تحریر۔۔۔ ڈاکٹر بی اے خرم
پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم قائد عوام کے نام سے پہچانے جانے والے ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928 ء کوسر شاہنواز بھٹو کے گھر لاڑکانہ سندھ میں پیدا ہوئے ۔ذوالفقارعلی بھٹو سر شاہنواز کے تیسرے بیٹے تھے ،سرشاہنوازبھٹو کو برطانیہ نے سر کے خطاب دیا تھا ۔ذوالفقار علی بھٹو نے بمبئی اورآکسفورڈیونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ۔1950 ء میں کیلیفورنیا یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا ۔ آپ کی دو شادیا ں تھیں پہلی شادی خاندان میں جبکہ دوسری شادی نصرت اصفہانی سے ہوئی جو کہ ایران کی رہنے والی تھیں دوسری شادی سے دو بیٹے میر مرتضی بھٹو،شاہنواز بھٹواور دو بیٹیاں بے نظیر بھٹو،صنم بھٹوپیدا ہوئیں بھٹو سمیت بے نظیربھٹو،میر مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو غیر طبی موت کا شکار ہوئے،صنم بھٹو حیات ہیں اور غیر سیاسی زندگی بسر کر رہی ہیں بھٹو کی بڑی بیٹی بے نظیر بھٹو کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ اسلامی ممالک میں پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئیں ذولفقار علی بھٹو کی سحر انگیز شخصیت کا سحر کئی سال گزرنے کے باوجود بھی قائم ہے لوگ آج بھی بھٹو سے دیوانہ وار محبت کرتے ہیں جبکہ بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے والے بھولی بسری داستان بن گئے ہیں آج بھی پاکستان کی گلی کوچوں ،کھیتوں ،کھلیانوں ،سمندروں ،صحراؤں اور عوام کے دلوں میں زندہ ہے۔پاکستان میں آپ کو قائدِعوام یعنی عوام کا رہبر اور بابائے آئینِ پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ آپ پاکستان کی تاریخ کے مقبول ترین وزیراعظم تھے دسمبر 1967ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 1970ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں بے نظیر کامیابی حاصل کی۔
بھٹو کی وراثت پاکستان کا آئین ہے۔ وطن عزیز میں بھٹو کا احترام و اہمیت ویسے ہی ہے جیسے ہمسایہ ممالک بھارت میں جواہر لعل نہرو کی ہے۔ پاکستان کے استحکام میں بھٹو کی تاریخی اہمیت ہے بھٹو کے سحر سے بچنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔یہ 1957کی بات ہے جب متحدہ پاکستان پہ چوہدری محمد علی برسر اقتدار تھے ذوالفقار علی بھٹو کو اقوام متحدہ جانے والے ایک وفد میں شامل کر لیا گیا ’’امن عالم اور حالیت ‘‘ کے موضوع پہ بھٹونے اقوام متحدہ میں پہلی تقریر کی پھر دوسری مرتبہ1958میں بھٹونے اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس جو جنیوا میں منعقد ہوئی اس میں بحری سرحدوں کے سلسلے میں پانچ تقاریر کیں تو اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ بھٹو کی تعریف کئے بنا نہ رہ سکے عالمی سطح پہ وطن عزیز کی ساکھ بنانے والا نوجوان اپنے ملک کے شہریوں کے دلوں میں اپنی جگہ بناتا چلا گیا 1958میں سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنی کا بینہ میں وزیر تجارت کا عہدہ دیا اس طرح کم عمری میں ایک اہم وزارت حاصل کرنے والے بھٹو پہلے پاکستانی نوجوان تھے اس کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں انہیں صنعت و حرفت و قدرتی وسائل کی وزارتیں بھی سونپ دی گئیں بھٹو کی شخصیت کی چمک ایسی تھی کہ جو بھی سامنے آیا مطیع ہوگیا قسمت کی دیوی بھی اس انقلابی نوجوان پہ مہربان دکھائی دیتی تھی 1963ء بھٹو کو وزارت خارجہ امور کا قلمدان سونپ دیا گیا ایک نہایت اہم وزارت پانے کے بعد انہوں نے عالم اسلام کو اپنی شعلہ بیان تقریروں اورسحر انگیز شخصیت سے متحرک کرتے ہوئے ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھے ہونے پہ مجبور کر دیا سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل نے کہا تھا ’’پاکستان اسلام کا قلعہ اور بھٹواس کا محافظ ہے ‘‘خارجہ امور کی وزارت سنبھالنے کے فورا بعد بھٹو نے امریکی ناپاک خواہشات کے برعکس سب سے پہلے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کئے صرف دو ماہ کے قلیل ترین وقت میں سرحدی معاہدہ طے کر لیا 1964ء میں جکارتہ میں ہونے والی ایشائی وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں بھٹو نے کہا ’’ ایشیا اور افریقہ والوں نے دنیا کو اچھی طرح باور کرادیا کہ وہ عوام کی رہنمائی میں ایک عظیم انقلابی تخلیق کرنے پر پوری طرح قادر ہیں ‘‘1965ء میں ہمارے ازلی دشمن بھارت نے حملہ کر دیا ایک مرتبہ پھر بھٹو نے اقوام متحدہ میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا اپنی جذباتی تقاریر سے پوری دنیا کو باور کرایا کہ بھارت ہٹ دھرمی سے کام لے رہا ہے بھٹو پے در پے کامیابیاں حاصل کرتے چلے گئے پہلے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ سرحدی معاہدے پھر روس کی جانب جھکاؤ ہوا تو وائٹ ہاؤس والوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجنے لگی معاہدہ تاشقند کے بعد بھٹو اور ایوب خان کے درمیان کچھ تضادات منظر عام پہ آئے درحقیقت سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان بھٹو کی سحر انگیز شخصیت اور عوامی مقبولیت سے خائف تھے دونوں کے درمیان تلخ و شیریں تقریبا اڑھائی گھنٹے تک مذاکرات ہوئے بھٹو کو فرانس میں سفیر مقرر کرنے کی بھی آفر کی گئی مگر وہ نہ مانے اور وزارت خارجہ بھی چھوڑ دی وزارت خارجہ چھوڑنے کے بعد بھٹوبذریعہ ٹرین اپنے گھرکی جانب روانہ ہوئے لاہور پہنچے تو عوام کے جم غفیر نے ان کا پرتپاک استقبال کیا یہی وہ مرحلہ تھا جب بھٹو۔۔۔۔ عوام کا بھٹو بنے اور اسٹیشن پہ ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ سنا دیا پھر پورے ملک کے طوفانی دورے کئے ہر گھر ہر گلی ہر کوچہ اور ہر شہر پہنچے مزدور کسان اور طالب علم بھٹو کی سحر انگیز شخصیت سے متاثر ہوتے چلے گئے ہر گھر سے بھٹو کا نام سنائی دیاوہ عوام کے دلوں پہ حکمرانی کرنا جانتے تھے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے آتے ہی ڈرائنگ روم کی سیاست کو عوامی سیاست میں تبدیل کر دیا ملک بھر کے طوفانی دوروں کے بعد بھٹو نے اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد لاہور میں ڈاکٹر مبشرحسن کے گھر 30نومبر 1969میں اپنے حامیوں کا ایک اجلاس منعقد کیا جس میں ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں آیا سابق صدر ایوب خان تو پہلے ہی بھٹو کی عوامی مقبولیت سے بوکھلائے ہوئے تھے پارٹی کی تشکیل پر ان کی سرکاری سطح پہ خوب کردار کشی کی گئی تو اس پر بھٹو نے یوں تبصرہ کیا ’’ میں کوئی روائتی سندھی وڈیرہ نہیں ہوں جو حکومت کی دھمکیوں میں آ جاؤں ‘‘ 1970ء کے عام انتخابات میں الیکشن مہم کے دوران بھٹو عوام کے ایک جم غفیر کے ساتھ سانگھڑ جا رہے تھے کہ چند نا معلوم افراد نے ان کے جلوس پہ گولیاں چلا دیں تو بھٹو لوگوں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے آگے آئے اور کہا ’’ معصوم اور بے گناہ لوگوں پہ کیوں گولیاں چلاتے ہو آؤ اور بھٹو کے سینہ پہ گولیاں چلاؤ ‘‘ یہی وہ دیدہ دلیری ، حوصلہ اور جوش و جذبہ تھا جس کے باعث لوگ بھٹو کے سحر میں گرفتار ہوتے چلے گئے بھٹو ایک انقلابی ذہن رکھنے کے ساتھ ساتھ بہترین اداکار بھی تھے وہ لوگوں کی نفسیات سے کھیلنا اچھی طرح سے جانتے تھے 1977ء میں بھٹوکے خلاف قومی اتحاد نے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے احتجاجی تحریک شروع کر دی اس احتجاجی تحریک میں ملک عزیز پاکستان کے حالات خراب ہوتے چلے گئے اور کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی دوران تحریک کسی صحافی نے بھٹو سے احتجاجی تحریک اور ملکی صورت حال کے متعلق سوال کیا توبھٹو نے کہا ’’میرے خلاف تحریک نہیں بلکہ امریکی ڈالر چل رہے ہیں ‘‘5جولائی 1977کی ایک سیاہ رات کو ایک فوجی ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے ٹیک اوور کرتے ہوئے اقتدار پہ قبضہ کرلیا اور ایک منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کر لیا گیا دوران حراست بھٹو پہ 1977ء میں نواب محمد احمد خاں کے قتل کے قتل کا مقدمہ چلا 18 مارچ 1978ء کو ہائی کورٹ نے انھیں سزائے موت کا حکم سنایا۔ 6 فروری 1979ء کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی۔51سال کی عمر میں4 اپریل 1979کی ایک کالی رات میں عوام کے بھٹو کو راولپنڈی جیل میں تختہ دار پہ لٹکا دیا گیاچار دھائیوں کا طویل سفر گزرنے کے باوجود ’’عوام کا بھٹو‘‘ پاکستان کے عوام میں آج بھی زندہ ہے