پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی خواتین پر جنسی و جسمانی اور ذہنی تشدد کے سنگین معاشرتی مرض میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے جس کی بناء پر چوبیس فروری 2016 کو پنجاب اسمبلی نے تحفظِ خواتین بل منظور کیا ہے ، جس کی بناء پرسوشل میڈیا پر پنجابی مردوں کے ساتھ طرح طرح کے مذاق کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ، اور کہیں تو مولانا فضل الرحمن انہیں ”زن مرید” کہہ رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ہمیں خادمِ اعلی کی توضیح بھی دے رہے کہ وہ توگھر کے ” خادمِ اعلی” ہیں،حالانکہ انہی مولانا موصوف سے اگر کسی سیاسی ڈیل کی صورت میں اسی بل پر فتوی مانگا جائے تو تھوڑے سے بھاؤ تاؤ کے بعد وہ اس کے جواز میں فتوی بھی مرحمت فرما دیں گے ۔ خیر اس قسم کا بل منظور کر کے پنجاب اسمبلی نے تو واقعی” زن مرید” ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان نہیں بلکہ کسی مغزبی ملک کی نام نہاد لبرل اسمبلی ہونے کا ثبوت دیا ہے اور ضعف کا شکار ہونے والے اسلامی معاشرے کو تقویت دینے کی بجائے اس کے حسنِ معاشرت پر ایک کاری ضرب لگانے کی کوشش کی ہے ،یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب قائد سے پاکستان کے دستور کے حوالے سے سوال کیا گیا تو قائدنے فرمایا تھا کہ کہ پاکستان کا دستور اسلامی ہوگا،اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن وسنہ سے صریحی متصادم قانون کی منظوری قائد کے نظریے کی صریحی مخالفت ہے لیکن پنجاب اسمبلی نے تو اپنے مغربی آقاؤں اور ان مغربی آقاؤں کی فنڈڈ نام نہاد این ۔ جی۔ اوز کو خوش کرنے کی سعی میں کسی حد تک کامیاب ہوجائے گی ۔ جیسا کہ ابتدائی رد عمل کے طور پرہمارے شتر بے مہارلوکل میڈیا اور انٹرنیشنل میڈیا نے اسے خوب سراہا ہے ۔ یہی پنجاب اسمبلی کی منشا بھی ہے ۔
نواز شریف اور نون لیگ جو کل تک امیر المومنین بننے خواب دیکھ رہے تھے اب یکایک نجانے یہ کس نام نہاد ماڈرن اور لبرل معاشرے کی غلیظ لعنت کے پیچھے چل پڑے ہیں اور اپنے معاشرے کے مسائل کا حل امریکہ و یورپ کے نافذ کردہ قوانین میں ڈھونڈنے لگ گئے ہیں، حالانکہ ہمارے معاشرتی مسائل امریکہ ، یورپ و مغرب سے یکسر مختلف ہیں، اگر یہ امریکہ و یورپ کی اندھی تقلید کو چھوڑ کر چند لمحوں کے مسلمان ہونے کی بنا پر اللہ پاک کے نظام سے جو کہ اپنے ماننے والوں کے لیے مکمل ضابطہ ء
ِ حیات ہے تھوڑی سی کوشش فرما لیتے تو انہیں اتنی لمبی چوڑی تکلیف نہ کرنی پڑتی بلکہ زوجین کے باہمی مسائل کابہترین حل مل جاتااور اس نظام کی قبولیت کا حقیقی عنصر بھی ہمارے خون میں تحلیل ہے ۔ جیسا کہ سورۃ نساء
کی آیت نمبر 19 میں اپنے اہل و عیال اور عورتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ”عورتوں کے ساتھ اچھے طریقہ سے برتاؤ کرو!”
اوراللہ پاک نے ہی مرد وزن کو پیدا فرمایا ہے اور اگر وہی ان کے مابین باہمی معاملات کا فیصلہ بھی فرما رہا ہو تو ہمیں پھر خالق کے بنائے ہوئے واضح قوانین کو چھوڑ مہمل و کم ظرف مادیت پرستوں کے بنائے ہوئے قوانین کی طرف ملتفت نہیں ہونا چاہیے اور کتاب اللہ زوجین کے باہمی مسائل کے حوالے سے تفصیلی احکامات مذکور ہیں ۔
سورہ النساء
کی آیت نمبر 34 اور 35 میں مذکور ہے ۔”
”نیک عورتیں تابعدار ہوتی ہیں کہ مردوں کی غیر موجودگی میں اللہ کی مدد سے (ان کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں، اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا خطرہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور بستر میں انہیں جدا کر دو اور مارو، پھر اگر تمہارا کہا مان جائیں تو ان پر الزام لگانے کے لیے بہانے مت تلاش کرو، بے شک اللہ سب سے اوپر بڑا ہے ۔ور اگر تمہیں کہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا خطرہ ہو تو ایک منصف شخص کو مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف شخص کو عورت کے خاندان میں سے مقرر کرو، اگر یہ دونوں صلح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان دونوں میں موافقت کر دے گا، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے ۔”
سورۃ نساء
کی مزکورہ آیات میں زوجین کے مسائل کا مفصل حل موجودہے اس حل کی پانچ شقیں بنتی ہیں ، شقیں بیان کرنے سے پہلے اللہ رب العزت نے فرمایا کہ نیک عورتیں تو مردوں کی تابعدار ہوتی ہوتیں اور مردوں کی غیر موجودگی میں ان کے مال، عزت ، اور آبرو کی حفاظت کرتی ہیں،اور اگر عورت اس کے برعکس عائلی معاملات کرتی ہے اور زوجین میں اختلافات ہوتے ہیں تو ایسے انتہائی خوبصورت فیصلہ فرمایا ہے ۔
عورت کو سمجھایا جائے ۔
اگر سمجھانے سے عائلی معاملات حل نہ ہوتو
ان سے اپنے بستر کو جدا کر لو۔ اور اگر بستر جدا کرنے سے بھی معاملات کا حل نہ ہوتو
انہیں مارو
اگر ان تین عوامل کے بعد بھی عائلی مسائل کا حل نہیں نکل تو پاتا تو اس سے اگلی آیت میں اس کے بعد کا لائحہ عمل لکھا گیا ہے کہ
مرد اور عورت کی طرف سے ایک ایک منصف آئے باہمی مشاورت سے زوجین کے باہمی معاملات طے کرنے میں مدد فراہم کرے ۔ اس مفصل لائحہ عمل کے باوجود اگر زوجین کے باہمی معاملات طے نہیں پاتے تو ان کے پاس آخری حل علیحدگی ہے ، چاہے تو عورت خلع لے لے یا مرد اسے طلاق دے دے ۔
اس ضمن نبی اکرمﷺ
فرمان ہے کہ آپ نے سیدنا ابو ہریرہ کو فرمایا کہ میں تمہیں عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتاہوں کہ عورت انسان کی پسلی سے پیدا کی گئی ہے یہ بالکل سیدھی نہ ہوگی اگر تم نے اس کے ساتھ معاملات کرنے ہیں تو یوں کے توں ہی کرنے ہیں اگر سیدھی کرنے کی کوشش کرو گے تو تم اسے توڑ دو گے ،اور دوسری جگہ فرمایاﷺ
”تم میں بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے لئے سب سے اچھا ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے لئے تم سب سے اچھا ہوں” الحدیث
اب کو ئی سیانا بندہ یہ سمجھا دے بس کہ امریکہ و مغرب کی اندھی تقلید بہتر ہے یا پھر ہم قرآن و سنہ سے اپنے باہمی معاملات کا حل تلاش کریں پتہ نہیں امیر المومنین کا خواب دیکھنے والے اب اس معاشرے کی تقلید کو کیوں ترجیح دیتے ہیں جہاں خواتین پر سب سے زیا دہ جنسی ،ذہنی اور جسمانی تشدد کیا جاتا ہے ۔ پاکستان میں تشدد کے واقعات عموما کم تعلیم یافتہ طبقے اور دور دراز گاؤں میں ہوتے ہیں جہاں کی قانون کی گرفت انتہائی کمزور ہے ، اس کے بر عکس شہروں میں اور پڑھی لکھی خواتین کے حوالے سے تو ان کے مردوں کی شکایات ہوتی ہیں کہ وہ مردوں کو کسی نہ کسی طریق سے ذہنی تشدد کانشانہ بنا رہی ہوتی ہیں،
یہاں یہ امر انتہائی قابل غور ہے کہ یہ عورتوں کے مسائل کا حل دیا گیا ہے یا بے دینی کے پھیلاؤ ساتھ ساتھ عورتوں کے مسائل کو مزید الجھایا گیا ہے ۔ کیونکہ اس مردانہ کلچر میں قانون کے احترام کا پہلے بھی جو حال ہے وہ کسی سے کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے ہاں البتہ یہ قوانین بنا کر اسلامی اقدار اور رہی سہی اسلامی طرزِ معاشرت کو بھی تباہ کرنے کی ایک مذموم کوشش کی گئی ہے ۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ شرعی قوانین کا معاشرے میں نفاذ کا لائحہ عمل طے کیا جاتا اور عورتوں کو ان تمام حقوق سے آگہی دی جاتی اور اسلامی کے معاشرتی حسن کو تقویت دینے کے لیے ہم آہنگ قانون لائے جاتے تاکہ معاشرے کی بھلائی کے ساتھ خواتین کے مسائل کا عملی حل بھی نکلتا اورنایاب ہوتی ہوئی اسلامی اقدار کو ایک مضبوط معاشرتی بنیاد بھی فراہم ہوتی جس کی بنیاد بھی کہیں نہ کہیں ہمارے معاشرے میں موجود ہے اور اسکی قبولیت بھی اس نام نہاد مغربی لبرل نظام سے کہیں زیادہ ہے ۔اور ہمیں یہ مضحکہ خیز قوانین بنانے کی شاید ضرورت پیش نہ آتی کہ مرد کو اپنے ہی گھر سے بے دخل کر دیا جائے ، اور گلوبل پوزیشنگ سیٹلائٹ کی مدد سے اس کی جاسوسی کی جائے ،اس کی پاداش میں اسے شخصی آزادی اور ذاتی تحفظ جیسے بنیادی حقوق کو پامال کر دیا جائے اور اس کے گھر کی باتوں کو سربازار نشرکیا جائے ۔