قسط نمبر 1۔
رائٹر:عظمٰی صبا
وہ اپنی چھت پر پرندوں کو باجرہ ڈالنے میں مصروف تھی ۔ ۔ ۔صبح سویرے کا یہ وقت اورسورج کی کرنیں اسے اپنے چہرے پر محسوس ہونے لگی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ َنجانے کتنی صبحیں اس نے یوں ہی تنہا ان پرندوں کے ساتھ گزار دی تھیں، مگر پر سکون اور یہ لمحہ اس کی زندگی کا دلکش لمحہ تھا۔ ۔۔ ۔
ابھی وہ پرندوں کو باجرہ ڈالنے میں ہی مصروف تھی کہ اچانک اسے نیچے سے بولنے کی آوازیں محسوس ہوئیں۔ ۔ ۔ ۔
کہاں گئی ہے یہ نواب زادی؟ ثریا واویلا مچا رہی تھی۔ ۔
امی۔ ۔ ۔۔۔ امی۔۔۔۔۔۔ آہستہ بولیں۔۔صبا اسے آہستہ بولنے کا اشارۃََ کہہ رہی تھی۔
کیوں آہستہ بولوں میں آخر
سمجھ نہیں آتا مجھے یہ چھت پہ صبح صبح کیا کرنے نکل جاتی ہے آخر؟وہ بات کو غلط رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے بول رہی تھی۔۔
امی۔۔۔صبا پراٹھے بناتے ہوئےحد کرتی ہیں آپ بھی۔۔لائیں مجھے دیں۔۔۔انڈوں کا شاپر پکڑا
میں بنا لاتی ہوں۔۔۔!!اسکی آواز سنتے ہی وہ جلدی سےنیچےآئی۔۔!!لائیں۔۔
کروا دوں آپ کی۔۔۔ہیلپ میں کچھ
صبا کے قریب جاتے ہوئے اس سے آٹے کا برتن پکڑنے لگی ۔ ارے نہیں میں کر لوں گی مسکان!!مسکراتے ہوئے اسے منع کرنے لگی۔
نہیں۔۔۔۔ لائیں نا !!اس سے ضد کرتے ہوئےکہہ رہی تھی۔۔ایک تو تم
سنتی نہیں ہو کسی کی۔۔! صبا چائے کپ میں میں ڈالتے ہوئے مسکرا رہی تھی ۔۔
اچھا یہ لے جاؤ۔۔!(صبا چائے کا ٹرے تھماتے ہوئے)میں انڈے لے کر آئی۔۔
جی۔ٹرے لے کر باہر جاتے ہوئے مسکرا رہی تھی۔
بیٹی ۔۔ آج تو تمہارا رزلٹ آنا تھا نا !دادی اس کو آتا ہوا دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھ رہی تھیں۔جی مسکان چائے کا ٹرے میز پر رکھتے ہوئے سب کو ایک ایک کپ دینے لگی۔
بھئی۔۔۔ صبا۔۔ آواز لگاتے ہوئے ایک نظر مسکان کو دیکھ رہی تھی ۔پراٹھے ،انڈے لے بھی آؤ۔ ۔
جی ۔۔۔۔۔لائی۔۔۔۔۔کچن سے آواز لگاتے ہوئے جلدی سے باہر آئی۔۔
آپی کب آرہا ہے رزلٹ؟؟؟گڑیا اس سے جواب طلب کرتے ہوئے مسکرائی۔۔
پتہ نہیں۔۔۔!!پریشان ہوتے ہوئے بولی۔نیٹ پہ آیا ہو گا۔۔۔
نیٹ پہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چائے کا کپ منہ کو لگاتے ہوئے گڑیا سوچ میں پڑ گئی تھی۔
ہاں۔۔
تو پتہ کریں نا۔۔۔جلدی سے اس کو مشورد یتے ہوئےوہ بولی
ہاں
سرمد بھائی سے پوچھتی ہوں۔۔۔
ارے ۔ ۔
بیٹھو۔۔۔آرام سے ناشتہ تو کر لو۔۔دادا جی اسے روکتے ہوئےدوبارہ کہہ رہے تھے
مجھے پتہ ہے۔۔۔
میری پوتی نمبر ون ہی ہوگی۔۔اسے تسلی دیتے ہوئے اس کے بیٹھتے ہی سر پر ہاتھ پھیرنے لگے
واہ
بڑا پیار آرہا ہےدادا جی کو اپنی پوتی پرعابد صاحب ٹاول سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئے۔
ہاں انہوں نے قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے چائے کا کپ منہ کو لگایا۔۔۔
نمبر ون تو ہو گی ہی۔۔ناک سکیڑتے ہوئے ثریا منہ بسورنے لگی۔۔۔
آخر۔۔میں نے ہی اتنا خرچہ کیا اس کی پڑھائی پر۔۔۔احسان چڑھاتے ہوئے وہ یہ بات بڑےغرور میں کہہ رہی تھی
تم نے خرچا کیا؟
عابد صاحب پراٹھے کا نوالہ توڑتےتوڑتے وہ گئےاور باقی سب ان دونوں کی گفتگو سن کر حیران ہوگئے
ہاں اس میں ہے کوئی شک ؟۔
کیوں اماں ابا۔۔۔
آپ ہی بتائیں۔۔۔۔ دادا اور دادی سے داد وصول کرنے کی آس لگاتے ہوئے ان سے مخاطب ہوئی ۔
بس کرو ثریا ۔مسکان کے چہرے پر آئی مسکراہٹ کو غائب ہوتا دیکھ کر عابد صاحب ثریا کو چپ رہنے کا اشارہ کرنے لگے۔۔۔
ایک تو آپ۔۔۔۔
گڑیا کے ابا۔۔
ہمیشہ مجھے ہی غلط سمجھا ہے آپ نے۔۔۔شاطرانہ چال چلتے ہوئے جھوٹے آنسوؤں کا ڈرامہ کرنے لگی
اچھا۔۔۔بات ختم کرتے ہوئے
بس۔۔۔ بس۔۔۔۔۔پتہ ہے مجھے تمھارا۔۔
جاؤ۔۔مسکراتے ہوئے مسکان کی طرف دیکھتے ہوئےبولے
مسکان ۔۔ سرمد کو فون کر کے پوچھو رزلٹ کا۔۔۔
جی۔۔۔۔ایک نظر ابا اور باقی سب گھر والوں پر ڈالتے ہوئے زبردستی مسکراتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
جاری ہے