کرکٹ ایک ایسا کھیل ہے جس سے ہر ایک کو محبت ہے ۔ اس کھیل سے محبت میں نہ عمر کی حد ہے اور نہ ہی جنس کی۔یہ کھیل تقریباًدنیا کے ہر کونے میں کھیلا جارہا ہے ۔کرکٹ کے اس کھیل کوکنٹرو ل کرنے کے لیے آئی سی سی بنائی گئی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی سی سی تمام ملکوں کے لیے قابل قبول ادارہ ہے مگر اس سے بھی آپ لوگ اتفاق کریں گے کہ یہ ادارہ اپنے فرائض منصبی احس طریقے سے چلانے میں کامیاب نہیں ۔ اس میں بھی اجارہ داری چل رہی ہے ۔پچھلے دنوں بننے والی بگ تھری کا حال آپ سب کے سامنے ہے۔ کرکٹ ایک کھیل ہے اور کھیل کو ہمیشہ کھیل ہی رہنا چاہیے ناکہ اس میں گروپ بندی کرکے اس پر قبضہ کرلینا چاہیے۔
پاکستان میں کرکٹ کے کھیل کو لوگ جنون کی حدتک چاہتے ہیں۔ اس کھیل سے محبت کا اظہارکا اندازہ اسطرح سے لگایا جاسکتا ہے کہ بہت سے کمزور دل حضرات پاکستان کی ہار (بالخصوص بھارت سے) پراپنی جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں۔پاکستان میں کرکٹ کے فروغ کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ بنا ہوا ہے۔ اس بورڈ کی تعریف کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ کا ذخیرہ نہیں۔ میں نے کرکٹ بورڈکو کرکٹ کے فروغ کے لیے کم اور پیسہ بنانے میں زیادہ مصروف پایا ہے۔ضلعی لیول سے لیکر پاکستان تک اس بورڈ سے منسلک لوگوں کوفنڈ کھانے کا علم ہے مگر کرکٹ کی الف ب بھی معلوم نہیں۔
ٹی ٹونٹی ورلڈکپ 2016کی تیاری ایک سال سے بڑے زوروشور سے جاری تھی۔ ہر سیریز کے اختتام پر ہمیں یہ ہی فقرے سننے کو ملتے کہ ہم ٹی ٹونٹی ورلڈکپ کی تیاری کررہے ہیں۔ ٹی ٹونٹی ورلڈکپ ابھی جاری ہے مگر ہماری عمدہ تیاری کی وجہ سے ہماری ٹیم نے اپنے سفر کا اختتام کرکے گھر کا ٹکٹ کٹوا لیا ہے۔ اس ورلڈکپ میں پاکستان کی کارکردگی پر اگر میں انفرادی شخصیت پر لکھوں تو شاید میرا کالم اتنا طویل ہوجائے گا کہ ایڈیٹوریل انچارج پبلش بھی نہ کریں۔پاکستان اپنے چار میچوں میں سے صرف ایک میچ جیت سکی۔ بھارت کے میچ کا چرچا ایسا ہورہا تھا جیسے پاک بھارت جنگ ہونے جارہی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں بھی پاک بھارت میچ جنگ ہی لگ رہا تھا کیونکہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے اور اس سے شکست ہمیں اچھی نہیں لگتی۔ اگر ہم ورلڈکپ کے پچھلے ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو پاکستان آج تک کسی بھی فارمیٹ کے ورلڈکپ میں بھارت سے نہیں جیت سکا۔
پاکستان کی ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں شکست کی بنیاد اسی دن رکھی گئی جس دن پاکستان نے بھارت سے شکست کھائی کیونکہ اسی دن پاکستان کی ٹیم میں گروپ بندی ہوگئی۔ گروپ بندی کی ایک وجہ تو یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ وہ ابھی ریٹائرمنٹ نہیں لے رہے۔ جس کی وجہ سے وہ لوگ جو آفریدی کے جانے کے بعد اپنی حکومت دیکھ رہے تھے ان کے دل کے ارمان آنسو میں بہہ گئے اور انہوں نے ٹیم میں انتشار شروع کرادیا۔ اس کے بعد رہی سہی کسر عمراکمل اور عمران خان کی اس گفتگو نہ کردی جس کا چرچا سوشل میڈیا پر ہے کہ عمراکمل نے خانصاحب سے کہا کہ وہ سفارش کریں کے مجھے اوپر کے نمبر پر کھیلایا جائے۔ ہم ہی نہیں دنیا مانتی ہے کہ عمران خان ایک لیجنڈ کھلاڑی ہیں مگر اس طرح سفارش کرکے کسی پلئیر کو اوپر لانا نہ تو خانصاحب کو زیب دیتا تھا اور نہ ہی ٹیم مینجمنٹ کو۔ رہی سہی کسر ہمارے چئیرمین نے یہ بیان دیکر پوری کردی کہ پاکستانی ٹیم سے زیادہ توقع نہ رکھی جائیں۔کوئی شہریار صاحب سے پوچھے تو پھر اتنا عرصہ جو ورلڈکپ کے لیے تیاری کی کیا وہ جھک ماررہے تھے۔ تیاری کے نام عوام پرعوام کا لاکھوں روپیہ کیوں ضائع کیا؟افسو س کا مقام تویہ ہے کہ ٹیم کے کوچ وقار یونس جو کرکٹ کے میدان میں اپنا مقام آپ رکھتے ہیں وہ اس طرح کانفرنس کررہے تھے جیسے اپنے گھر میں لڑ رہے ہوں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کیاعمراکمل اوپر کے نمبر کھیلنے کے لیے اپنی مرضی سے بلا اٹھا کر آگیا تھا ؟ پھر کرکٹ کوچوں کی ٹیم اور کپتان کا ٹیم میں کیا کردارہے؟
کھیل کو کھیل سمجھ کرکھیلنا چاہیے نا کہ اس کو دشمن کے گھر میں بیٹھ کر تماشا بنانا چاہیے۔ میری سمجھ سے باہر کے کرکٹ بورڈ کے چئیرمین اور ٹیم مینجمنٹ صرف اپنی تنخواہیں پکی کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔اگر کھلاڑی ان کے کنٹرول میں نہیں تو پھر انہیں سلیکٹ کس نے کرایا؟ہر شکست کے بعد کپتان کوالزام دینا اچھی روایت نہیں۔ نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں توصاف معلوم ہورہا تھا کہ یہ میچورکرکٹ نہیں بلکہ محلے کے بچوں کی کرکٹ ہورہی ہے۔ جس کا جو دل چاہا وہ کردارادا کرکے اپنے گھر کو بھاگ لیا۔ ہماری ناقص اطلاع کے مطابق معلوم ہوا کہ جس وقت شرجیل خان نے جیت کی بنیاد رکھی اور ان کے آؤٹ ہونے کے بعد بیٹنگ کے لیے شعیب ملک کو بھیجا جارہا تھا اور ایک سنئیر کھلاڑی ہونے کے ناطے اور میچ کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے یہ ایک اچھا فیصلہ تھا مگر شعیب ملک نے اس پوزیشن پر کھیلنے سے انکار کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان جو ابھی سیمی فائنل کی دوڑ میں تھا اس کو گھسیٹ کر باہر نکلوادیا۔
مجھے حیرت ہے ایسے تبصرے نگاروں پر جو صرف الٹا سیدھا بول کر اپنی ’’دھاڑی‘‘ پکی کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ ہمارے انتہائی محترم سابق فاسٹ باولر سکندربخت صاحب ایک نجی چینل پر بڑے زور وشور سے تبصرے کررہے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں جوان کے دل میں آیا بول دیا۔ موصوف بتا سکتے ہیں کہ کیاپاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی کپتان تمام فیصلے کرنے کا مجاز تھا؟ سکو بھائی کے بقول ٹیم سلیکشن میں بھی سفارش اور پسند ناپسند چلتی ہے۔ سکو بھائی خود بھی سلیکشن کمیٹی میں رہ چکے ہیں کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے میرٹ کے سامنے سرجھکایا یا سفارش کے؟ چینل پر بیٹھ کر باتیں کرنا بہت آسان ہے کیوں کہ وہ دو تین افراد سے زیادہ نہیں مگر عملی میدان میں کام کرنا دل گردے کا کام ہے۔
آج جب آخری میچ میں پاکستان کو آسٹریلیا سے شکست ہوئی تو آفریدی کی نم آنکھیں دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا ۔لوگوں نے اسی وقت سوشل میڈیا پر لکھنا شروع کردیا کہ آفریدی کو ڈراموں میں کام کرنا چاہیے مگر ایسے کم ظرف لوگوں کو کون سمجھائے کہ آفریدی جیسا ہیرا صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔پاکستان میں روایت ہے کہ وہ اپنے ہیروں کے ساتھ ناروا سلوک کرکے نکالتی ہے۔ میانداد، انضمام الحق سمیت کئی ہیرو ایسے ہیں جو کرکٹ کے میدان سے بڑی بے رخی سے نکالے گئے۔ لگتا ایسا ہی ہے کہ اب آفریدی کے ساتھ بھی ایسا سلوک کیا جانے والا ہے۔ میری اور پاکستانی عوام کی وزیراعظم پاکستان سے درخواست ہے کہ اگر پاکستان میں کرکٹ کا مستقبل روشن کرنا ہے تو پھر سیٹھی، شہریار، ہارون رشید، شفیق پاپا اور ایسے دوسرے لوگوں سے ان چھوڑائیں اور وسیم اکرم ، عبدالقادر، میانداداور عمران خان جیسے ہیروں سے مستفید ہوں ورنہ ہر ورلڈکپ کے بعد اسی طرح کے ڈرامے دیکھنے کو ملیں گے۔