تاریخ پر نظر ڈالیں تو پاکستان میں پانی کی قلت اور کم یابی اسی وقت شروع ہوگئی جب تقسیم کے بعد بھارت کے ساتھ وہاں سے آنیوالے دریاؤں کے پانی کی ملکیت کے تنازع نے جنم لیا، لیکن ہماری قیادت کی نااہلی نے اس مسئلے کو حل ہونے کے بجائے مزید الجھا دیا اور آج صورتحال یہ ہے کہ 63برس قبل ہر پاکستانی کے لئے فی کس 5000کیوبک میڑ پانی کی مقدار اب کم ہو کر محض ایک ہزار تک پہنچ چکی ہے ۔ بھارت نے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جہاں پاکستان کے حصے میں آنیوالے پانی کا زبردستی استعمال شروع کر دیا وہیں پاکستان کی ملکیت کے دریاؤں پر ڈیموں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر کے ایک ایسے تنازع کو ہوا دی جو دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان چوتھی جنگ کا پیش خیمہ بنتا جارہا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں ماہرین آئندہ عالمی جنگ پانی ہی کے مسئلے پر ہونے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں وہیں جنوبی ایشیاء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان پانی کی ملکیت اور تقسیم کے تنازع کو بھی انتہائی خطرناک قرار دیا جا رہا ہے۔ پانی کی کمی کے سبب جہاں خطے کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے وہیں پاکستان کی زراعت جو کہ ہماری معیشت کی بنیاد ہے بھی تباہی کی طرف گامزن ہے اور وہ خطہ جو زرعی لحاظ سے دنیاکے ذرخیز ترین تصورکیا جاتا ہے پانی کی کمی کے سبب بنجر ہوتا جا رہا ہے۔1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے مطابق جس میں ورلڈ بنک، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینڈا ضمانتی ہیں کے تحت پاکستان اور بھارت دونوں کو تین تین دریاؤں کے پانیوں پر ملیکت کا حق دیا گیا ہے، معاہدے کے مطابق ستلج ، بیاس اور راوی پر بھارت جبکہ چناب، جہلم اور سندھ پاکستان کے حصے میں ہیں لیکن اس کے باوجود تنازع ختم نہ ہو سکا، بھارت نے تمام تر شرائط اور وعدے نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کے حصے میں آنیوالے دریائے چناب پر 450میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بگلیہار ڈیم کی تعمیر کا اعلان کر دیا جس کے بعد دونوں ملکوں کے مابین پہلے ہی سے موجود تنازع کو مزید شدید کر دیا، اس کے باوجود گزشتہ برس سات اکتوبر کو بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اس متنازعہ منصوبہ پر کام کا افتتاح کر دیا، منصوبے کے تحت 470فٹ بلندی پر پانی کے اس ذخیرے کی تعمیر پاکستانی زراعت کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں جبکہ ساتھ ہی ساتھ ملک میں توانائی کے بحران میں بھی شدت کا باعث ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق 9اکتوبر 2008 ء اور گیارہ اکتوبر 2008ء کے دوران صرف تین دنوں میں بھارت نے پاکستان کو عام حالات میں ملنے والا 55000کیوسک پانی کم کر کے 10739 کیوسک خراج تک محدود کر دیا۔ آئی ایس این سکیورٹی واچ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا دو ملین ایکڑ فٹ پانی صرف اکتوبر 2008ء میں بھارت کے استعمال میں رہا۔ پنجاب ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی اقدامات کی وجہ سے پاکستان کو تین لاکھ اکیس ہزار ملین ایکڑ فٹ پانی کا نقصان ہو رہا ہے جس سے 405 نہریں اور 1125آبی گزرگاہیں ڈیڈ لیول تک پہنچ گئی ہیں جبکہ ایک کروڑ تیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین شدید متاثر ہوئی ہے۔ دوسری جانب پاکستان جو کہ زیادہ تر بجلی پانی ہی سے پیدا کرتا ہے اس کمی کے سبب توانائی سیکٹر میں بھی مشکلات کا شکار ہے۔ نی کی تقسیم کے حوالے سے بھارتی ہٹ دھرمی کوئی نئی بات نہیں، بلکہ یہ سلسلہ یکم اپریل 1948ء سے اس وقت شروع ہوا جب آزادی کے ایک سال بعد ہی بھارت نے وہاں سے آنیوالا پانی روک لیا جس کے سبب پاکستان کی 5.5 فیصد زرعی اراضی شدید متاثر ہوئی۔4مئی 1948ء کو بھارت اور پاکستان کے ساتھ معاہدے پر رضا مند ہونا پڑا لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد امریکی ماہر ڈیوڈ لینتھال اس وقت بھارت آئے جنہوں نے تمام صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے دلائل رد کر دیئے جس کے بعد تنازع دوبارہ پیدا ہوگیا جو کہ 1952 ء سے 1960ء کے دوران ہونے والی کوششوں کے بعد سندھ طاس معاہدے پر منتج ہوا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کرنے کے باوجود بھارت نے 1984ء میں اس دریا پر وولر ندی کے شروع پر بیراج بنانے کا اعلان کر دیا لیکن پاکستان کے احتجاج پر یہ تعمیر روک دی گئی۔1992ء میں دریائے چناب پر بگلیہار ڈیم کا معاملہ شروع ہوگیا جو تاحال ختم نہیں ہوا اور صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ بھارتی اقدامات کے سبب پانی کی کمی پیدا ہونے والے مسائل پاکستان میں اندرونی اختلافات کی وجہ بن رہے ہیں اور اسی کمی کے نتیجہ میں پاکستان کے چاروں صوبوں پنجاب، سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں وسائل کے لحاظ سے پانی کی تقسیم کا تنازعہ موجود رہا ہے۔ اب صوبوں کی جانب سے ایک دوسرے پر1991ء میں ہونیوالے پانی کی تقسیم کے معاہدے جسے ’واٹر اپورشن ایکارڈ‘ کا نام دیا گیا تھا کی خلاف ورزی کے الزامات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے بھارت کی جانب سے پانی کے معاہدوں کی تمام تر خلاف ورزیوں کے باوجود پاکستان کے پاس اتنا پانی ہے کہ اگر اس کو مناسب طریقے سے ذخیرہ کرنے کے انتظامات کر لیے جائیں تو وہ ملکی ضروریات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگا جس سے زراعت کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار اور دیگر منصوبوں کے لیے بھی وافر ہوگا۔ لیکن بد قسمتی سے شروع دن سے ہی پاکستان میں ہر اہم معاملہ اور منصوبہ سیاست کی بھینٹ چڑھتا آیا ہے لیکن ان منصوبوں میں کچھ ایسے بھی شامل ہیں جن کا التواء آج ہمارے لیے وبال جان بنا ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچا چکا ہے۔ انہی منصوبوں میں ڈیموں کی تعمیر جن میں کالا باغ ڈیم سر فہرست ہے بھی شامل ہے جو ماہرین کے مطابق ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر عمل سے نہ صرف موجودہ توانائی بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ پانی کی کمی کا مسئلہ بھی بڑی حد تک حل ہو سکتا ہے۔ لیکن ہمارے حکمران ہر دور میں اسے بھی اپنی سیاسی اناء کے سبب قومی اتفاق رائے نہ ہونے کی آڑ میں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے آئے ہیں۔پاکستان کے مقابلے میں اس وقت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں 541ڈیموں کی تعمیر جاری ہے، بھارت میں 28، ایران میں19، ترکی میں23، چین میں250ڈیموں کی تعمیر پر کام جاری ہے مگر پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں 1974ء کے بعد کوئی ڈیم نہیں بنایا گیاجس کے پیچھے سیاسی ہٹ دھرمی کے علاوہ کچھ نہیں اور اگریہ سلسلہ نہ روکا گیا تو پانی کی کمی تو بڑھے گی ہی اس کمی کی وجہ سے بھارت کے بعد خود پاکستان کے اپنے صوبوں میں جاری اختلافات شدید ہوتے رہیں گے جو کہ کسی بھی صورت نیک شگون نہیں۔