تحریر۔۔۔ ڈاکٹر بی اے خرم
یوم تجدید یعنی 23مارچ کے ٹھیک ایک ہی دن بعد بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے بھارتی حاضر سروس ’’را‘‘ کاآفیسر بھوشن یادیو جو بھارتی نیوی کا ملاز م ہے کو گرفتار کیا گیا را ایجنٹ بلوچستان میں دہشت گردوں کی تربیت کرکے دہشت گردوں کی کاروائیوں کی نگرانی کرتا تھا بھارتی راایجنٹ کی گرفتاری کے تین دن بعدزندہ دلان شہر لاہور میں قیاقت صغریٰ برپا کر دی گئی معصوم بچوں، خواتین اور پر امن نہتے شہریوں کو سماج دشمن عناصرنے اپنی بزدلانہ کاروائی کے لئے سوچی سمجھی اور نہایت منصوبہ بندی سے اس روز کا انتخاب کیا جب مسیحیوں کے تہوار ایسٹر اور اتوار کی تعطیل ہونے کی وجہ سے گلشن اقبال پارک میں معمول سے زیادہ رش تھاآٹھ سے دس ہزار افراد موجود تھے گلشن اقبال پارک میں اتوار کے روز بھی رش ہوتا ہے تاہم ایسٹر کا تہوار ہونے کی وجہ سے گزشتہ روز غیر معمولی رش تھا ۔بڑی تعداد میں فیملیاں اپنے بچوں کے ہمراہ سیر و تفریح کیلئے گلشن اقبال پارک میں آئی ہوئی تھیں کہ زور دار دھماکہ ہوگیا ۔گلشن اقبال پارک میں ہونے والے دھماکے کی آواز کئی کلو میٹر دور تک سنی گئی ۔خودکش دھماکہ اس قدر زور دار تھا کہ گلشن اقبال پارک کے قرب و جوار میں موجود عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور لوگ گھبرا کر گھروں سے باہر نکل آئے دھماکے کی زور دار آواز سننے کے بعد اطراف کے علاقوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور لوگ خوف کے عالم میں گھروں سے باہر نکل کر ایک دوسرے سے آگاہی حاصل کرتے رہے۔گلشن اقبال پارک میں خود کش بم دھماکے میں 20کلو سے زائد بارودی مواد استعمال ہونے کے باوجود یہ امر حیران کن ہے کہ اس خودکش بمبار کا دھڑ او ر چہرہ سلامت رہا جسے بعدازاں یوسف ولد غلام فرید کے نام سے شناخت کیا گیا ہے یوسف مظفر گڑھ کا رہائشی تھا اور اس کا والد سبزی فروش ہے را ایجنٹ کی گرفتاری اور اعتراف جرم سے ظاہر ہوتاہے کہ پاکستان میں ہونے والے تمام دہشت گردی کے واقعات میں بھارت براہ راست ملوث ہے اقوام متحدہ اور امریکہ سمیت تمام عالمی طاقتوں کو اس بات کا نوٹس لینا چاہئے کہ دہشت گردپاکستان نہیں بلکہ کوئی اور ہے ۔۔۔ہمارے وطن کی پاک سر زمین سے کس ملک کے ایجنٹ گرفتار ہوتے ہیں ۔۔؟ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی۔دھماکے سے کچھ ہی دیر بعد ’’مودی سرکار‘‘ نے وزیراعظم سے فون پہ بات کرتے ہوئے ’’ مگر مچھ‘‘ کے آنسو بہائے جھوٹی تسلی دیتے وقت نریندر مودی بھارتی را ایجنٹ کی گرفتاری بھول گئے ۔۔۔؟
گلشن اقبال پارک کے قریب خودکش دھماکے کے نتیجے میں 72 افراد جاں بحق اور 300 سے زائد زخمی ہوئے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے اس سانحہ میں سانگھڑ سندھ سے سیر کے لئے آئے ہوئے ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد بھی لقمہ اجل بن گئے دھماکے کے بعد امدادی ٹیموں نے فوری طور پر موقع پر پہنچ کر زخمیوں کو فاروق اور شیخ زید اسپتال منتقل کردیا زخمیوں میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے دوسری جانب دھماکے کے بعد شہر بھرکے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی جب کہ جائے وقوعہ پر پولیس کی بھاری نفری نے پہنچ کر علاقے کو گھیرے میں لیا اور شواہد اکٹھے کئے گلشن اقبال پارک کا کنٹرول پاک فوج نے سنبھالتے ہوئے ریسکیو آپریشن شروع کیاجب کہ ملٹری پولیس کے دستوں نے بھی پارک کو گھیرے میں لیا۔ گلشن اقبال پارک میں دھماکے کے بعد پولیس نے جائے وقوعہ کے قریب سے تین مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ۔ ذرائع کے مطابق تینوں افراد کو مشکوک جانتے ہوئے حراست میں لے کر تفتیش کے لئے متعلقہ تھانے منتقل کر دیا گیا ۔عینی شاہدین کے مطابق ایک مشکوک شخص جس کی عمر 20 سے 25 سال کے درمیان تھی اور اس کا رنگ گندمی تھا پارکنگ ایریا میں پھر رہا تھا اور وہیں دھماکا ہواگلشن اقبال پارک میں دھماکے کے بعد تمام سرکاری ہسپتالوں میں ایمر جنسی نافذ کر دی گئی ،چھٹی کرکے گھروں کو جانے والے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو دوبارہ ڈیوٹی پر بلا لیا گیا
علامہ اقبال ٹاؤن کے گلشن اقبال پارک میں دھماکے کی اطلاع ملتے ہی سیر کیلئے آنے والوں کے اہل خانہ اور عزیز وا قارب اپنے پیاروں کی تلاش کیلئے جائے وقوعہ کی طرف دوڑ پڑے ،دھماکے کی جگہ پر ہر طرف خون ہی خون دیکھ کر دو خواتین بیہوش ہو گئیں ،تلاش کے لئے آنے والے ہسپتالوں میں اپنے پیاروں کی لاشیں لاشیں اور زخمی حالت میں دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر روتے رہے جس سے انتہائی رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے دھماکے کی اطلاع ملتے ہی سیر کیلئے آنے والوں کے گھروں میں موجود اہل خانہ اور عزیز و اقارب غم کے عالم میں جائے وقوعہ پر پہنچے اور وہاں پر ہر طرف خون ہی خون دیکھ کر کئی افراد کی حالت غیر ہو گئی ۔ اپنے پیاروں کی تلاش کے لئے آنے والی دو خو اتین بیہوش ہو گئیں جنہیں ریسکیو 1122نے طبی امداد دی ۔ جائے وقوعہ پر اپنے پیاروں کے نہ ملنے پر ایک بڑی تعداد ہسپتالوں پہنچ گئی جسکی وجہ سے ہسپتالوں میں رش انتہائی بڑھ گیا ۔دھماکے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے رشتہ دار ایک دوسرے سے گلے لگ کر اور دھاڑیں مار مار کر روتے رہے جسکی وجہ سے انتہائی رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے ۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے صدر پاکستان ممنون حسین کو ٹیلی فون کیا اور لاہور واقعہ کی شدید مذمت کی۔انہوں نے ترکی کی حکومت اور عوام کی جانب سے حکومت پاکستان سے یکجہتی اظہار کیا اور کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں اپنے پاکستانی بہن بہائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکی کو مشترکہ طور پر دہشت گردی کا چیلنج درپیش ہے جس کے خاتمے کیلئے دونوں ممالک کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر مملکت، وزیراعظم نوازشریف،عمران خان، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف، سینیٹر سراج الحق ڈاکٹر طاہر القادری ،گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ ،اسپیکر قومی اسمبلی سردار صادق ایاز،صوبائی اور وفاقی وزرا سمیت مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افرادنے لاہور میں دہشت گردی حملے کی مذمت کی پنجاب حکومت نے تین دن اور سندھ حکومت نے ایک دن سوگ کا اعلان کیا دھماکے کے اگلے روز ملک بھر کے پرائیویٹ تعلیمی ادارے بند رہے پاکستان بار کونسل نے ملک بھر میں بطور احتجاج ہڑتال کی،تاجر برادری نے سانحہ گلشن کی مذمت کرتے ہوئے اپنے کاروباری مراکز بند رکھے
سماج دشمن عناصر نے ہمارے گلشن کو اجاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی سوچنے کی بات یہ ہے جہاں دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد حاصل کر رہے تھے وہاں حکمران خواب غفلت سے بیدا ر کیوں نہیں ہوئے کیا پاکستان کے ہر شہری کی جان و مال کو محفوظ بنا نا حکومت کی ذمہ داری نہیں۔۔؟سکولوں کے بعد اب پارک بھی غیر محفوظ ہو گئے،قیمتی جانوں کے ضیاع کے ذمہ دار نا اہل حکمران ہیں دہشتگردی کے واقعہ سے حکمرانوں کے عوام کے جان و مال کے تحفظ کے فول پروف انتظامات کے دعوے بے نقاب ہو ئے ہیں تفریحی پارک میں دھماکہ اور قیمتی جانوں کا ضیاع حکمرانوں کی نا اہلی کا کھلا ثبوت ہے اگر حکمران شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کا احسن طریقہ سے بندوبست کرتی تو لاہور میں قیامت صغریٰ کے مناظر دیکھنے کو ملتے اور نہ ہی گھروں میں صفِ ماتم بچھتی۔