچ ’’زاہدی کون ہے؟‘‘ میں لکھتے ہیں کہ نسیم الحق زاہدی کا قلم روانی سے،سلیقے اور قرینے کے ساتھ پڑھنے والے کو میٹھی خوشبو عطا کرتا ہے۔زاہدی سچے عاشق رسولﷺ ہیں انہوں نے کتاب کا ٹائٹل بھی آقا مہربانی حضرت محمدﷺ سے منسوب کیا ہے۔اس کتاب کی اپنی عظمت ہے ،اس کی ناکامی اور کامیابی کا فیصلہ کرنے والے آپ اور میں کون ہوتے ہیں؟۔امید ہے ان کی یہ محنت رنگ لائے گی۔علی رضا شاف اس کتاب پر اپنے تبصرے میں لکھا کہ یہ خوبصورت کتاب’’سپہ سالارامن حضرت محمدﷺ‘‘ جس عظیم ہستی پر لکھی گئی ہے ان کی شان میں قلم اٹھانے کی جسارت اور توفیق انہی کو نصیب ہوتی ہے جن پر انکی خاص نظر کرم ہوتی ہے ۔مصنف نے بڑے خوبصورت انداز میں سیدی یا رسول اللہﷺ کو امن کا سپہ سالار اور امت مسلمہ کے ایک ایک فرد کو امن کا سرکردہ سپاہی قرار دیا ہے۔
بے شک نسیم الحق زاہدی کا قلم خوابیدہ ذہن کو بیدار کرنے کی طاقت رکھتا ہے ۔بحثیت حساس صحافی کے انہوں نے حقیقت پسندانہ رویے میں مذہبی،معاشی، بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی منظر نامہ کو بہت خوب انداز میں زیر موضوع بنایا ہے۔ انکی تحریروں میں اگر اسلام سے حد درجہ محبت نظر آتی ہے ،تو انسانیت سے ہمدردی اور قومی خدمات کا جذبہ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہ سکا۔لرزہ خیز سانحات کے بیان میں بھی انہوں نے نہایت دردمندی سے کام لیا ہے۔نسیم الحق زاہدی نے اس کتاب میں قلم کی آبرو پرکو ہر آنچ سے بچاتے ہوئے ابن الوقت، مفاد پرست، مارِ آستین اور جو فروش گند نما عناصر کے تکلیف در رویے پر گرفت کو مضبوط کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے،قابل تحسین ہے۔
زیرِتبصرہ کتاب میں نسیم الحق زاہدی کے مضامین بعنوان’’سپہ سالارِ امن ۔۔حضرت محمدﷺ‘‘،’’پیغمبرامن‘‘،’’کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں‘‘، انسان،امن،اسلام‘‘، ’’تم کس مذہب کی بات کرتے ہو‘‘،’’اسلام امن پسند دین ہے‘‘، ’’امن کا دشمن کون یہودی صلیبی یا مسلمان؟‘‘، بانی امنﷺ‘‘، ’’اسلام امن کا علمبردار مذہب ہے‘‘، اسلام میں بین المذاہب ہم آہنگی کا تصور‘‘کے علاوہ’مقام شوہر۔۔احادیث کی روشنی میں‘‘ میں بھی اِن کی مالک دو جہان اور شہنشاہ کون و مکاں حضرت محمد ﷺ سے والہانہ عشق ،عظیم الشان محبت ، بے پناہ لگاؤ کا ایک پرعقیدت اظہار ہے ۔جس کے مطالعہ سے شعور سے اندھیرے ہٹتے ہیں چاندنی پھیلنے لگتی ہے۔ کہکشائیں جگمانے لگتی ہیں ،صبح کی روشن کرنیں تن بدن اُجالنے لگتی ہیں اور دل اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی محبت میں محو ہوکر ہم جیسے بے ثمر راہوں میں عمریں برباد کرنے والوں کے ضمیر کو جھنجھورنے لگتی ہیں ۔انہوں نے کئی مواقع پر رب کائنات کی بھرپور حمد و ثناء اُس کی شانِ وحدت و بے نیازی ،یکتائی و کبریائی ،رحمت و مغفرت ،احسان و کرم ،عفوو درگزر اور بندوں کے ساتھ محبت و شفقت کا اعتراف و بیان بھی کیا ہے۔صفحہ نمبر ۳۲ پر ’’کی محمدﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں‘‘ِمیں لکھتے ہیں کہ’’ آنے والے دور میں اس مسلمان قوم کو آزمایا جائے گا ہمیں بہت قربانیاں دینی پڑیں گی ۔آپ کو اپنے بچے،اپنا مال، اپنی عزت اپنی آبرو قربان کرنی پڑیں گی اور یہ اٹل قانون ہے جس میں کوئی بھی ترمیم نہیں کی جا سکتی ‘‘۔جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ کے لئے مال ،جان وقت سب قربان کردینے کو تیار ہیں اور اِسی کی ذہن سازی کے لئے قلمی جہاد کا آغاز کر چکے ہیں۔اسلام پر کفار کی یلغار کو بھی انہوں نے بے نقاب کرنے کے ایک اچھی و پختا کاوش اپنے ایک کالم بعنوان ’’اسلام کو بدنام کرنے کی یہودی سازش‘‘میں کی ہے جو غیرت مند مسلمان کی رگوں میں ایک عجب سی بے چینی پیدا کردیتا ہے اور خون کچھ کر گزرنے کو کھولنا لگتا ہے۔
اِس امت کی فکر میں نسیم الحق زاہدی کی بے چین روح کی ہچکیاں قرطاس پر ایک زبردست ارتعاش پیدا کر رہی ہیں۔جیسا کہ صفحہ نمبر ۹۱ میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’’یہی ایک عیب ہے مجھ میں‘‘میں کیا خوب لکھتے ہیں کہ آج ساری باطن قوتیں اکٹھی ہو چکی ہیں مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس وقت جب کہ ہم مسلمانوں کو اتحاد کی اور ایک ہی جھنڈے تلے اکٹھے ہونے کی سخت ضرورت ہے ۔نسیم الحق زاہدی کے شب و روز اگر اسلام و مسلم کی فکر میں بے چین گزر رہے ہیں تو وہ وطنِ عزیزکی محبت سے بھی لمحہ بھر بے پروا نہیں ،جس کی تڑپ اُن کے کالموں بعنوان ’’سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے‘‘، ’’حکمران کب سوچیں گے؟‘‘، ’’کیا ہم آزاد ہیں‘‘، ’’میں باغی ہوں‘‘ میں باخوبی محسوس کی جاسکتی ہے۔جبکہ’’مزدور کو مرنے کی جلدی یوں بھی ہے محسن‘‘، ’’محکمہ بہبود آبادی۔۔یا فروغ فحاشی‘‘، جیسے کالموں میں بھی بصارت اور بصیرت نے حیاتِ معاشرت میں بے انصافیوں، طبقاتی تناؤ، تضادات، فسادات،حیات کے نشیب و فراز، استحصال پرگہری نظر رکھی ہے
وقت نے کچھ ایسی کروٹ بدلی ہے کہ سچ لکھنا ناممکن ہے، یا پھرسچ کو اپنے صیح وقت پر لکھا نہیں جاتا، اُس وقت زیرِقلم اورزیرِلب آتا ہے جب سچ اپنی افادیب کھو بیٹھتا ہے مگر نسیم الحق زاہدی اصلاحِ معاشرے کا عزم لئے بڑی دیانتداری سے اپنی آوازِضمیر پرسچ لکھنے اور سچ کو صیح وقت پر لکھنے کے لئے اپنے قلم و قرطاس سے پورا انصاف کر رہے ہیں،جیسا صفحہ نمبر ۶۳ میں اپنے کالم بعنوان ’’مجھے سچ لکھنا ہے‘‘میں خود لکھتے ہیں کہ عصر حاضر میں سچ زہر پینے اور حیوان تیاگ دینے کا نام ہے خود اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ پینے کا مرحلہ قیس اور سقراط سے بھی آگے کا ہے اور مجھے اس سنگلاخ مرحلہ کو سر کرنا ہے۔ہماری دعا ہے اللہ تعالی انہیں اپنی امان میں رکھے، نیک مقاصد میں کامیاب و کامران کرے،قلم میں بھرپور طاقت اور الفاظ میں مزیدتاثیر عطا فرمائے۔آمین۔
نوٹ فرما لیں کہ اگست ۲۰۱۵ میں منظر عام پر آنے والی ۱۱۲ صفحات کی یہ کتاب جو ۲۸نادر کالموں پر مشتمل ہے ۲۰۰ روپے قیمت پر حاصل کرنے کے لئے،یا اِس کتاب پر اپنی قیمتی اظہارِرائے کیلئے اِس ای میل آئی ڈی پرصاحبِ کتاب سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
naseemulhaqnuhz@gmail.com