ہڈیوں کے ڈھانچے اور چہرے پر ابھرے دانتوں کی سفیدی سے لگ رہا تھا کہ وہ کسی انسان ہی کا بچہ ہے،بے جان سانسیں خبر دے رہی تھیں کہ زندگی کی ڈور سے اب ناطہ ٹوٹا مگر بے جان جسم و جان کی چلتی نبضیں زندگی کا پتہ دے رہی تھیں،ماں اپنے لخت جگر کو اپنے سینے سے لگائے مسیحا اور موت الملک کے ایک ساتھ انتظار میں تھی ،اپنے جگر گوشہ کا یوں تڑپنا اس سے دیکھا نہیں جا رہا تھا ،ہفتوں گزر گئے تھے وہ تو کیا اس کے بے جان و پتھر بچے کے حلق سے ایک قطرہ پانی کا بھی نہیں اترا تھا،،بے چین ماں بار بار دروازے کی جانب ٹکٹکی باندھے اپنے گھر کے والی کے قدموں کی چاپ کی منتظر تھی کہ شاید وہ شہر سے کچھ پیٹ کا دوزخ بھرنے کچھ کا ساماں لیکر لوٹ آئے اور بجھتے چراغوں کو دوبارہ روشن کیا جا سکے،،،یہ انتظار تھا کہ ہفتے مہینے گزر گئے مگر کسی جانب سے بھی گھر کے والی وارث کا کچھ اتہ پتہ نہ تھا اور ہوتا بھی کیسے کہ پیٹ کا دوزخ مٹانے اور اپنے بیوی بچوں کے مستقبل کے خواب کو آنکھوں میں سجانے والا سائیاں شہر کے ایک رئیس کے گندم گودام کا چوکیدار تھا ،گودام بوریوں سے لدا ہوا اور سائیاں اس گودام کا ایسا نگہبان تھا جو کسی بوری کو چُھو نہیں سکتا تھا مگر سینکڑوں ہزاروں بوریوں کا وقتی مالک تھا،،کئی دن کی بے قراری و گھر لوٹ جانے کی جلدی اس لیے بھی اس سائیاں کے نصیب میں نہ تھی کیوں کہ اسے دوماہ سے زائد کی اجرت بھی نہیں مل سکی تھی ،وہ سوچ رہا تھاکہ کچھ ریزگاری اس ہاتھ لگ جاتی تو وہ اپنے گھر کی تاریکی میں زندگی کا اجالا واپس لا سکتا،،،سائیاں کو گھر جانے کی جلدی اور سائیاں کی بیوی کو اپنے مجازی خدا کے لوٹ آنے کی جلدی تھی،سائیاں کی بیوی ریشماں گود میں لیٹے بچے کو سہلا رہی تھی اور تسلی دے رہی تھی کہ اس کا بابا آنے ہی والا ہے،،مگر یہ لفظ اور جملے اس گھر کے کچے دردیواربھی سن سن کے عادی ہو گئے تھے،،بچے کی حالت بگڑتی چلی جا رہی تھی اور اب اس جگر گوشہ کی کراہیں بھی سنائی نہیں دے رہی تھیں کہ اچانک اس کی کراہیں ہچکیوں کی صورت اس کی آنکھوں کو موندھ رہی تھیں اور اسی دوران فرشتہ اجل کی حاضری ہوئی اور ایک ہلکی سی چیخ ریشماں کو سنائی دی اور ساتھ ہی ہڈیوں کا ڈھانچہ ایک دم سے ٹھنڈا ہو گیا ،،،،،ان ہی لمحوں کے دوران گھر کے آنگن میں ایک نہیں کئی قدموں کی چاپ سنائی دی، ریشماں نے گھر کے آنگن میں جھانک کر دیکھا تو کئی افراد ایک چارپائی کندھوں سے اتار رہے تھے،،ریشماں کی بجھی سوالی نظروں کے جواب میں آنے والے ایک مہمان نے بتایا کہ کہ گزشتہ رات ایک گندم کی بوری گودام میں سرک کر سائیاں پر آ لگی تھی اور وہ دنیا چھوڑ گیا،،مہمان نے چند روپے ریشماں کے ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا کہ صاحب نے کفن دفن کیلئے دیے ہیں اور صاحب مصروفیت کی وجہ سے نہیں آ سکے مگر انہیں سائیاں کے چلے جانے کا افسوس بہت ہے،،ریشماں سائیاں کی لاش،،اپنے جگر گوشے کے ٹھنڈے جسم اور ہتھیلی پر رکھے روپوں کو تکتے ہی جا رہی تھی اور سائیاں کو لیکر آنے والے خالی چارپائی لیکر واپس لوٹ رہے تھے،،،،،،، یہ کس گھر کی کہانی ہے مجھے ٹھیک طرح سے معلوم نہیں مگر اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہ ہو نہ ہو اسی ملک کے حصے تھرپارکر ہی کے کسی گھر ہی کا منظر ہوگا کیونکہ جب درد سے کراہ نکلے اور کوئی سنی ان سنی بھی کر دے تو کم از کم اپنے کانوں میں وہی آواز ضرور گونجتی ہے،اپنا درد سب کو محسوس ہوتا ہے مگر کسی کی جان پر بنی ہو تو ضمیر اوراحساس سب سوجاتے ہیں،میڈیا تھرپارکرکی مرجھائی معصوم کلیوں کی روازانہ جھلک دکھلاتا ہے ،تھرپارکر میں ہر طرف انسانیت تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہی ہے، موت کے پہرے قائم ہیں اور اس تپتے ، صحر کی ہوائیں چیخ و پکار کی صدائیں بلند کرکے مسیحائی کی راہیں تک رہی ہیں ،انسانیت کی پارسائی کے بلندو بانگ حلق پھاڑ کر نعرے بلند کرنے والوں کا کہیں نام ونشان نہیں مل رہا،ایوان اقتدار کے پجاری پھولوں کی سیج پر تھرپارکر کی قسمت بدلنے کیلئے محو خواب ہیں،تھرکاریگستان معصوم زندگیوں کو نگلتا جا رہا ہے،ہو کے اس عالم میں چاروں سُو سناٹاپھیل چکا ہے مگر ایک آس پھر بھی حاکم طبقہ کے ضمیروں کو جھنجوڑنے میں ہے،نونہالان کی اُکھڑی ہوئی سانسیں وقت کے عمر فاروق سے صدائے مدد پکار رہی ہیں،،،، مگر ،،،،،ہر جانب نفسا نفسی کا راج ہے،مدد مدد پکارنے والی حسرت بھری صدائیں آہستہ آہستہ خاموش ہوتی جارہی ہیں،،سینکڑوں معصوم بچے غذائی قلت اور ادویات کی عدم دستیابی کے سبب رقص بسمل بنے ہوئے ہیں،ملک و ملت کی تقدیر بدلنے والے اپر کلاس کے ہاتھوں انسانیت تڑپ رہی ہے،،نجانے دنیا میں انسانیت اور انسانی حقوق کے داؤ پیچ لڑانے والوں کویہ حصہ کیوں دکھلائی نہیں دے رہا۔پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے میرے قلمکار دوست مجھے تھرپارکر کے بارے میں جو احوال سنا رہے ہیں ان سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق تھرپارکر کا بیش تر علاقہ صحرا پر مشتمل ہے جب کہ جنوب میں دلدلی علاقے اور نمکین جھیلیں ہیں جبکہ کراچی سے بھارت جانے والی ریلوے لائن بھی اسی مقام سے گزرتی ہے ،تھر پار کر کا موسم خشک اور زیادہ ترگرم رہتا ہے ،اس ریگستانی علاقے میں موسم گرما کے دوران گرمی اور تیز ہواؤں سے لُو چلتی ہے جس سے وہاں کے مکینوں کی زندگی مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ تھرپارکر کے صحرائی علاقوں سے ملحقہ سرسبز علاقوں میں نقل مکانی معمول کی بات ہے،کہا جا رہا ہے کہ تھرپارکر کے علاقے میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں اور جب بوندیں برسنے لگتی ہیں توبجھے چہروں پر بہار آ جاتی ہے اور ہر طرف خوشی دیدنی ہوتی ہے،اس علاقے کو ماضی میں کئی مرتبہ آفت زدہ قراربھی دیاجا چکا ہے مگر حکومتی سطح سے کوئی اپنی ذمہ داری اخلاص کیساتھ نہیں نبھا سکا،ہمارے لیے کسی بھی المیہ سے یہ کم نہیں کہ مادہ پرستی کے اس دور میں انسانی جبلت میں یہ چیزشامل ہوتی جا رہی ہے کہ وہ زبان سے کہتاکچھ اور ہے کرتا کچھ اور ہے، قول و عمل کے اسی تضاد نے معاشرتی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو جنم دیا ہے،ملک عزیز پاکستان بحرانوں کی زد میں ہے ایک صوبہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے تو دوسرا صوبہ معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے کہیں خشک سالی و قحط کے ڈیرے ہیں تو کہیں ملک دشمن عناصر بھیڑیے کی کھال میں پیٹھ پیچھے سے حملہ آور ہو رہے ہیں،حکمران طبقہ جو ایوان اقتدار میں آ کر ملک و ملت کو بھول کر اپنے کاروبار کو بچانے پر تل جاتے ہیں ایسے حاکم آخرت میں سخت پکڑ میں ہونگے،قیامت کے روز ایسے حاکم یا ذمہ دار کا حال بھی کچھ اچھا نہ ہو گا جو اپنی رعایا کی ذمہ داریوں سے غافل رہتا ہے،معاذ بن جبلؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو لوگوں کے کسی معاملہ کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی پھر وہ ضعیف، کمزور اور حاجت مندوں سے چھپ کر رہتا ہو اور ان کے سامنے نہ آتا ہو تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے نظر نہیں آئیں گے اور وہ ان کے دیدار سے محروم ہو گا،ہم آخرت پر یقین رکھتے ہیں لیکن ہمارے قلب اور ذہن گروی ہیں ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ جو ہمارے اردگرد حادثے ہورہے ہیں محض اتفاقی امر ہے کیونکہ ہم نے غفلت اور دور اندیشی کی دور بینیں لگا رکھی ہیں حالانکہ یہ سارے واقعات ہمیں عبرت اور نصیحت کی طرف توجہ دلاتے ہیں،میرے پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کے دوست جو ان دنوں تھرپارکر میں موجود ہیں سوشل میڈیا پر تھرپارکرمیں گزرنے والی قیامت کے مناظر سے آگاہ کر رہے ہیں، معصوم بچوں اور عورتوں کی بے بسی کے عالم سے کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ مظلوموں کی کیسے مدداور ظالم کا ہاتھ کیسے روکا جائے؟ وہ ظالم جنہوں نے اختیارات و ذمہ داریوں کا بوجھ تو اٹھا رکھا ہے مگر وہ مسلسل غافل ہیں ،تھرپارکر میں انسانیت تڑپ رہی ہے اور کہیں بھی حکومت نام کی کوئی شے اوران سماجی ،ملکی وغیر ملکی این جی اوزکا بھی کوئی وجود نظر نہیں آ رہا جنہیں انسانیت کی فکر کھائی جاتی رہتی ہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت عالمی سطح پر اس اہم مسئلہ کو اٹھائے اورقحط و خشک سالی سے پیدا شدہ صورت حال کا تدارک کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔