زندگی میں ہمارا واسطہ ایسے کئی افراد سے پڑتا ہے جو مزاج کی بے جا سختی کے باعث ہمیں بالکل نہیں بھاتے،ایسے درشت مزاج لوگوں سے ہر کوئی دور رہنے کی کوشش کرتا ہے، کیوں کہ ایک آسان اور سیدھا سادھا معاملہ صرف ان کی طبیعت میں موجود شدت کی وجہ سے الجھاؤ اور پیچیدگی کا شکار ہوجاتا ہے،بعض مرتبہ خود ہمیں ایسی صورت حال سے دو چار ہونا پڑتا ہے، جس میں ہم جذبات سے مغلوب ہوکر ایسا پہلو اختیار کرلیتے ہیں، جو نتیجہ خیز اور کار گر نہیں ہوتا، بلکہ معاملے کو مزید گھمبیر بنادیتا ہے،قارئین محترم!اسلام دین فطرت ہے، یہ زندگی کے ہر ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے، اسلامی تعلیمات کا لازوال حسن ہے کہ اس کے ہر ہر حکم میں اعتدال و توسط کار فرماہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو نرم خوئی اور نرم مزاجی کی طرف جتنی اہمیت کے ساتھ متوجہ فرمایا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام سراپا رحمت ہی رحمت ہے، افسوس آج مغرب کے منہ زور پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر بہت سے مسلمان، اپنی تہذیب و ثقافت اور دینی اقدار و روایات کو نظر انداز کرچکے ہیں، شیطانی ذرائع ابلاغ پر پیش کی جانے والی دجالی تہذیب کو ترقی کا اعلیٰ ترین معیار خیال کرکے، خود احساس کمتری کا شکار ہیں، حضرت عبداللہ بن مغّفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ بہت مہربان ہیں اور مہربانی کو پسند کرتے ہیں اور (لوگوں کے ساتھ رافت والفت کا معاملہ کرنے پر) جو کچھ عطا فرماتے ہیں،وہ سختی اور تشدد پر نہیں دیتے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’بے شک! اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند فرماتے ہیں،پیارے نبی اکرم ؐ نے فرمایا کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے ترک تعلق رکھے دونوں باہم ملیں یہ اس منہ موڑے وہ اس سے منہ موڑے ، ان دونوں میں سے بہتر وہ شخص ہے جو (سلام) صلح میں پہل کر ے ۔ ایک شخص دعا مانگ رہا تھا اے خداوند کریم میرے پاس صدقہ و خیرات کے لئے کوئی مال نہیں ۔ بس یہ کہ جو مسلمان میری بے عزتی کرے میں نے اسے معاف کیا ۔ نبی اکرمﷺ پر وحی آئی ہم نے اس بندے کو بخش دیا ۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسکی پردہ پوشی کر ے گا۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد مبارک ہے جو آدمی نرمی اختیا ر کر نے سے محروم رہا وہ آدمی بھلائی سے محروم ہے۔ آج ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کو برا کہنے یا سمجھنے میں بالکل بھی کوئی دقیقہ فر و گزاشت نہیں کر تے ۔ اصل میں برائی کسی دوسرے شخص میں نہیں ہماری نظر اور سوچ میں ہوتی ہے۔ ہماری نفرت چاہے وہ سیاسی ہو ، ذاتی ہو یا کسی بھی مسئلہ پر مبنی ہو صرف اور صرف ہماری نظر اور سوچ کا فقدا ن ہے۔ جب کوئی شخص ہمارے ساتھ زیادتی کا مرتکب ہو تا ہے تو ہم اسے معاف کر نے کے بجائے اسکی ایک بھیانک تصویر معاشرے میں پیش کر تے ہیں ۔ اور خود کو غلطیوں سے پاک تصور کر تے ہیں ۔ اگر کوئی شخص غلطی کا مرتکب ہے اسے معاف کر کے ہم اپنا مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ جبکہ غلطی کے مرتکب شخص کو معاف نہ کر نا دونوں ایک تصویر کے دو رخ ہیں ۔ کسی کی برائی پر پردہ ڈالنا اسکی برائی کو بیان کر نے سے زیادہ آسان ہے۔ لیکن ہم ایسا کر نا نہیں چاہتے ۔ کیونکہ نفس اور شیطان کی چالوں سے ناآشنا ہم لکیر کے اس پار رہ کر وہی غلط کام یعنی (معاف نہ کر نا )کر رہے ہو تے ہیں ۔ جو لکیر کے اس پار رہ کر (غلطی یا زیادتی)کا مرتکب شخص کر تا ہے۔ اسلئے اچھے اور برے کا فرق مٹ جاتا ہے۔
بقول شاعر درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ اطاعت کے لئے کچھ کم نہ تھیں کروبیاں
غلطی یا زیادتی کامرتکب شخص زمین کی مانند ہے اور معاف کر نے والا مالی کی مانند ، چاہے زمین کتنی ہی زرخیز کیوں نہ ہو ۔ مالی اس میں پھلدار درخت نہ لگائے وقت پر پودوں کی آبیاری نہ کر ے ۔ ضرورت کے مطابق کانٹ چھانٹ نہ کر ے وہ درخت یا پودا نہیں لگتا۔ اور نہ ہی تنا ور ہو کر پھل لاتا ہے۔ کیونکہ اسکی کامیابی دیکھ بھال پر ہے۔ دیکھ بھال نہ ہو تو پھلدا ر درخت بھی خودوروں پودوں کی طرح حالات کے رحم و کرم پر ہوتا۔ چاہے اسے کوئی کاٹ ڈالے چاہے جانور چر جائیں ۔ یہی معاملہ غلطی یا زیادتی کرنے والے اور معاف کر نے والے کے درمیان بھی موجود ہے۔ غلطی یا زیادتی کر نے والوں کے آبیاری جب معاف کر نے والوں کے ہاتھوں ہوتی ہے وہ معاشرے میں اعلیٰ اوصاف اور اچھی روایات کے امین ثابت ہو تے ہیں ۔ اب ان سے امن ، سلامتی اور خیر کے چشمے پوٹھنے لگتے ہیں ۔ اور عالم انسانیت کے لئے سراپاخیر بن جاتے ہیں ۔
آء ستِ احترام آدمی
کس نمی شاہد مقام آدمی
قارئین کرام! زیادتی کے مرتکب شخص اور معاف کر نے والے کی مثال پنجرے اور اس میں بند طوطی کی سی ہے کہ سونے کے پنجرے میں بند طوطی کو وقت پر صحیح اور اچھی خوراک نہ دی جائے پانی نہ دیا جائے تو طوطی چند گھنٹوں میں بے جان ہو کر مردہ ہو جائے گی ۔اور اس کا تعلق پنجرے سے ختم ہو جائے گا۔ یعنی اس مردہ طوطی کو باہر نکال پھینکا جائے گا۔ بالکل اسی طرح غلطی کر نے والے کو جب معاف نہ کیا جائے اور اس کی بری تصویر معاشرے میں پیش کی جائے تو محبت ، امن ، بھائی چارہ ، انسانیت کی موت یقینی ہوجاتی ہے۔ جو جسم کی موت سے زیادہ خطر ناک ہے۔ کیونکہ جسم کی موت زیادہ سے زیادہ آدمی مر جاتا ہے۔ اگر روح زندہ ہو ایمان اور یقین کے ساتھ زندہ ہو تو جہنم کا ایندھن نہیں بنتا اگر روح کی موت واقع ہو کر مردہ ہو جائے اور ایمان اور یقین کی دولت سے خالی ہو تو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی نار جہنم کا ایندھن بن جاتی ہے۔ جو بہت اذیت ناک اور خطر ناک ہے۔ اور روح کی غذا حقوق اللہ اور حقوق العباد ہیں ۔ اور یہ حقوق پورے کر نے والا ہی اللہ کا ولی ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ خوف ہو گا اور نہ ہی غمگین ہو نگے ۔ اور بقول شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال!ؒ تیر ے دریا میں طوفان کیوں نہیں
خودی تیری مسلمان کیوں نہیں
بحثِ ہے شکوہِ تقدیر یزداں
توخود تقدیر یزداں کیوں نہیں ۔