آپ نے عاشق کی بارات دیکھی؟۔ وہ گیت سُنے جو اللہ اکبر، اللہ اکبر کی مدھرتانوں سے فضاؤں کو معطرکر رہے تھے؟۔آپ نے لاکھوں انسانوں کی وہ پُکارسُنی جوکلمۂ شہادت کی صورت میںآسمانوں کی وسعتوں کو چِیرتی ہوئی اَوجِ ثریاتک پہنچ رہی تھی؟۔ آپ نے رکاوٹیں تو بہت کھڑی کیں اورزور بھی بہت مارالیکن ممتازتو پھربھی سب سے ممتازہی رہا کہ وہ سَچّا اورسُچّا عاشق تھااور عاشق کاجنازہ تو دھوم سے نکلناہی تھا۔پتہ نہیں لاکھوں لوگ کہاں سے نکل آئے کہ تاحدِّ نظرسَر ہی سَر ،بے خوف خطر ۔بات جب دینِ مبیں کی ہوتوپھرکِس بات کاخوف اورکاہے کاڈَر۔یہ تھااُس عاشقِ رسولﷺ کا جنازہ جس نے یہ ثابت کردیاکہ عشقِ رسولﷺ کی شمع اب بھی ہردِل ،ہرگھر اورہر دَرپہ روشن ہے اورحکمران چاہے کتنے بھی لبرل ہوجائیں وہ حبِّ محمدﷺ کودِلوں سے مٹانہیں سکتے ۔
فیڈرل شریعت کورٹ نے تو30 اکتوبر 1990ء کوہی فیصلہ دے دیاتھا کہ رسول اللہﷺ کی شان میں گستاخی کی سزاموت ہوگی اورکسی کوبھی اِس سزامیں کمی بیشی کااختیار نہیں ہوگا ۔سپریم کورٹ نے بھی شریعت کورٹ کاہی فیصلہ بحال رکھا۔ پھرکیا پنجاب کے گورنرکو توہینِ رسالت کے قانون پرنشترزنی کاحق تھا؟۔جب قانون کے محافظ ہی قانون پرنشتر زنی کرنے لگیں اورقانون بھی وہ جس کابراہِ راست تعلق میرے آقاﷺ کی ذاتِ گرامی سے ہوتو پھرایسا انجام اظہرمِن الشمس ۔سلیمان تاثیر کامقدمہ اب ربِّ لَم یَزل کی عدالت میں اورتحقیق کہ اُس سے بہترفیصلہ کوئی نہیں کر سکتا، سوال مگریہ ہے کہ کیاسلیمان تاثیرنے توہینِ رسالت کے قانون پرغیر محتاط تبصرے کرکے عاشقانِ رسولﷺ کے دلوں کو زخمی نہیں کیا؟۔ سوال یہ بھی ہے کہ ہماراآئین ،ہماراقانون، ہمارے حکمران اورہماری عدالتیں اُس وقت کہاں سوئی ہوئی تھیں جب سلیمان تاثیرسرِعام غیرمحتاط تبصرے کررہے تھے۔ حیرت ہے کہ کسی کواُس وقت ازخود نوٹس لینے کابھی خیال نہ آیا۔ پھروہ اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں قتل ہوگیا کہ محافظ جذبات کے بھڑکتے الاؤ پر قابونہ پاسکا۔
ممتازقادری نے قانون کوہاتھ میں لیا جس کی دینِ مبیں بھی ہَرگز اجازت نہیں دیتا ۔یہ کام توحکمرانوں کا تھاجِسے انجام دیاممتازقادری نے ۔مقدمہ چلا، سزائے موت ہوئی اورپھرعاشقِ رسولﷺ کوتختۂ دارپہ لٹکادیا گیا ۔اُس کی روح تویقیناََ حکمرانوں کہ شکرگزار ہوگی کہ مومن کاتو مطلوب ومقصودہی شہادت ہوتاہے ۔ممتازقادری کاجسدِخاکی دیکھتے ہوئے نہ جانے کیوں مجھے فیض احمدفیض کایہ شعربار باریاد آرہاتھا کہ
کرو کَج جبیں سے سرِ کفن ، میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن ، پسِ مَرگ ہم نے بھلا دیا
اگرمیرے بَس میں ہوتو مَیں شہیدکی لَوحِ مزارپہ یہ ضرور کندہ کروادوں کہ
جس دَھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اِس جان کی کوئی بات نہیں
حکمرانوں سے سوال ہے کہ ممتازقادری نے سلیمان تاثیرکو قتل کیااوراُسے پاکستانی قانون کے مطابق اپنے کیے کی سزابھی مِل گئی لیکن کِس خوف کے تحت اُس کی پھانسی کواتنا خفیہ رکھاگیا؟۔ صدآفرین پیمراپر کہ اُس نے پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیاپر اپنے احکامات کی دھاک بٹھادی اورمیڈیا خاموش ’’ٹُک ٹُک دیدم ،دَم نہ کشیدم‘‘ کی عملی تصویربنا رہا ۔پیمراکے احکامات پرسختی سے عمل درآمدنے یہ سوال اُٹھا دیاکہ اگرپیمرا اتناہی طاقتورہے توپھرالیکٹرانک میڈیاپر دکھائی جانے والی لَچرفلموں اوربیہودہ ڈراموں کو بندکیوں نہیں کروا سکتا؟۔ پھرمزاح کے نام پردکھائے جانے والے شوزمیں پھکڑپَن اورذومعنی جملے بندکیوں نہیں ہوتے؟۔ پھراخلاق باختہ گانوں پر پابندی کیوں نہیں لگتی؟۔ کہیںیہ اُس ’’لبرل پاکستان‘‘ کاشاخسانہ تونہیں جس کانعرہ ہمارے وزیرِاعظم صاحب نے صرف اُن طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے لگایا جوکبھی پاکستان کی دوست تھیں ،ہیں اورنہ کبھی ہوں گی ۔اُنہوں نے ’’ہولی‘‘ کے رنگوں میں رنگے جانے کی خواہش کااظہار کرکے اورپاکستان کی بقا و ترقی کولبرل ازم سے منسوب کرکے کسی اورکا نہیں، اپناہی نقصان کیا۔ اُن کے چاہنے والے پریشان کم اورحیران زیادہ ہوئے ۔وہ تویہ سمجھ بیٹھے تھے کہ پاکستان کی مٹی سے محبت کرنے والے میاں صاحب مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی بناپر دینِ مبیں سے محبت کرنے والوں کی غالب اکثریت اُنہیں اپنے ووٹوں سے نوازتی تھی ۔اب اگرکوئی اُن سے یہ کہہ دے کہ میاں صاحب تو’’اسلامی پاکستان‘‘کی بجائے ’’لبرل پاکستان‘‘ کے داعی ہیں تواُن کے پاس کیاجواب ہوگا۔ میاں صاحب نے اپنے آپ کولبرل ثابت کرنے کے لیے شرمین عبیدکو وزیرِاعظم ہاؤس میں دعوت دی ،اُس کی ’’دی گرل اِن دی ریور‘‘ دیکھی اورتحسین کے کلمات اداکیے ۔اُن کے میڈیاسیل نے اُن کوبتاہی دیاہوگا کہ اِس آسکرایوارڈ پرشرمین عبید کے خلاف کتنے کالم لکھے جارہے ہیں ۔توکیاہم دست بستہ یہ عرض کرنے کی جسارت کرسکتے ہیں
کم ہوں گے اِس بساط پر اُن جیسے بَد قمار
جو چال بھی چلے وہ نہایت بُری چلے
’’لبرل ازم‘‘ کے حامیوں کی منافقت پربھی حیرت ،صرف حیرت ۔یہ ’’کھُلے ڈُلے‘‘ لوگ توسزائے موت کے خلاف تلواریں سَونت کرمیدان میں نکلے ہوئے تھے ،پھرممتازقادری کی پھانسی کی حمایت کیوں؟۔ مغرب زدہ NGO’s بھی سزائے موت کے خلاف ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کرنعرے لگاتی اوراحتجاج کرتی رہتی ہیں۔وہ ممتازقادری کی پھانسی پرخوش کیوں؟۔ہم نے توممتازقادری کی پھانسی کوقبول کرلیاکہ قانون کاتقاضہ یہی تھااوردینِ مبیں کا حکم بھی یہی ۔چشمِ فلک نے دیکھاکہ جنازے میں لاکھوں لوگوں کی شرکت کے باوجودایک پتہ تک نہ ٹوٹا البتہ لبرل اورسیکولر لوگوں کی منافقت کھُل کرسامنے آگئی اوراُن کادوہرامعیار بھی سب پرعیاں ہوگیا ۔
حرفِ آخریہ کہ ہمیں اب بھی حکمرانوں سے ہمدردی ہے اورہمارا حسنِ ظن بھی یہی کہ وہ ملک کی تقدیربدل سکتے ہیں اِس لیے ہم تویہی عرض کریں گے کہ ’’ابھی وقت ہے ، سنبھل جاؤ‘‘۔کہیں ایسانہ ہوکہ (خُدانخواستہ) 1999ء کازمانہ لوٹ آئے ۔