تحریر: سیف اللہ صدیقی احمد پور سیال
احمد پور سیال جوکہ ایک قدیم اور پرامن شہر ہے وہاں اپنے اندر بے شمارمسائل بھی سموئے ہوئے ہے۔انتظامیہ کی جانب سے آج تک شہر کی صفائی ستھرائی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ہر نئے آنے والے تحصیل میونسپل آفیسر نے بجائے شہر کی صفائی ستھرائی پر توجہ دینے یا شہر کا دورہ کرنے کے صرف اور صرف دفتر میں بیٹھنے اور پریس کلب سے دوستانہ تعلقات مستحکم کرنے پر توجہ دی تاکہ کوئی صحافی بھائی تحصیل میونسپل آفیسر اور اس کے ماتحت عملہ کی حسنِ کارکردگی کا پردہ چاک کرنے کی جسارت نہ کرسکے۔
۔شہر میں صفائی ستھرائی کا کوئی مناسب انتظام موجود نہیں ہے۔گزشتہ پندرہ بیس سال قبل بچھائی جانے والی سیوریج لائنیں خستہ حال ہوچکی ہیں ۔سیوریج لائنوں اور نالیوں کی بندش کی وجہ سے المدینہ کالونی ،،محلہ فاروق آباد،بستی عباس پور،،محلہ محمد یہ ،محبوب کالونی،محلہ نجف آباد،محلہ امیر پور،بستی میانی جنوبی،بستی میانی شمالی، محلہ گلزار والا، محلہ سعید آباد،محلہ شمس آبادکی ہراک گلی اور چوراہیں سیوریج کے گندے پانی میں مکمل طور پر ڈوب چکی ہیں جب کہ گورنمنٹ ہائی سکول بوائزاینڈ گرلزروڈاور تحصیل ہیڈ کواٹروالی سڑک پر بھی کالے پانی کا راج ہے ان گلی محلوں اور سڑکوں پرواقع خالی پلاٹ مکمل طور پر گندے پانی کے تالابوں میں تبدیل ہوچکے ہیں جو کہ مچھروں کی افزائش نسل میں معاون ثابت ہوکر ملیریااور ڈینگی جیسے موذی امراض کا باعث بن رہے ہیں یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ شہر کے تمام کونسلروں کے گھروں کے ارد گرد بھی سیوریج کا پانی دکھائی دیتا ہے اور ان میں سے اکثر کونسلروں کا تعلق بھی حکمران جماعت سے ہے جس کی وجہ سے عوام میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے کہ ان کے ووٹوں سے منتخب عوامی نمائندے تو خود مسائل کا شکار نظر آتے ہیں تو وہ عوام کے مسائل حل کروانے میں کس طرح معاون ثابت ہوں گے۔پورے شہر کا آلودہ پانی کنڑول کرنے کے لئے قائم اکلوتا ڈسپوزل سینٹر بھی موٹریں خراب ہونے کی وجہ سے اکثر بند رہے جبکہ بارش کے دنوں میں ڈسپوزل سینٹر چالو کرنے کے لئے بجلی کاصبر آزما انتظار کرنا پڑتا ہے اتنے میں بارش کا پانی مکانوں کی بنیادوں میں سرایت کرجاتا ہے۔جبکہ بجلی کی بندش تو درکنار بجلی کی موجودگی میں بھی کئی کئی روز تک واٹر سپلائی بند رہتی ہے جنریٹرکے تیل کی خریداری کے نام پر حکومت کوماہانہ لاکھوں کا ٹیکہ لگایا جارہا ہے واٹرسپلائی کی پائپ لائنزانتہائی ناقص ہوچکی ہے جس کے باعث اکثر اوقات سیوریج کا آلودہ پانی واٹر سپلائی کی پائپ میں شامل ہو جاتا ہے اور شہری آلودہ اور مضر صحت پانی پینے پر مجبورہیں ۔جس کی وجہ سے شہری گلے اور پیٹ سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔جبکہ قصاب حضرات مرغیوں کی آلائشیں اور گوشت دھلا پانی سڑکوں پر ہی انڈیل دیتے ہیں جنہیں حتٰی کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔دوسری جانب قبرستانوں میں سیوریج کا گندا پانی چھوڑنے اور مٹی اٹھانے کا سلسلہ بھی جاری ہے اور خستہ حال قبریں اپنے اندر مدفون مردوں کے شکوے اس حال میں بیان کرتی نظر آتی ہیں کہ
دنیا سے چین نہ پایا تو مرجائیں گے
مر کر بھی چین نہ پایا تو کہاں جائیں گے
صفائی کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے ہر سال کوڑے کرکٹ کے لئے لاکھوں روپوں کے کنٹینر ،ڈرم اور ہتھ ریڑھیاں،مشینری اور دیگر آلات کی فراہمی کی جاتی ہے ۔جس میں سے تھوڑے بہت کنٹینرز اور ڈرموں کی تنصیب کی جاتی ہے جنہیں کبھی بھی خالی کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی ہے تاکہ فل ہوجانے کے بعد ان سے گرنے والا کوڑا کرکٹ شاہرات اور گلی کوچوں کی خوبصورتی کو چارچاندلگانے میں معاون ثابت ہو،حالانکہ اس مقصد کے لئے کروڑوں کی لاگت سے فلتھ ڈپوتعمیر کیا گیا ہے جس کے نام پر گاڑیاں ،ان کا ڈیزل اور فرسودگی الاأنس بھی حکومت سے حاصل کیا جاتا ہے۔ جب کہ چھوٹے گلی کوچوں کو کوڑے کرکٹ سے پاک رکھنے کے مقصد کی خاطر مہیا کی جانے والی ریڑھیاں سڑکوں پر کھلی چھوڑ دی گئیں تاکہ جب نشئیوں پر برا وقت آن پڑے تو وہ انہیں فروخت کر کے باآسانی ایندھن خرید کر اپنی قوت مدافعت کو برقرار رکھ سکیں۔اکثر سامان ٹی ایم اے دفتر کی زینت بنا رہتا ہے جو کہ نئے بجٹ اور نئے سامان کی فراہمی پر ٹی ایم اے عملہ کے لئے بونس کا کام دیتا ہے اور خاکروب بھی ڈیوٹی کے دورانیے میں پرائیویٹ اداروں اور ڈیروں میں ملازمتیں کرتے ہیں یا پھرمزے سے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں یوں وہ بھی افسران کے ساتھ مل کر مفت میں تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔سڑکوں کی صفائی کے لئے مشینری بھی موجود ہے جبکہ نام نہاد گرین بیلٹ میں لگائے جانے والے پودوں کو پانی کی فراہمی کے لئے پانی کی ٹینکی بھی موجود ہے مگر کبھی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ پودوں جیسی جاندار مخلوق کو پانی لگا کر انہیں تروتازہ رکھ کر شاہرات کی خوبصورتی میں اضافہ کیا جاسکے یا پھر سڑکوں کو صاف کیا جاسکے صفائی نہ ہونے کے باعث سڑکیں مٹی میں دب چکی ہیں اور ان کا کوئی کنارہ نظر نہیں آتاجیسے وہ سڑکوں کی بجائے کسی دیہات کی سولنگ ہوں ۔
دوسری جانب اگر سینٹری انسپیکٹر”مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے” کے تحت کام کرنے کے عادی ہوچکے ہیں ان سے کسی سیوریج لائن کی صفائی کی درخوست کی جائے تو وہ سیوریج لائن کی صفائی کو تیل ،عملہ اور بانسوں کے معاوضہ سے مشروط کردیتے ہیں حتیٰ کے مساجد کے باہر بھی گندا پانی کھڑا رہتا ہے جسے نکلوانے کے لئے بھی سینڑی انسپیکٹرنوٹوں کا مطالبہ کرتے ہیں ان کا موقف لینے کی کوشش کی جائے تو نہایت ہی احسن انداز میں جواب دیتے ہیں کہ حکومت فنڈز مہیا نہیں کررہی کہ سیوریج کی صفائی کے لئے سامان کی خریداری عمل میں لائی جائے اورصفائی والے عملے کی بھی کمی ہے لہٰذا آپ لوگ مہذب شہری ہونے اورفراخدلی کا ثبوت دیتے ہوئے جذبہ خیرسگالی کے تحت معاوضہ کی ادائیگی کردیں تاکہ آپ کی شکایت کا ازالہ کیا جاسکے۔
۔اور قبضہ مافیا حکومتِ وقت کے نمائندوں کی قد آورتصاویز آویزاں کر نے کے ساتھ ساتھ دیگرخوشامد میں ہمہ وقت پیش پیش نظر آتے ہیں تاکہ تجاوزات کے خلاف آپریشن یا قانونی کاروائی جیسا بُرا وقت آنے پر وہ حکومتی نمائندوں کو اپنے ووٹوں اور سیاسی سپورٹ کا احساس دلا ئیں اور ان کی دخل اندازی سے وہ آپریشن یا قانونی کاروائی سے بچ سکیں ۔ پل نجف چوک چاند گاڑی سٹینڈ میں جبکہ فاروق اعظمؓ روڈ مدرسہ جامعہ غدیر چوک سے آگے رکشہ سٹینڈ اور کلمہ احمد پور موڑچوک لاری اڈوں میں تبدیل ہوچکے ہیں لاکھوں کی لاگت سے تعمیر ہونے والا جنرل اسٹینڈانتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث کھنڈرات میں تبدیل ہوکرنشیؤں کی آماجگاہ اوربکرمنڈی بن چکا ہے جنرل اسٹینڈمیں تعمیر کردہ انتظار گاہیں اوردکانیں لیٹرینوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔علاوہ ازیں مدرسہ جامعہ غدیر چوک اور فاروق اعظمؓ روڈ سے میو چوک تک دن بھرخوانچہ فروشوں، پھل فروشوں ،سبزی فروشوں کا رش رہتاہے جبکہ سرِشام ہی پرانا لاری اڈا سے پل نجف چوک تک کھانے پینے کی اشیاء کے سٹال کے ساتھ ساتھ میز کرسیاں لگادیں جاتی ہیں جن کی وجہ سے ٹریفک تو درکنار پیدل چلنا بھی محال ہوجاتا ہے جبکہ آئے روز حادثات بھی جنم لیتے رہتے ہیں۔ سمندوآنہ روڈ،پرانا مین بازارروڈ ،میو چوک ،فاروق اعظمؓ روڈ اپنی اصلی حالت میں نظر نہیں آتے کیوں کہ ان سڑکوں پر دکاندار ، خوانچہ فروش اور چاندگاڑیاں قابض ہیں ۔دکاندار سڑک کے دونوں کناروں تک سامان لگا لیتے ہیں جبکہ گاہکوں کو اپنی اپنی سواریاں مجبوراً سڑک پر ہی کھڑی کرنا پڑتی ہیں ٹریفک کی آمدورفت کے دوران بعض اوقات خریداری کے لئے آنے والے حضرات کی گاڑیاں بھی حادثات کا شکار ہوجاتی ہیں ،پرانا مین بازار روڈ ،فاروق اعظمؓ روڈ روڈپر قبضہ مافیا کا راج اور انتظامیہ کی خاموشی یہ ثابت کرتے ہیں کہ جس طرح تعمیر کے بعد سڑک ہٰذا کوبطریقِ احسن قبضہ مافیا کے حضور تحفتاً پیش کیا گیا ہو۔اندرون بازار بھی دکانداروں نے چبوترے بنا کر مختلف اشیاء کے اسٹال لگا کر بازاریں تنگ کررکھی ہیں جس کی وجہ سے گلیوں اور دکانات میں بھی تمیز کرنا محال ہوچکا ہے جن کے باعث راہگیروں خصوصاً شاپنگ کے لئے آئی خواتین کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور آئے روز لڑائی جھگڑے معمول بن چکے ہیں ۔
مسائل میں گھِرے شہری ان تمام سوالوں کے جوابات کے منتظر ہیں کہ سرکاری ملازمین کوان کے ٹیکسوں کے پیسہ سے دی جانے والی تنخواہیں ناکافی ہیں کہ وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے عوام کو فراہم کی جانے والی سہولیات کا استحصال کرکے شہریوں کو سلگتے مسائل میں تڑپا رہے ہیں۔انہوں نے ایسا کونسا گھناؤنا جرم کرلیا ہے کہ سیوریج کا نظام درست کرنے کی بجائے اس وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے کہ جب سیوریج کا پانی ان کی عمارتوں کی بنیادوں میں اس قدر سرایت کرجائے کہ وہ گر کر کسی جانی ومالی نقصان کا سبب بنے۔انہوں نے ایسے کون سے شجرِ ممنوعہ کا پھل کھا لیا ہے کہ جس کی سزا دینے کے لئے انہیں سیوریج ملا آلودہ پانی پِلا کر موذی امراض میں مبتلا کیا جارہاہے ۔غریبوں نے بوجہ غربت حکومتی نمائندوں کی قدآور تصاویر آویزاں نہ کرکے ایساکون سا اقبالِ جرم کرلیا ہے کہ سر چھپانے کے لئے سرکاری ارضی میں چھوٹا سا ایک عارضی کمرہ تعمیر کر لیں تو تجاوزات کے نام پر گِرا دیا جاتا ہے اور اسے نسل در نسل قانونی کاروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ امراء نے اربوں کی سرکاری اراضی پر پختہ تعمیرات کر رکھی ہیں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ انہوں نے اس دنیا میں آکر ایسی کون سی خطا سرزد کرلی کہ ان کے رہائشی علاقے کوڑے کے ڈھیروں اور گندے پانی کے تالابوں میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔وہ شاہرات اور چوراہوں پر آکر ایسا کون سا خلافِ قانون کام کرتے ہیں کہ شاہرات اور چوراہیں قبضہ مافیا کے حوالے کردی جاتی ہیں کہ وہ آئندہ کبھی گھر سے باہر نکلنے کی جرات نہ کریں۔