دنیا بھر میں 24 مارچ کو ٹی بی سے آگاہی کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر سال420,000 ملین افراد ٹی بی کے جراثیم کی زد میں آتے ہیں اور ان میں ٹی بی کی تشخیص ہو جاتی ہے۔ لوگوں کی غیر معیاری طرز زندگی بھی اس بیماری کا ایک موجب ہے۔ جراثیم سے آلودہ انداز رہائش، حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف ورزی اور غیر معیاری اشیا کھانے سے صحت کا معیار گر جاتا ہے اور یوں انسان اس موذی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ مشقت کی زیادتی بھی ٹی بی کا سبب بنتی ہے۔ ٹی بی کے مرض غریبوں میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔ تپ دق کے مرض کی کئی اقسام ہیں لیکن اس کا جراثیم زیادہ تر پھیپھڑوں ، لمف نوڈز اور عورتوں کے جنسی اعضا وغیرہ پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس مرض کی عام علامات میں شام کے وقت ہلکا ہلکا بخار رہنے لگتا ہے اورپورے جسم میں خصوصاً سینے میں درد محسوس ہوتا ہے۔ رات کوٹھنڈے پسینے آتے ہیں اور بعض اوقات کپکپی بھی طاری ہو جاتی ہے۔ شدید کمزوری کے ساتھ وزن میں بھی کمی ہو جاتی ہے۔ تپ دق ایک مہلک اور چھوت کی بیماری ہے جو ایک جراثیم مائیکو بیکٹیریم سے پیدا ہوتی ہے۔ تپ دق بنیادی طور پر پھیپھڑوں کی ایک بیماری ہے مگر یہ جسم کے دیگر حصوں کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ مریض کے کھانسنے، چھینکنے، تھوکنے یا اس کے نزدیک بیٹھ کر سانس لینے سے یہ مرض تندرست انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔ ہر سال درجنوں افراد اس مرض کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں جبکہ یہ مرض قابل علاج ہے۔ حکومت پاکستان اس مرض کے علاج و معالجہ کی سہولت مفت مہیا کر رہی ہے۔ تپ دق کو غریبوں کی بیماری بھی کہا جاتا ہے کیونکہ انہیں مناسب حسب ضرورت خوراک مہیا نہیں ہوتی اور اچھی رہائش بھی نہیں ملتی۔ اگر ان کو وبائی مرض لگ جائے تو ان کو صحیح علاج بھی نہیں ہو پاتا۔ تپ دق کے مرض میں تنگ و تاریک اور زیادہ گنجان آباد علاقے بھی اس کے فروغ کا باعث بنتے ہیں۔ پوری دنیا میں ہر برس 72 ہزار سے زائد افراد تپ دق کے مر یض زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان میں عورتوں میں ٹی بی کا مرض زیادہ ہے جبکہ پھیپھڑوں کی ٹی بی میں مرد زیادہ مبتلا ہیں۔ اس کے علاوہ عورتوں کی نسبت ٹی بی کے مریضوں میں مردوں کی شرح اموات زیادہ ہیں۔ پھیپھڑوں کی ٹی بی سے مریض کو دماغ اورہڈیوں کی بھی ٹی بی ہو سکتی ہے جبکہ ہڈیوں، جوڑوں، آنتوں کی ٹی بی سے پھیپھڑوں کی ٹی بی نہیں ہوتی۔ بچوں میں جلد کی ٹی بی کی وجہ یہ ہے کہ اگر گھر میں کسی بزرگ اور بڑے کو پھیپھڑوں کی ٹی بی ہے تو جب وہ بچے کو پیار کرتا ہے اس کا ہاتھ یا منہ چومتا ہے تو ٹی بی کے جراثیم جلد پر لگ جاتے ہیں اس سے بچوں میں جلد کی ٹی بی ہونے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔ جلد کی ٹی بی میں جلد پر زخم بن جاتے ہیں۔ اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروانے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ جلد کی ٹی بی ہے یا کوئی اور جلد کی بیماری ہے۔ اگر لیبارٹری میں جلد کی ٹی بی کی ر پورٹ آئے تو فوراً گھر کے تمام لوگوں کی ٹی بی کے مرض کی تشخیص کروانی چاہئے۔دنیا میں 22 ممالک ایسے ہیں جہاں پر مختلف بیماریوں کے ٹوٹل مریضوں میں سے 81 فیصد صرف ٹی بی کے مریض ہیں۔ ان ممالک میں انڈیا، انڈونیشیا، چائنا اور ساؤتھ افریقہ نمایاں ہیں۔ پاکستان ٹی بی کے مریضوں کے حوالے سے دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں ٹوٹل جتنی بھی بیماریوں کے مریض ہیں ان میں سے 5.1 فیصد ٹی بی کے مریض ہیں جو کہ ایک بہت بڑی شرح ہے۔ ٹی بی کے مریضوں کی دو اقسام ہیں ایک وہ مریض جن میں ٹی بی کی انفیکشن ہوتی ہے جبکہ دوسری قسم ٹی بی کے مریضوں کی وہ ہے جن کے منہ میں ٹی بی جراثیم ہوتا ہے۔ ان کو ہم ٹی بی کہتے ہیں۔ جو کہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ ایسے ٹی بی کے مریض جن کے منہ م میں ٹی بی کا جراثیم آتا ہے ان کے سانس لینے، کھانسی کرنے سے دوسروں کو ٹی بی کا مرض لگ سکتا ہے۔ پاکستان میں ٹی بی کی انفیکشن میں مبتلا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ میں سے 97 ہے اور وہ مریض جن کے منہ میں جراثیم نہیں آ رہے ان کو بھی شامل کریں تو ان کی تعداد ایک لاکھ میں 231 مریض کی ہے۔ ہر سال چار لاکھ 20 ہزار مریضوں کی ٹی بی کی تشخیص کی جاتی ہے۔ ٹی بی کی ایک قسم وہ ہے جس میں مریض میں وہ ساری علامتیں مثلا کھانسی، بخار اور بلغم بھی آ رہی ہوتی ہے مگر خوش قسمتی سے اس مریض کے منہ میں جراثیم نہیں آ رہے ہوتے ہیں۔ ایسی ٹی بی کے مریضوں سے دوسروں کو ٹی بی کا مرض نہیں لگتا اس کی تشخیص کر کے ڈاکٹر ہی بتا سکتا ہے۔ ٹی بی کی بیماری میں ایک ٹی بی کی بیماری ملٹی ڈرگ ریزسٹنس ہے۔ اس بیماری کے مریضوں پر ٹی بی کی عام ادویات اثر نہیں کرتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹی بی کے کچھ جراثیم اتنے خطرناک ہوتے ہیں جن پر یہ دوائیاں اثر نہیں کرتیں۔ ایسے مریضوں کو ایم ڈی آر کہتے ہیں ایسے مریضوں میں پاکستان دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے اور یہ زیادہ خطرناک بات ہے۔ پاکستان میں ایسے مریضوں کی تعداد بارہ ہزار کے قریب ہے۔ پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں ٹی بی کے مریضوں کا جائزہ لیں تو 2011 ء میں ایک لاکھ کی آبادی میں 231 مریض تھے۔2012 میں بھی ٹی بی مریضوں کی تعداد ایک لاکھ میں231 ہی تھی جبکہ 2013 میں ایک لاکھ کی آبادی میں 236 مریض جبکہ 2014ء میں ایک لاکھ کی آبادی میں 241مریض شمار کیے گئے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو ٹی بی کے مرض سے بچاؤ کیلئے بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کے کورس میں ویکسین شامل ہے جو کہ بہت اچھی ویکسین ہے۔ ویکسین لگانے کا مقصد اس مرض کے جراثیم تندرست انسان میں داخل کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ جسم کے اندر جراثیموں سے لڑائی کیلئے ایک مزاحمی فوج بنائے تاکہ جب بھی کوئی چھوٹی موٹی انفیکشن ہو تو وہ اس بیماری کے جراثیم کا مقابلہ کر سکیں۔ اگر انفیکشن بڑی ہو اور انسان میں قوت مدافعت زیادہ نہ ہوتب بیماری کا جراثیم حملہ آور ہو جاتا ہے اور انسان اس بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ٹی بی کے مرض کی پوری دنیا میں ایسی بری صورتحال تھی کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے 1994 ء میں گلوبل ایمرجنسی اور منسٹری آف ہیلتھ نے پاکستان میں24 مارچ 2001ء میں قرار دیاکہ ٹی بی کے مریضوں کا علاج ہنگامی بنیادوں پر کیا جائے۔ اس کے بعد دنیا کے تمام ممالک کے ہسپتالوں میں ٹی بی کے مریضوں کی تشخیص اور علاج کا سلسلہ تیزی سے شروع کیا گیا آج پورے پاکستان میں ٹی بی کے مریضوں کے علاج کی سہولت موجود وہے ٹی بی پروگرام کے تحت یہ کام ملک کے کونے کونے میں کیا جا رہا ہے۔ ٹی بی کے مرض کی تشخیص سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان میں اس وقت ہر قسم کی ٹی بی کا مریض موجود ہے۔ ٹی بی کی وہ ہوتی ہے جس میں ٹی بی کے جراثیم ایک مرض سے دوسرے کو لگ جاتے ہیں۔ ٹی بی کے مریضوں کے بلغم میں جراثیم آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایم ڈی آر ٹی بی کو خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ ایم ڈی آر ٹی بی کے وہ مریض ہوتے ہیں جن پر ٹی بی کی دوائی کااثر نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ایک ٹی بی کا مریض صحت یاب ہو کر گھر چلا جاتا ہے تو وہ گھر جا کر اپنی دیکھ بھال کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اس کا مسلسل علاج تقر یباً دو سال کاہوتا ہے۔ اگر وہ صحت یابی کے بعد گھر کے ان افراد میں چلا جاتا جن کو ٹی بی ہوتی ہے مگر ان کو چیک اپ نہیں کروایا ہوتا۔ تو اس پر دوبارہ ٹی بی کے جراثیم حملہ آور ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دوبارہ بیمار ہو جاتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب ڈاکٹر مریض کو چھ ماہ تک دوائی کھانے کی ہدایت کرتا ہے مگر وہ دوائی لینے ہسپتال نہیں آتا بلکہ گھر کے قریب کے عطائی ڈاکٹر سے دوائی لینے چلا جاتا ہے اور ڈاکٹر کو یہ بھی کہتا ہے کہ میری دوائی کم ہو سکتی ہے تو وہ مریض کو راضی کرنے کے لئے کہہ دیتا ہے کہ آپ فلاں دوائی نہ کھائیں یہ تو گرم ہے اس طرح جب مریض باقاعدگی سے دوائی نہیں کھاتااور مختلف ڈاکٹروں سے دوائی لے کر کھاتا رہتا ہے تو اس سے اس کا مرض بگڑ جاتا ہے۔ ٹی بی کنٹرول پروگرام ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں کے علاج‘ تشخیص اور ادویات کی مفت فراہمی مدد کر رہا ہے۔ اس کا ٹارگٹ ہے کہ2016 ء میں تک ٹی بی کے مریضوں کی تعداد میں 50 فیصد کمی لانی ہے یعنی 50 فیصد مریضوں کو صحت یاب بنانا ہے۔ الحمد اللہ ہم اپنے اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہو چکے ہیں۔ 2050ء تک پاکستان کو ٹی بی سے پاک کرنے کا ٹارگٹ ہے لیکن اس میں بھی دس لاکھ مریضوں میں سے ایک مریض ٹی بی کا ضرور ہو گا۔ اس وقت تو ایک لاکھ لوگوں میں 241 ٹی بی کے مریض ہیں۔ ہماری یہ خوش قسمتی ہے کہ ہمارے یہاں ٹی بی کے مریضوں میں (ایڈز) بہت کم ہے۔ ایڈز کی وجہ سے ٹی بی میں پیچیدگیاں باقی ممالک کی نسبت پاکستان میں بہت کم ہیں۔ پا کستان میں 3.5 فیصد ایم ڈی آر کے ایسے مریض ہیں جن میں ٹی بی ہوتی ہے اور جن مریضوں میں علاج کے بعد دوبارہ ٹی بی کے جراثیم حملہ آور ہوئے ہوتے ہیں وہ 32 فیصد ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ایسے مریض 13 ہزار کے قریب ہیں ایسے مریضوں کے علاج میں 24 سے 26 ماہ چاہئے ہوتے ہیں ان مریضوں کا علاج بہت مہنگا ہوتا ہے۔ اب پاکستان ’’ٹی بی ڈاٹ‘‘ پروگرام کے تحت ٹی بی کا علاج صرف چھ سے آٹھ ماہ میں مکمل کروایا جاتا ہے۔ علاج کے دوران مریض کو اچھی خوراک مثلاً دودھ‘ انڈے‘ مچھلی ‘ گوشت اور پھل وغیرہ دینا چاہئے۔ پر فضا اور پرسکون ماحول ٹی بی کے مریض کے علاج اور صحت یابی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ٹی بی کے علاج میں ایک سے زیادہ عموماً۔ 3۔4 ادویات بیک وقت استعمال کروائی جاتی ہیں۔ ٹی بی یعنی تپ دق سے مکمل نجات کے لئے ضروری ہے کہ دوا باقائدگی سے استعمال کی جائے اور چھ سے آٹھ ماہ کا کورس مکمل کروایا جائے۔