ایک مشہور کہاوت ہے کہ بلی کے پاؤں جلے تو اسنے اپنے بچے پاؤں تلے مسل دئیے ۔کچھ ہی وقت پہلے انڈیا میں واقع پٹھان کوٹ ائیر بیس پر بم دھماکہ ہوا جسکا الزام پاکستان پر لگایا گیا اور پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے جوابی بیان میں کہا کہ پاکستان اسکی تحقیقات کروائے گا ۔اسی تحقیقات کے ذمرے میں پاکستان کے سپیشل آفیسرز انڈیا گئے اور وہاں موقع واردات کا جائزہ لیا جس میں انڈین تحقیقاتی ٹیم بھی انکی معاونت کر رہی ہے۔لیکن پاکستانی ٹیم کے وہاں پہنچنے سے پہلے انڈیا کی جانب سے جو شرائط رکھی گئیں وہ یہ تھیں کہ پاکستانی تحقیقاتی ٹیم صرف جائے دھماکہ اور اسکے عینی شاہدین سے سوال پوچھ سکتے ہیں اور موقع کی جانچ پڑتا ل کروا سکتے ہیں لیکن کسی بھی سرکاری ادارے یا افسروں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔اس کے بعد جب ٹیم وہاں انڈین تحقیقاتی ٹیم سے ملی تو انکے سامنے انڈین تحقیقاتی ٹیم نے شرائط رکھیں کہ وہ ہمارے ساتھ تحقیقات میں مکمل تعاون کریں گے اور ہر ممکن رسائی دلوائیں گے لیکن جب انکی تحقیقاتی ٹیم پاکستان آئے تو انہیں بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو تک اور دو کالعدم تنظیم کے عہدیداروں تک بھی رسائی دی جائے ۔ادھر ساتھ ہی انڈین میڈیا نے بڑے سنسنی خیز انکشافات اور تابڑ توڑ نیوز عوام تک پہنچائی کہ کل بھوشن یادیو نے پہلا پاسپورٹ انڈین شہر پونے اور دوسرا ممبئی سے بنوایا،پاسپورٹ پر ایڈریس اسکی ماں کے فلیٹ کا ہے اور خود کو مسلمان تاجر بتاتا تھا اور اپنے دوست کو حکومتی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا بتایا تھا ، چاہ بہار میں ،،را،،تعمیرات اور جہاز رانی کے ذریعے معلومات خریدتی ہے۔ اس سے پہلے نریندر مودی بھی پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں ،،را ،، کے ملوث ہونے سے انکار کر چکے ہیں جبکہ کلبھوشن یا دیو نے اپنے ویڈیو بیان میں یہ سب تسلیم کیا ہے کہ اس کا واضح مقصد پاکستان کے استحکام امن کو خراب رکھنا تھا۔اس کی معلومات پر پاکستان میں موجود دیگر ،،را ،، ایجنٹ بھی گرفتار کر لئے گئے ہیں اور باقی کیلئے بھی تلاش جاری ہے ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اقوام متحدہ کی جانب سے ابھی تک اس بات کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا اور باراک اوباما کا بیان آتا ہے کہ اسے امید ہے پاکستان دہشتگردی کے خلاف جنگ ضرور جیت جائے گا لیکن وہ دہشتگردی کرنے والوں پر پریشر کیوں نہیں ڈالتے یا انکے لئے بیان کیوں نہیں دیتے کو وہ اپنے ناپاک ارادے ترک کر دیں اور خطے کے ساتھ ساتھ دنیا میں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنائے؟ جو جنگ ہماری ہے ہی نہی بلکہ ہم دنیا کیلئے قربانی دے رہے ہیں کہ ہماری قربانی سے اگر دنیا میں امن پیدا ہو جائے تو اس سے بڑا جہاد اور نیکی کوئی نہیں ۔جب انیس صد اکہتر میں پاکستان نے جنگ شروع کی تو اقوام متحدہ کے پریشر سے جنگ بندی کرنی پڑی لیکن انڈیا نے دھوکے اور بنیا والے رویے کو برقرار رکھتے ہوئے کئی پاکستانی نو جوان شہید کر دئے لیکن ان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا ۔پیپلز پارٹی کی دور حکومت اور حاضر دور حکومت کے شروع میں انڈیا نے کئی بار سرحدی قانون کو تار تار کیا اور سرحدوں پر گولیاں برسائیں اور بم پھینکے جس سے کافی جانی اور مالی نقصان ہوا لیکن پھر بھی پریشر پاکستان پر ڈالا گیا ۔انڈیا میں کہیں کچھ ہو جائے تو پاکستان کرواتا ہے یہاں تک کہ اگر پاکستان کی سرحدی علاقے سے کوئی پرندہ بھی انڈیا میں اڑتے ہوئے داخل ہو جائے تو وہ بھی پاکستانی جاسوس اور دہشتگرد کہلاتا ہے؟اور اقوام متحدہ کی جانب سے پھر بھی جواب پاکستان سے طلب کیا جاتا ہے ۔سندھ طاس معاہدے کی انڈیا ابھی تک خلاف ورزی کر رہا ہے لیکن کوئی اسکو پوچھنے والا نہیں کیا انڈیا تمام اخلاقی اور قانونی طور پر ہر لحاظ سے مستثنیٰ ہے ؟پاکستان میں دہشتگردی پاکستانی یا مسلمان نہیں کر رہے بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا پاکستان اور اسلام کے ساتھ دور دور تک کوئی رشتہ نہیں لیکن پھر بھی پاکستانیوں کو اور مسلمانوں کو دنیا کے ہر کونے میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کوئی یہ اخلاقی جرأت کیوں نہیں کرتا کہ پاکستان ہی ہے جو سب کی بقاء کیلئے بغیر کسی تعصب کے جنگ لڑ رہا ہے؟ان لوگوں نے ہمارے نبی ﷺ کی سنتوں کی شان میں گستاخی کر رکھی ہے کہ ان کی وجہ سے آج ہماری داڑھی جو مسلمانوں کی پہچان ہے کو بدنام کر دیا ہے کیونکہ جو بھی دہشتگرد پکڑا جاتا ہے اس نے لمبی داڑھی رکھی ہوتی ہے خواہ انڈیا ہر دور میں ہر وقت پاکستان کے ساتھ جنگ میں مشغول ہے لیکن عالمی برادری نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔جیسے جیسے بھارتی دہشتگردوں کا نیٹ ورک پکڑا جارہا ہے ویسے ہی انڈیا کی جانب سے ان لوگوں لے ساتھ لا تعلقی کی مختلف اشکال میں مختلف دلیلیں سامنے آ رہی ہیں ۔کبھی وہ کلبھوشن یادیو تک رسائی کی ڈیمانڈ کرتے ہیں تو کبھی اسکو جرائم پیشہ دہشتگر د مسلمان تاجر بنا دیتے ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اس را ایجنٹ کے خلاف پاکستانی آئین و قانون کے تحت کڑی سے کڑی سزا دیتی ہے یا اسے انڈین حکومت کے حوالے کرتی ہے؟ کیونکہ انڈین میڈیا کی جانب سے اسے جعلی پاسپورٹ بنوانے کے گناہ کا مرتکب قرار دے دیا گیا ہے۔