قسط نمبر9
رائٹر ۔۔۔ عظمی صبا
سوری ۔۔۔مس مسکان۔۔۔!!
سوری کہ میں نے اتنے غصہ میں آپ سے بات کی۔۔۔!مسکان کے اس کے کمرے میں آتے ہی جواد نے شرمندگی سے اٹھ کھڑا ہوا اور معذرت کرنے لگا۔
اٹس او کے ۔۔۔!وہ بات کو جلد ی سے ختم کرتے ہوئے وہاں سے جانے لگی۔۔۔!
بیٹھیئے ۔۔!!مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے آپ سے۔۔۔!اس کو آواز لگاتے ہوئے وہ تیزی سے بولا۔
جی۔۔۔۔!
میں ٹھیک ہوں یہاں۔۔۔۔
آپ کہیئے۔۔۔!وہ وہیں کھڑی رہی۔
اس کا مطلب ہے ۔۔۔آپ نے مجھے معاف نہیں کیا۔۔۔!وہ اس پر گہری نظر ڈالتے ہوئے کہنے لگا۔
نہیں۔۔!!
ایسی بات نہیں ہے۔۔!!مسکان بمشکل مسکراپائی تھی۔
٭٭٭
آپی ۔۔!!اس کو گہری سوچوں میں دوبا دیکھ کر گڑیا اس کو پکارنے لگی۔۔۔!!
آپی ۔۔۔۔۔۔!!اس کا جواب نا پا کر وہ دوبارہ پکارنے لگی۔
آپی۔۔۔۔۔۔!!اس کو ہاتھ لگا کر ہلانے لگی۔
ہاں۔۔۔!
ہاں۔۔۔۔!!وہ اپنی سوچوں سے آزاد ہوئی۔
کیا ہوا؟؟؟؟
کہاں گم ہیں آپ؟؟؟اس سے جواب طلب کرتے ہوئے
کچھ نہیں۔۔۔۔!!!
بس آج تھک بہت گئی ہوں۔۔۔!!تھکن کا اظہار کرتے ہوئے اس نے انگڑائی لی۔
اچھا۔۔۔۔
چائے پئیں گی؟؟؟پیشکش کرتے ہوئے وہ مسکرائی ۔
نہیں!کافی بنا لاؤ۔۔!بالوں کو باندھتے ہوئے منہ پر ہاتھ پھیرنے لگی۔
اچھا۔۔۔!!
ابھی لائی۔۔۔۔!مسکراتے ہوئے گڑیا وہاں سے چلی گئی۔
مسکان۔۔۔۔ثریا اس کے کمرے میں آتے ہی اس سے مخاطب ہوئی۔
امی۔۔۔۔!مسکراتے ہوئے وہ بولی۔
آپ۔۔۔۔!آئیے ۔۔۔!بیڈ پر پاؤں سمیٹ کر بیٹھتے ہوئے اس نے اسے بیٹھنے کے لئے جگہ دی۔
کیسی ہو میری بچی۔۔۔!!وہ مکروفریب سے میٹھا لہجہ استعمال کرتے ہوئے پوچھنے لگیں۔
جی۔۔۔ٹھیک ہوں۔۔۔!وہ اس کی میٹھی گفتگو کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئےاسے بغور دیکھ رہی تھی۔
وہ ۔۔۔۔مجھے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی میری بچی۔۔
جی۔۔۔!!امی۔۔۔۔!!!
کتنے پیسے؟؟؟وہ جواباَََ پوچھنے لگی۔۔
کچھ زیادہ نہیں۔۔
یہی کوئی دس ہزار۔۔۔!!وہ سنجیدہ ہو کر بات کو عام سمجھ رہی تھی۔
دس ہزار ۔۔۔!!حیران ہوئی
ہاں!!
اصل میں صبا کے سسرال والے دن مقرر کرنے آرہے ہیں۔۔۔
اب کپڑے دینے اور باقی دوسرے کاموں میں تو پتہ ہی نہیں لگنا پیسے کہاں گئے۔۔
پیسے بھلا کب کچھ بناتے ہیں۔۔۔!!وہ خود کو مجبور پیش کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔۔
جی۔۔۔!!مگر امی۔۔ابھی تو نہیں ۔۔۔وہ معذرتانہ لہجہ مہں کہنے لگی۔
دس دن تک سیلری آئے گی پھر۔۔۔!
ارے۔۔۔!بی بی۔۔۔۔!
تم سیدھا اور صاف صآف کہو کہ تم دینا ہی نہیں چاہتی ۔۔۔!!اس کی بات کاٹتے ہوئے وہ ذرا تلخ لہجےمیں بولی۔
امی۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔!ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔!!
پہلی سیلرے ساری آپ کو ہی دے دی تھی۔۔۔!!
اب دس ہزار تو نہیں ہیں صرف دو ہزار ہی ہیں گاڑی کے کرائے کے لئے ۔۔۔
کہتی ہیں تو یہ دے دوں؟؟؟وہ بیگ میں سے روپے نکالتے ہوئے اسے پکڑانے لگی۔
رکھو تم یہ پاس۔۔۔۔!!
میری غلطی جو تم سے کہنے کے لئے آگئی ۔۔۔وہ خود کو مجبور پیش کرتے ہوئے غصہ سے کہہ کر اس کے پاس سے اٹھ کھڑی ہوئی ،جبکہ مسکان کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگے تھے۔۔۔۔!
یہ لیجیئے گرما گر م کافی۔۔۔!ٹرے لے کر آتے ہوئے گڑیا مسکرا رہی تھی۔
کیا کہہ رہی تھیں امی۔۔۔!مسکان سے پوچھتے ہوئے اس نے اسے کپ پکڑیا ۔
کچھ نہیں۔۔۔!!!کافی کا کپ پکڑتے ہوئے وہ بمشکل مسکرائی ۔
ام م م ۔۔۔
تو اتنی سنجیدہ کیوں ہیں آپ؟؟؟؟
کچھ تو کہا ہے انہوں نے جو آپ بتا نہیں رہیں۔وہ اس کی سنجیدگی کو جانچ کر سوال کرنے لگی۔۔۔!!
کچھ نہیں گڑیا۔۔۔!وہ زچ ہو کر بولی اور گڑیا اس کا لہجہ دیکھ کر خاموش سی ہو گئی ۔
خیر۔۔۔!!خود کو نا رمل کرتے ہوئے مسکان نے مسکرانے کی کوشش کی۔
کافی بہت مزے کی بنائی ہے تم نے ۔۔بات کو بدلے ہوئے اس کی تعریف کرنے لگی ،جس سے گڑیا قدرے دل سے مسکرائی ۔
شکریہ۔۔۔۔شکریہ۔۔۔۔گہری مسکراہٹ لئے وہ خوش ہوئی۔
٭٭٭
ارمان بھائی۔۔۔!!!شاہ میر نے اس کو سیڑھیوں سے اوپر جاتا دیکھ کر آواز لگائی۔
ہاں!!!وہ مڑتے ہوئے مسکرایا۔
کیا بات ہے؟؟؟؟
بھائی۔۔۔۔!!
وہ۔۔۔ہچکچاتے ہوئے شاہ میر رک رک ک بولنے لگا۔۔۔
اوہ۔۔!ہو۔۔۔!!
خیر تو ہے نا؟پریشان ہوکر اس نے پوچھا۔
جی۔۔۔۔!
وہ اصل میں آپ کی گاڑی کا ٹائر پنکچر کر دیا۔۔۔۔!!وہ ذرا ڈرتے ڈرتے اور ذرا دھیما سا مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
ٹائر پنکچر ؟؟؟؟؟؟؟؟؟حیران ہوتے ہوئے وہ یکدم چونکا۔
ابھی میں خود ڈرائیو کر کے ہی آیا ہوں۔۔۔!!
یہ 5 منٹ میں۔۔۔۔!وہ بات کی وجہ جاننے کے لئے وضاحت دینے لگا۔۔۔
5 منٹ میں تو کیا 5 سیکنڈ میں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔حیا قہقہہ لگا تے ہوئے ہنستے ہوئے کوریڈور میں داخل ہوئی ۔
ارمان نےایک نظر شاہ میر کی طرف ڈال کر حیا کی طرف دیکھا جو زور زور سے ہنس رہی تھی۔۔
مطلب؟؟؟ وہ جواب لینے کی غرض سے پوچھ رہا تھا۔
مطلب یہ کہ ۔۔۔۔!!!ہنس ہنس کر بات مشکل سے کر رہی تھی۔۔۔
رات کو۔۔۔۔!!
اچھا۔۔۔۔!!حیا کی بات کاٹتے ہوئے ارمان ان دونوں کی شرارت کو سمجھنے کے بعد ان دونوں سے مخاطب ہوا۔
اب سمجھا۔۔۔
یہ تم دونوں کی حرکت ہے۔۔۔
رات کو ٹریٹ نہیں دی تو یہ۔۔۔۔۔!!!
تم لوگوں نے بدلا پورا کیا؟؟؟وہ خفگی سے بول رہا تھا۔
جی۔۔۔۔بالکل۔۔۔۔
اب آپ کو منہ لٹکانے کی ضرورت نہیں۔۔۔!!حیا منہ چڑھاتے ہوئے اس سے کہنے لگی۔۔۔
حیا کی بچی۔۔۔۔!
آج میں ضرور دیتا ٹریٹ ۔۔۔۔!!
مگر اب تو بالکل بھی نہیں ۔۔۔!وہ ان دونوں کو ڈانٹ رہا تھا۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔۔!
اب آفس ۔۔۔بس میں جائیے ارمان حسن ۔۔۔حسن انٹرپرائز کے لخت جگر۔۔۔۔شاہ میر قہقہہ لگا کر ہنسا اور حیا نے بھی اس کا بھر پور ساتھ دیا۔
چھوڑوں گا نہیں تم دونوں کو۔۔۔۔وہ زچ ہو کر بولا۔
تو کون کہہ رہا ہے چھوڑیں ۔۔۔۔حیا ہنستے ہوئے اس سے کہنے لگی۔۔۔!
کر دیں گے ۔۔۔ اینی وے ۔۔۔ہم آپ کو ڈراپ
اگر آپ۔۔۔!وہ شرطیہ گفتگو کررہی تھی۔۔
کیا؟؟؟؟وہ “اگر” کہنے کی وجہ جاننے لگا۔۔۔
۔۔۔simple
آج بیچ پر بھی لے کر جانا ہو گا اور ہوٹل بھی۔۔۔!!
شاہ میر اس کی بات کا جواب دینے لگا۔۔۔
کمینے ہو تم لوگ۔۔۔!!
اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔!!
میں لیپ ٹاپ لے کر آتا ہوں۔۔۔!وہ فوراَََسے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے مسکرانے لگا۔۔۔
ویسے ۔۔۔۔
تم لوگ خود بھی جا سکتے تھے۔۔۔۔
بیچ اور ہوٹل ۔۔۔۔۔وہ لیپ ٹاپ لے کر نیچے اترتے ہوئے ان دونوں سے کہہ رہا تھا۔۔۔۔!!
ہاں۔۔۔شاہ میر ارمان کی طرف دیکھنے کے بعد حیا کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
مگر مفت میں جانے کا مزہ ہی اور ہے۔۔۔!!دونوں ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے ہاتھ پر یاتھ مارتے ہوئے باہر گیراج کی طرف جانے لگے ۔۔ارمان ان دونوں کی ملی بھگت پر مسکرائے جا رہا تھا۔
٭٭٭
دادی !آپ؟؟؟؟ وہ دادی کو چارپائی پر بیٹھا دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھی۔گھر کے اندر داخل ہوتے ہی فوراَََ بیگ اتارتے ہوئے مسکان ان کے گلے جا لگی۔
آپ کب آئیں؟؟کیسی ہیں آپ؟
دادا جان کہاں ہیں؟؟؟
کیسا ہے میرا لاہور؟؟؟وہ بہت پرجوش ہوتے ہوئے ان سے سوال پر سوال کرنے لگی۔۔۔
سب ٹھیک ہے میری بچی۔۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔۔۔
سانس تو لے لو۔۔۔!!وہ ہنستے ہوئے اس سے کہنے لگیں۔
جی۔۔۔!!
بہت یاد کیا میں نے آپ کو۔۔۔!
سچی مجھے تو آپ میں سے اپنے لاہور کی خوشبو محسوس ہورہی ہے۔۔۔۔
وہ مسکراتے ہوئے ان کے پاس بیٹھ کر خوشبو محسوس کرنے لگی۔۔۔!!
بس یہی محسوس کرنا۔۔۔!!!
ہماری ضروریات کا تو احساس ہی نہیں۔۔۔!وہ منہ بسورتے ہوئے اس کو خوش ہوتا دیکھ کر طنز کرے لگیں۔
ثریا ۔۔۔!!دادی نے اسے ٹوکا ۔
ہاں!اماں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔۔۔!سبزیاں لے کر چارپائی پر بیٹھ کر کاٹنے لگی۔
امی۔۔!!کیسی باتیں کررہی ہیں آپ۔۔۔؟؟؟مسکان کی مسکراہٹ اور خوشی غائب سی ہو گئی تھی۔
یہ لیجیئے ۔۔۔!!! روپے بیگ میں سے نکالتے ہوئے
بس۔۔۔دیکھا ۔۔۔۔!!مجھے پتہ تھا۔۔۔
تمہارے پاس پیسے ہیں۔۔۔!!
یہ الگ بات ہے کہ تم دینا نہیں چاہو۔۔۔!!طنز کرتے ہوئے اس نے پیسے پکڑے
ارے ثریا ۔۔۔۔
ایسی بات ہوتی تو وہ دیتی کیوں ؟؟؟؟دادی مٹر چھیلتے ہوئے اس کی اس کے کام میں مدد کروا رہیں تھیں۔
بس۔۔۔آپ کو نہیں پتہ میں جانتی ہوں اچھے سے اسے۔۔۔۔
آپ کے سامنے نمبر بنانے کے لئے ا بھی پیسے دے رہی ہے۔۔۔۔طنزیہ کہنے لگی،،جبکہ مسکان کی آنکھوں میں آنسو بہنے لگے اور ہونٹوں پر ایک چپ سی طاری ہو گئی تھی۔
اب یہاں بیٹھے بیٹھے کیا کرنا ہے؟؟؟
جا کر چاول بنا لو۔۔۔!!!س کو وہاں خاموش بیٹھا دیکھ کر خود ہی اسے آرڈر دینے لگی۔۔۔
جی۔۔۔۔!!وہ یکدم اٹھ کھڑی ہوئی ، جبکہ دادی بیچارگی سے اسے دیکھتے ہی رہ گئیں۔۔۔۔جبکہ مسکان وہاں سے جا چکی تھی۔
کیوں تم اسے ایسےطعنے دیتی ہو آخر؟؟؟دادی اسے سمجھانے لگیں۔۔۔
اماں۔۔
آپ تو چپ ہی رہیے۔۔۔اماں سے کاٹ کھانے کو بات کرتے ہوئے اس نے انہیں خاموش کروا دیا۔
٭٭٭٭
یہ زندگی ایسی کیوں ہے آخر؟؟؟اورا س دنیا کے لوگ بھی؟؟
جس کا جتنا کرو وہی بد گمان اور بد ظن ہو جاتا ہے۔۔۔
آخر کیوں؟؟؟
میں نے دادی کے سامنے پیسے نمبر بنانے کے لیے تو بالکل بھی نہیں تھے دئیے ۔۔۔پھر امی کو ایسا کیوں لگتا ہے؟؟؟وہ پیازوں میں گھی ڈالتے ہوئے انہیں بھون رہی تھی۔
میں جانتی ہوں کہ کیسے میں نے ارینج کیے پیسے ۔۔۔
جس انسان کے لئے ۔۔۔
اس انسان سے نجانے کیوں مجھے خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔۔۔
لیکن مجھے جلد از جلد ہی پیسے واپس کرنے ہوں گے۔۔
جواد سر کا غصہ اور اس دن کا رویہ اور اب کا رویہ ۔۔۔۔
اتنا بدلاؤ۔۔۔بہت عجیب ہے۔۔۔
امی نے اگر نہ کہا ہوتا تو میں کبھی بھی ۔۔۔۔۔۔!!!وہ اپنی سوچوں میں اتنا مگن تھی کہ اسے اندازہ نہ ہوا کہ پیاز جلنا شروع ہو گئے ہیں۔
آپی ۔۔۔۔آپی۔۔۔گڑیا نے فوراَََ سے کچن میں آتے ہوئے ایک نظر پیازوں کو دیکھا اور دوسری نظر مسکان کو جو اپنی ہی سوچوں میں بہت مگن تھی۔۔۔فوراََ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے ہنڈیا میں ڈالتے ہوئےاسے ہللانے لگی۔ہنڈیا میں سے اٹھنے والی “شوں” کی آواز سے مسکان فوراَََچونکی۔ اور جلدی سے اس نے اپنا دھیان ہنڈیا کی طرف کیا۔
آپی۔۔۔!!کیا ہو گیا ہے۔۔۔؟؟؟ کہاں گم ہیں؟؟؟گڑیا اس سے پوچھتے ہوئے بولی۔
کچھ نہیں۔۔۔ بس ذرامیں درد ہے۔۔۔!!!تھکن کا اظہار کرتے ہوئے وہ بے زاری سے بولی
ام م م م۔۔۔
جائیے !!آپ ذرا فریش ہو آئیے ۔۔۔!
میں دم لگا لیتی ہوں۔۔۔!!وہ اسے پیشکش کرتے ہوئے مسکرائی۔۔۔۔جبکہ مسکان وہی کھڑی رہی ۔
اب۔۔۔۔ جائیے نا!!! اب کی بار زور دیتے ہوئے اس نے کہا۔
٭٭٭
پریزنٹیشن کی تیاری کرنے کے بعد مسکان اسے تھکی تھکی محسوس ہوئی ۔۔۔
انشراح اپنا کام کرتے ہوئے بار بار اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔دونوں کاآفس ایک ہی تھا۔۔۔
۔۔۔!! Thanks a lot sir
میں آپ کا احسان ساری زندگی نہیں بھولوں گی سر۔۔۔
آپ کو جب بھی ۔۔۔جواد سے چیک وصول کرتے ہوئے اس نے اس کا شکریہ ادا کیا ۔
میرا مطلب ہے میں اس قابل تو نہیں کہ آپ کے کام آ سکوں مگر۔۔۔
آپ کو جب بھی مجھ سے کام ہو ا تو کہیئے گا ضرور ۔۔۔!!!
دیکھ لیجیئے مس۔۔۔اس نے مسکراتے ہوئے اس پر گہری نظر ڈالی ۔۔۔میرا کام ہو گا بہت مشکل ۔۔۔!!!
سوچ لیجیئے ۔۔۔!!نرمی سے بات کرتے ہوئے وہ بولا۔
But I will try my best جی۔۔۔!!
آپ کہئیے تو ۔۔!!
بے فکر رہو وقت آنے پر سب بتا دوں گا۔۔۔!!اس نے مسکراتے ہوئے کرسی کو گھمایا۔
مسکان۔۔۔۔۔۔!!!!!
ہیلو؟؟؟؟کہاں گم ہو؟؟؟اس کے قریب جاتے ہوئے اس نے اسے ہلایا۔
ہاں!!!
کہیں نہیں۔۔۔سوچ سے آزاد ہوتے ہوئے وہ اس سے مخاطب ہوئی۔
کوئی مسئلہ ہے؟؟؟پریشانی سے انشراح نے پوچھا۔
نہیں تو؟؟؟
بس تھک بہت گئی ہوں۔۔۔!!وہ تھکے لہجے میں بولی۔
ام م م ۔۔۔
چلو ۔۔۔۔کافی پیتے ہیں۔۔۔۔!!اینی وے۔۔۔!!
ہو گئی کل کی پریزنٹیشن کی تیاری؟؟
ہاں بس۔۔۔ ہو ہی گئی۔۔!!!فائلز کو بند کرتے ہوئے وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
بیسٹ آف لک یار ۔۔۔!!! ا م م م م م۔۔۔
بس کل کی پریزنٹیشن کامیاب رہی تو سمجھو مزید پروموشن ۔۔۔
مسکراتے ہوئے مستقبل میں کامیابی کی امید دلا رہی تھی جواباََ مسکان بھی مسکرا دی۔
اوہ۔۔۔ہو۔۔۔۔ کینٹین سے کافی لیتے ہوئے موبائل چیک کرتے ہوئے پریشان ہو گئی۔۔۔
کیا ہوا انشراح۔۔وہ اسے یوں پریشان دیکھ کر پوچھنے لگی۔۔۔
تھکن تو تھکن ۔۔۔!!!
اوپر سے غضب یہ ڈرائیور۔۔۔۔!!غصہ سے موبائل بیگ کی اندر رکھتے ہوئے کافی کا کپ مسکان سے پکڑنے لگی۔
گاؤں چلا گیا۔۔!!
اوہ!!پریشان ہوتے ہوئے
پھر اب؟؟؟
اب کیا یار ۔۔لوکل ہی جانا پڑے گا ۔۔۔
ڈیڈ بھی نا!!میٹنگ کے سلسلے میں اسلام آباد بیٹھے ہیں۔۔۔وہ غصہ پہ غصہ کیے جا رہی تھی۔
اب لوکل ہی جانا پڑے گا۔۔۔!!شام کے 5 بجے دونوں روڈ پر چلتے چلتے بس اسٹاپ پر پہنچیں۔
اوہ !گاڈ۔۔۔۔کب آئے گی یہ گاڑی۔۔۔!!
سچی ۔۔۔
تم گریٹ ہوجو روزانہ بس میں دھکے کھاتی آتی جاتی ہو۔۔!!
وہ بس اسٹاپ پر بیٹھی اس سے باتیں کرنے لگی۔جبکہ مسکان اس کی باتیں سن کر بس دھیما سا مسکرا دی۔
ایک بات پوچھوں انشراح؟؟؟؟
ہاں۔۔۔پوچھو۔۔۔!!ہنستے وہئے اسے دیکھنے لگی۔
بھلااجازت کی کیا ضرورت ہے پاگل۔۔۔!!
دو باتیں پوچھو۔۔۔۔مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارنے لگی۔
تم جاب کیوں کرتی ہوَََ
میرا مطلب ہے کہ جاب کی ضرورت تو نہیں ہے تمہیں تو پھر؟؟؟؟
وہ زرا رک رک کر ہچکچاتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی۔
مجھے پتہ تھا۔۔۔۔۔
تم یہی پوچھو گی۔۔۔!!
ہے۔۔۔!!مسکراتے ہوئے اس سے کہہ رہی تھی۔اسی اثناء میں بس کے آتے ہی اس پر سوار ہو گئیں۔Passion مگر یہ میری مجبوری نہیں میرا شوق ہے۔۔۔میرا
٭٭٭
گھر آتے ہی مسکان فوراََ اپنے کمرے میں جانےہی لگی کہ دادا جان کو بیٹھا دیکھ کر واپس مڑی اور اور ان کے پاس آ بیٹھی ۔
کیسے ہیں دادا جان ۔۔۔!!
میں ٹھیک ہوں بیٹی ۔۔۔وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے مسکرا دیئے ۔
تم سناؤ کیسی ہو؟؟
جی میں ٹھیک ۔۔۔!! صبا فوراََ اس کے لئے پانی لے کر آئی ۔
کیسا رہا دن ؟؟صبا مسکراتے ہوئے پانی کا گلاس پکڑاتے ہی پوچھنے لگی۔۔
اللہ کا شکر ہے۔۔۔!!پانی کا گھونٹ گلے میں اتارتے ہوئے وہ تشکر آمیز لہجے میں بولی۔
امی کہا اں ہیں ؟؟وہ ثریا کا پوچھنے لگی۔۔۔
کیوں کوئی کام ہے؟؟؟ گڑیا فوراََسے اس کے پاس آکر بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔
ہاں۔۔۔!!سمکان نے ایک لفظ میں جواب دیا۔
ام م م م۔۔۔!!
اچھا۔۔۔۔!
آپی۔۔۔۔
دس دن بعد آپی صبا کی شادی ہے۔۔۔!
آج لڑکے والے آئے تھے دن لینے۔۔۔گڑیا خوش ہو تے ہوئے اسے بتا رہی تھی۔
دس دن ۔۔۔!!صبا کو مسکراتا دیکھ کر وہ دونوں سے پوچھنے لگی۔۔۔
کچھ زیادہ جلدی نہیں ہے یہ تو۔۔۔۔!پریشانی سے صبا کی طرف دیکھتے ہوئے گڑیا سے پوچھنے لگی۔
پتہ نہیں۔۔۔!!
سنتی بھی ہے ثریا کسی کی۔۔۔دادا جان تلخ لہجہ میں بولے۔
کیا برائیاں کررہے ہیں آپ میری۔۔ثریا گھر کے اندر داخل ہوتے ہی دادا جان سے غصہ سے کہنے لگی۔۔۔
امی۔۔۔!!صبا اس کو چپ رہنے کے لئے آہستہ سے کہنے لگی۔۔۔
یہ لو کپڑے ۔۔۔!!دادا جان خاموشی سے وہاں سے چلے گئے۔
باقی دو کام والے سوٹ آرڈر دے آئی ہوں۔۔۔۔!
بہت مہنگا ئی ہے۔۔۔!!!
دس ہزار نے تو کچھ بنایا ہی نہیں آج۔۔۔ایک نظر مسکان کی طرف دیکھتے ہوئے صبا سے کہنے لگی۔۔۔مگر حقیقتاََ وہ مسکان کو سنا رہی تھی۔
سمجھ نہیں آتا کیسے ہو گا سب ۔۔۔!
دن بھی تو بہت کم ہیں نا۔۔۔!!خود کو مجبور پیش کرتے ہوئے مسکان پر گہری نظر ڈالنے لگی۔۔۔!
جبکہ مسکان خاموسی سے وہاں سےاٹھ کر جانے لگی۔۔۔۔!!
٭٭٭
جاری ہے