زندہ قومیں اپنے ادیبوں کو نہیں بھولتیں اور آج کا یہ کھچا کھچ بھرا ہال بتا رہا ہے کہ اِس قوم کی نبض چل رہی ہے‘‘یہ خوبصوت الفاظ تھے یو ایم ٹی پریس فورم کے زیراہتمام تقریب ’’انتظار حسین۔۔یادیں اور باتیں‘‘ کی کمپیئر آمنہ مفتی کے۔اور یہی حقیقت ہے کہ ہماری قوم اپنے ادیبوں، اساتذہ،محسنوں،جانثاروں کو ہمیشہ یادرکھتی ہے۔گزشتہ چھ ماہ سے پاکستان میں مقیم ہوں اور اس دوران مجھے دیگر ادبی تقریبات کی نسبت مرحوم ادبی شخصیات کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے حوالے سے پرتپاک محافل کے دعوت نامے زیادہ موصول ہوئے ہیں
حالیہ منعقدہ ہونے والیں ایسی محافل میں بلاشبہ یوایم ٹی پریس فورم کے زیراہتمام لاہوری ناشتہ اور ادبی بیٹھک کے موقع پر’’انتظار حسین۔۔یادیں اور باتیں‘‘ سب سے زیادہ منفرد ،شاندار اور بھرپور تقریب رہی ہے جسے ادبی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا ۔انتظار حسینِ ادب و صحافت کا ایک ایسا باب ہے جو کل بھی روشن تھا اور کل بھی پورے آب و تاب کے ساتھ روشن رہے گا،جس سے اہل قلم روشنائی حاصل کرتے رہے گے۔انتظار حسین نے اپنے موضوعات میں سماجی معاشی اور سیاسی زندگی کے ہر زاویہ پر کڑی نظر رکھی ہے جس میں حقیقت نگاری کا رحجان بہت غالب ہے۔انکے مشاہدے کی دنیا بہت وسیع تر ہے مگر ماضی سے انکی وابستگی کی بازگشت افسانوں میں سنائی ضرور دیتی ہے۔انتظارحسین کے قلمی سفر کا موضوع اتنا وسیع ہے کہ اِسے چند پیراگراف میں سمیٹنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔انتظار حسین ہندوستان کے شہر میرٹھ میں دسمبر ۱۹۲۳ میں پیدا ہوئے،انکے والدمحترم انہیں مذہبی سکالر کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے مگراسکے برعکس بڑی بہن کی کاوشوں سے اسکول میں ایڈمشن دلوا دیا گیا، ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر سے ہی حاصل کی ،۱۹۴۷ میں حسن عسکری کی خواہش پر ہجرت کی اور پاکستان کے زندہ دلان شہر لاہور میں قیام پذیر ہوئے ۔پنجاب یونیورسٹی سے اُردو اور انگلش میں ماسٹر کیا اور قلمی میدان میں قدم رکھا،آزاد نظموں میں طبع آزمائی کی مگر قلمی سفر کا رخ بدلا اور یوں پھرتحقیق ،تنقید یا کالم نگاری ہو،افسانہ نگاری ہو یا ناول نگاری انہوں ہر میدان میں اپنے ہنرمندیوں کا لوہا خوب منوایا ہے۔مقامی اخبار میں تسلسل سے پبلش ہونے والا انکا کالم بعنوان لاہور نامہ مقبول عام تھا۔روزنامہ امروز، روزنامہ آفاق، روزنامہ مشرق ،روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ، روزنامہ فرنٹیئر پوسٹ، روزنامہ ڈان سے بھی وابستہ رہے۔’’چراغوں کا دھواں‘‘ اور’’ دلی تھا جس کا نام‘‘انکے سوانح عمری کے حوالے سے کتب نے اہل حلقہ علم و ادب میں بہت شہرت حاصل کی جبکہ ’’جل گرجے‘‘ اور نظریئے سے آگے نے بھی اپنی مقبولیت کے جھنڈے گارے۔ ناول ’’آگے سمندر ہے‘‘،’’ چاند گہن‘‘، ’’دن‘‘،’’ بستی‘‘جبکہ افسانے ’’شہر افسوس‘‘،’’ کچھوے‘‘، ’’ خیمے سے دور‘‘،’’ خالی پنجرہ‘‘،’’ گلی کوچے‘‘، ’’آخری آدمی‘‘ اور’’ گلی کوچے‘‘انکی اُردو ادب کی گرانقدر خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔انکی صحافتی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے ستارہ امتیاز،کمال فن ایوارڈ اکادمی ادبیات پاکستان ، حکومت فرانس کی جانب سے ستمبر ۲۰۱۴ کو آفیسر آف دی آرڈر آف آرٹس اینڈ لیٹرز ایوارڈ سمیت بے شمار قومی اور بین الاقوامی اعزازت سے نوازا گیا۔
انتظار کی کہانی اور پاکستان کا سفر ساتھ ساتھ چلتے ہیں، ان منظوم تاثرات کا اظہار کر رہے تھے تقریب کے مہمانِ خصوصی اصغر ندیم سید،انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور بدلتے حالات ان کے افسانوں میں تبدیل ہوئے۔انہوں نے تہذیبی مکالموں کی روایت کا آغاز کیاا ور سماجی مصروفیات کی گھن گھرج میں بہت سلیقے اور دھیمے سروں میں داخل ہو نا بھی انتظار کی ایک بڑی بامعنی بات ہے۔انتظار حسین سیاسی شعور رکھنے والے مذاہمتی ادیب تھے انہوں نے تھر کے حالتِ زار پر سب سے پہلے آواز بلند کیا اور اس حوالے سے ’’مور نامہ‘‘ لکھ کر انسانیت کو نئی فکر دی۔لذیز روایتی لاہوری ناشتے کے بعد ادبی بیٹھک کا آغاز ہوا اور قرآن پاک کی تلاوت باسعادت شعیب مرزا نے حاصل کی جبکہ طاہر پرویز مہدی نے حمد باری تعالی’’کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے‘‘پیش کی اور دلوں کو حبِ الہی سے منور کردیا۔نظامت کے فرائض محترمہ آمنہ مفتی نے اپنے منفرد روایتی انداز وبیان میں بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے ہوئے کہا کہ آج خوشی کا دن بھی ہے اور دکھ کا احساس بھی ہے کیونکہ اتنی خوبصورت محفل جس خوبصورت ادبی شخصیت کیلئے سجائی گئی ہے وہ ہم میں نہیں۔یو ایم ٹی پریس فورم کے روح رواں محترم مرزا محمدالیاس نے اپنی گفتگو کا آغاز اپنے فورم کے اغراض و مقاصد کے تذکرے سے کیا،انہوں نے ادب کے حوالے سے اپنے خیالات کے اظہار میں کہا کہ اپنی پسند ناپسند کے پیش نظر ادب میں موجود حدبندیوں کی بدولت قاری کا مطالعہ محدود ہو کر رہ گیا ہے ،جس کے باعث سوچنے سمجھنے کا انداز بھی محدود ہو گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اِس سماج میں افراد میں حائل فاصلوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔تہذیبوں میں مابین مقابلہ تبھی ممکن ہے جب افراد میں مقابلہ ہوگامگر ہم ایک دوسرے کی رائے کو برادشت کرنے کو تیار نہیں۔ہماری کوشش ہے کہ افراد کو قریب لایا جائے اور معاشرے میں مثبت سوچ و فکر کو پروان چڑھا سکیں۔محترمہ عمرانہ مشتاق نے انتظار حسین کی ادبی خدمات کو منظوم خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے اپنی ایک دلکش کلام سماعتوں کی نذر کیااور داد و تحسین کی حقدار بنی۔خوبصورت کلام پیشِ خدمت ہے۔۔
کھلا نہیں ہے کہ جانے کیا تھا
وہ آدمی تھا کہ اک دیا تھا
ادب کی گلیوں کو روشنی دی
اسے بکھرنا تھا وہ ضیا تھا
یہاں پہ اس سا نہیں ہے کوئی
ادب کی دنیا میں وہ جدا تھا
مثالِ سبزہ، مثالِ خوشبو
یہیں کہیں وہ تو رہ رہا تھا
ادیب بھی وہ عظیم تھا اور
وہ آدمی بھی بہت بڑا تھا
ابھی وہ کل تو مجھے ملا تھا
مقررین جن میں ڈاکٹر محمد قاسم، حسن پرویز مراد صاحب،محترمہ نیلوفر ،نذیر قیصر،حسن جعفری زیدی،مسعود آشعر،شعیب مرزا،الطاف حسن قریشی، فراصت بخاری شامل تھے ،نے انتظار حسین کی شخصیت اور فن کے حوالے سے اپنے گفتگو میں کہ انکے جانے ایسا احساس ہوا ہے کہ شجر سایہ دار سر پر نہیں رہا اور سر پر کڑی دھوپ ہے ۔تہذیب بہت بڑے فقدان کا شکار ہو گئی ہے۔انہوں نے اپنی تحریریں میں سوچ و فکر کی کھڑکیاں ماضی کی طرف کھول رکھی تھی اور مستقبل کے حالات و اقعات سے بھی بے خبر اور بے فکر نہیں تھے۔کشادہ دل و دماغ کے مالک تھے۔مردہ الفاظ کو چھو کر زندہ کر دینے کا ہنر خوب جانتے تھے ،وہ ادب میں ترقی پسندی کے خلاف نہیں تھے بلکہ نظریات میں جبریت کے خلاف تھے،اپنے عہد کے تمام مسائل کے ساتھ بہت مربوط تھے۔انکی تحریروں میں استعارے،علامتیں اور جدیدیت نمایاں تھی وہ حالات کے ساتھ چلنے کے عادی تھے،انہوں نے نثری ادب کی تمام اصناف پر بڑی ہنرمندی سے اپنایا نام منوایا ہے۔انہوں نے تہذیبی تاریخی زبان میں اپنے افسانوں کو لکھ کر قاری کو خوب متاثر کیا ہے۔مگر افسوس انہیں جتنا لکھا گیا اتنا پڑھا بھی نہیں جا سکا۔اِس موقع پر صدرِمحفل ڈاکٹر محمد قاسم نے انتظار حسین کی خدمات کے اعتراف میں انکے نام سے منسوب سالانہ تین ایوارڈز کی تقسیم کا بھی اعلان کیا۔تقریب میں حافظ مظہرمحسن، سید بدر سعید، وسیم عباس، اختر سردار چوہدری، ظہیر بدر، اسلام اعظمی، نورالہدی، حافظ محمد زاہد، اسد نقوی، عبدالماجدمالک، مسٹر اینڈ مسز شہزاد اسلم راجہ، ملک قمر عباس،احمد خیال،مقصود چغتائی سمیت ادبی حلقے کی نامور شخصیات شریک ہوئیں۔
پاکستان کے یہ واحد ادیب جنہوں نے پوری تہذیب کو اپنے تحریروں میں ضم کیا ہے۔جنہوں نے زمانے،حالات تاریخ کی لہروں کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ رکھا اور اپنی تحریروں سے تہذیبوں کے درمیان رشتہ استوار کیا آخر ۹۲ سال کی عمر میں۲ فروری ۲۰۱۶ کو لاہور کے ایک ہسپتال میں انتقال فرما گئے اورادبی دنیا کو ویران کر گئے
مثالِ سبزہ، مثالِ خوشبو۔۔۔یہیں کہیں وہ تو رہ رہا تھا