معیشت گردی

Published on April 11, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 378)      No Comments

Dr Imtiaz
کرپشن کا موذی مر ض پا کستان کے تما م محکموں کو دھمک کی طرح چاٹ رہا ہے ملک دیوالیہ ہو چکا ہے جس طرح را کے ایجنٹوں سے نپٹنا ضروری ہے ۔اسی طرح اس ملک میں غربت ،بیروزگاری ،مہنگائی پیدا کرنے کے موجدین معاشی دہشت گردوں سے بھی نجات پانااشد ضروری ہے۔ایسے تمام نو دولتیے سرمایہ پرست ،سودخور اور تین چار گنا زائد منافع خور صنعتکاروں اور جعلی خوردنی اشیا ء نیز ادویات تیار کرنے والوں سے بھی دو دوہاتھ کرنا احسن اقدام ہو گا۔ یہ لوگ بھی ناجائز منافع خور بن کرغرباء کامسلسل استحصال کر رہے ہیں۔وزارت صحت بھی معاشی دہشت گردوں کے زمرے میں آتی ہے کہ بیٹھے بٹھائے ادویات کی قیمتیں دگنا تگنا کرڈالی ہیں۔ غریب تو پہلے ہی کم وسائل آمدنی کی وجہ سے تنگ خود کشیوں پر مجبورتھے۔اب کھانے پینے کی جعلی اشیاء اور مہنگی ادویات کہاں سے خریدیں گے۔جب کہ دوسری طرف سرکاری ہسپتالوں میں توڈسپرین کی گولی تک ناپید ہے۔سبھی ادویات کے نسخہ جات میڈیکل سٹوروں سے خرید نے کے لیے ڈاکٹر حضرات لکھتے ہیں۔ ان میں ڈرگ کمپنیوں کی ایسی ادویات کو ترجیح د ی جاتی ہے جو ڈاکٹر ز کو عمرے کے ٹکٹ ،اسپلٹ اے سی اعلیٰ کاریا بھاری نقد مال مہیا کرتی ہیں۔غرضیکہ ایسا عمل کرنے والے معاشی دہشت گرد نہیں تو پھر اور کیا ہیں؟خوردنی اشیاء گھی سرخ مرچ مصالحہ جات ،مشروبات خصوصاًروزانہ استعمال ہونے والی پیپسی ،کوک ،سیون اپ ،مرنڈااور جوسزتو 100فیصد جعلی تیار کیے جاتے ہیں۔کھلم کھلا اس کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں۔مگر نہ کوئی پکڑنا چاہتا ہے اور نہ ہی پکڑتا ہے۔کہ یہ مکروہ دھندامل ملا کر ہی چلتا ہے جیسے جوا ء ہو ہی نہیں سکتا ۔اگر متعلقہ ایس ایچ اوکا اس میں حصہ بقدر جُسہ نہ ہو۔ایسے کاروبار ہی دراصل پولیس کی حقیقی کمائی کا ذریعہ ہیں ۔اب اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ شہداء کے خاندان کے متعلقہ آرمی چیف مہربانی کرکے نیب والوں کو حوصلہ دیں اور انھیں “تگڑا ” کریں کہ وہ کرپٹ سیاستدانوں کے جھانسے میں نہ آئیں اور نہ ہی انھیں ناجائز لفٹ دیں کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے۔نہ کہ کسی شریف،زرداری ،الطاف ،عمران یا کسی کٹھ ملائیت کے علمبردارکے تابع فرمان ہیں۔نیب افسران ایسے معاملات اورکرپشن کے میگا کیسزاور معاشی دہشت گردوں پر فوری تیز تر کاروائیاں شروع کردیں تاکہ ملزمان و مجرمین کے چیخنے چلانے سے قبل ہی ان کی ” بولتی “بند ہو جائے۔اور وہ شور وغوغا کر ہی نہ سکیں دیر سے دیا گیا انصاف نہ دیے جانے کے مترادف ہے۔انصاف کے تقاضے جلد ازجلد پورے ہونے چاہئیں۔اگر مقدمات کوخوا ہ مخو اہ التوأ میں رکھا جائے تو پھر پوری دنیا جانتی ہے کہ چوروں،ٹھگوں اور کرپشن کنگز کے گروہ کسی بھی سرکاری تنظیم سے زیادہ طاقتور ہیں۔ان کا علاج تو پکڑااور جھٹکا کیا ہی بہتر ہے وگرنہ یہ آپس میں گٹھ جوڑ کرکے خود ہی بندر بانٹ شروع کردیتے ہیں۔اور بہتوں کو خواہ جعلی پاسپورٹ ہی کیوں نہ بنوانا پڑے انھیں ذرا سا دھڑ کابھی لگ جائے کہ کوئی انصاف پسند ہاتھ یاقوت ان کی گردن کی طرف بڑھنا چاہتی ہے وہ بیرون ملک بھاگ جائیں گے۔جہاں انکے حرام مالوں سے بنائے گئے پلازے محلات ،صنعتیں موجود ہیں اور ہم سانپ گزرگیا بس لکیر پیٹا کر کے مصداق ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔زرداری اور مشرف چلے گئے کیا ہم انھیں روک سکے ؟سانپ کو چھیڑو نہ اگر چھیڑو تو پھر چھوڑو نہ ہی اصل فارمولہ ہے۔ بڑے مگر مچھ جو کہ اصل معاشی دہشت گردہی نہیں بلکہ چھوٹے دہشت گردوں ،خود کش بمباروں کو پالتے پوستے حتیٰ کہ فنڈنگ بھی مہیا کرتے ہیں۔ان کو تختہ دار پر کھینچ ڈالا جائے تو چھوٹے چھوٹے سنپولیے خود بخود بلوں میں گھس جائیں گے اور آئندہ ڈنک مارتے وقت سو بار سوچیں گے۔ پرویز مشرف تو دندناتا ہوا باہر بیماریوں کے بہانے چلا گیا۔قاتل ریمنڈڈیوس کو بھی حکمرانوں نے بھیجا۔حسین حقانی ملک دشمنی کرکے پاکستان آکرصدارتی محل میں چھپ چھپا کر باہر فرار ہوا۔آخر قوم کیا اندھی ہے جو نہیں سوچتی کہ یہ کون کر اورکروارہا ہے۔اس لیے معاشی دہشت گردوں کو بھی را کے ایجنٹوں کی طرح تختہ دار پر کھینچ ڈالنا ہی قرین انصاف ہو گا۔80ارب ڈالر کا مقروض ملک کیسے بنا۔کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ سوا لاکھ کا مقروض ہوتا ہے۔ہر حکمران نے اپنی عیش و عشرت رت رنگینیوں میٹرو ،اورنج ٹرینوں اور رنگین بسوں پربغیر کسی عوامی مطالبہ کے خزانہ لٹا ڈالا۔ایسے نا جائز مصرف پر حکمران سب سے بڑے معاشی دہشت گرد اور معیشت کی تباہی و بربادی کے موجب بنے ہوئے ہیں۔کسی اسمبلی ،کسی کا بینہ کے وزراء تک کو ایسے میگا پراجیکٹس کا پتہ تک نہیں ہو تا۔کیونکہ اس میں کھربوں روپوں کی کک بیکس ملتی ہیں اس لیے ایسے پراجیکٹس کی منظوری صرف گھریلو عزیز و اقارب اور خاص دوست احباب کی “مشاورتی ٹیم “سے ہی بحث مباحثہ کے بعدکرلی جاتی ہے۔غرضیکہ آج کل کے حکمرانوں کے بیرونی ممالک کے بنکوں میں سرمایہ کروڑوں ڈالروں تک پہنچا ہوا ہے۔ آجکل وزارت صحت سے کسی دوائی کی قیمت بڑھوانے کے لیے کتنا مال لگانا پڑتا ہے۔سابقہ ادوار میں تو ایک روپیہ قیمت بڑھوانے کا ریٹ ایک کروڑ روپے ہوا کرتا تھا ۔اب مہنگائی کا دور دورہ ہے اس لیے ریٹ زیادہ ہی ہوگا۔اور ایسی رشوت ڈرگ کمپنیاں غریبوں کا خون نچوڑ کر وصول کرنا خوب جانتی ہیں۔تمام صنعتکار شریفوں اور گجراتی چوہدریوں کی طرح اس فن سے بخوبی واقف ہیں۔بلکہ ان کی تو ملیں بھی سال میں دو دو بچے جنتی ہیں۔کراچی میں اغوا برائے تاوان اور بھتہ خور دہشت گرد تو ہیں ہی مگریہ ان سے بھی بڑے دہشت گرد ہیں۔مہنگائی کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات اب بہت دور ہو چکی ہیں ابھی تو مہنگائی کی فلم کاٹریلر شروع ہوا ہے فلم کی تکمیل تک ریٹ مزید نئے بجٹ اور منی بجٹ کے ذریعے بڑھیں گے۔ مہنگائی کے جنوں کی اپنی برادری سے بھی طاقتور کوئی دیو آن پہنچا ہے جو الٹی گنگا بہا رہا ہے ۔پہلے پٹرول کی کمی کے ریٹ سے دیگر اشیا ء کی قیمتوں کی ایڈجسٹمنٹ ہوتی تھی مگر اب پٹرول کا ریٹ کم اوردیگر اشیاء کا دوگنا تگنا ہورہا ہے۔سامراجی ممالک تو معاشی دہشت گرد تھے ہی مگر ہم نے بھی تو اس محاذ پر چیمپئن شپ جیت لی ہے۔بھٹو نے نجی اداروں ا ور صنعتوں کو قومیالیا۔جس سے سرمایہ کار بری طرح مایوسی کا شکار ہوا اور صنعتیں لگنا بند ہو گئیں ۔نوزاشریف نے ایٹمی دھماکہ کرکے غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس منجمد کرڈالے تو لوگ بھی سرمایہ بیرون ملک بھجوانے پر مجبور ہو گئے کئی ایان علیاں کرائے پر لی گئیں۔منی لانڈرنگ عروج پر ہو گئی۔اب ملک نے تو قرضہ 80ارب ڈالر دینا ہے جس کی قسط سر پرآن پہنچی ہے اور ہم ڈیفالٹ کے قریب تر ہیں مگر پاکستانیوں کا باہر اڑھائی سو ارب ڈالر سے زیادہ جمع ہے۔ اب غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس رکھنے کی اجازت تو مل گئی ہے مگر دونوں بڑی سیاسی جماعتیں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال نہ کرسکیں ۔قرضہ اتارو ملک سنوارو مہم میں اربوں جمع کردہ روپے بھی ڈکار لیے گئے تھے۔پرانے جغادری بڑی پارٹیوں کے بھگوڑے سیاستدان اکٹھے کرکے نیا پاکستان بنانے کا نعرہ خود دیے گئے پروگرام کی نفی بن چکا۔صنعتکار پاکستان کے علاوہ کسی ملک میں نہ کبھی حکمران تھے نہ ہیں اور نہ ہوں گے کہِ انہوں نے تو بزدلی کے سبجیکٹ میں ماسٹرز نہیں بلکہ پی ایچ ڈی کی ہوتی ہے ۔اس لیے ان سے کسی دشمنِ دین وطن کے خلاف کاروائی۔ ایں خیال است محال است و جنوں یہ صرف خواب خیالی ہے۔وہ تو تجھے پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو کی طرح ہر صورت منافع در منافع چاہتے ہوتے ہیں وہی زندگی کا مطمع نظر ہوتا ہے۔اسی کے حصول کے لیے سیاست میں حصہ لیتے ہیں تاکہ ہر قسم کے ٹیکسوں اور بنک قرضوں سے نجات پاسکیں ۔انھوں نے مقتدر ہو کر خود ہی بنکوں کے قرضہ جات معاف کردینے ہوتے ہیں۔آخری حل ما سوائے انقلاب کے کو ئی نظر نہیں

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

WordPress主题