بہروپئے

Published on April 12, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 478)      No Comments

Rizwan,,,
اگر آپ پاکستان میں ہیں توا ﷲآپ کو عدالت،ہسپتال اور جمہوریت سے بچائے ۔جمہوریت کے مزے تو اہل وطن لے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے۔ہر دفعہ جب ان کا دل اوب جاتا ہے تو یہ پکار اٹھتے ہیں ۔ویسے پیار میں بڑی چس ہے پر ہماری اب بس ہے۔انصاف کا یہ حال ہے کہ انصاف دینے والے خود تھانوں کے بکنے پر دکھی اور افسردہ ہیں ۔انسانوں سے مایوس ہو کر ہماری دھرتی پر لوگ اب اوپر والے سے انصاف کے طالب ہیں۔بہت سارے بے مقسد محکمے جلد بند کرنا ہی ملکی مفاد میں ہو گا۔جیسا کہ آپ چڑیا گھر دیکھ لیں جو کہ جانوروں کو یہ بتانے کے لئے قائم ہیں انسان سے بڑا دشمن جانوروں کا اور کوئی نہیں۔جانوروں کے مقدر میں گندے چڑیا گھر سونپ کر ہمارے گلیاں محلے بھی گندگی سے اٹے پڑے ہیں۔یہ سب ثمرات ووٹ خرید کر ڈولی میں بٹھائی جانے والی کئی دفعہ رخصت شدہ کنواری جمہوریت کت سبب ہیں۔یا پھر جمہوریت کی داغدار چنری اوڑھے آمریت کے طفیل ہیں۔عام روزمرہ زندگی میں چوری لوٹ مار کرپشن دھوکہ فریب چلتا رہتا ہے کیونکہ یہ انسان کی جبلت میں شامل ہے یہ ازل سے ابد تک نیکی اور بدی کا سفیر جو ٹھہرا۔چناؤ کا فرق پلڑے کو ایک طرف جھکا دیتا ہے ۔مگر خدا کی پناہ یہ انسان ہسپتال نما موت و زندگی کی وادی میں بھی اپنی اوقات دکھانے سے باز نہیں آتا ۔کوئی ڈاکٹر ادویات کی پرچی لکھ کر سستی دوائی مریض کو دینے اور مہنگی دوائی بیچنے کے چکر میں ہے تو کوئی آپریشن کے بعدبے ہوش زندگی کے قرب کے متلاشی موت کے پنجوں میں پنجے ڈالے مریض کو وارڈ میں شفٹ کرنے کے بعد لواحقین سے تحفہ بخشیش لینے کے چکر میں ہے۔ سرکاری آپریشن تھیٹر کے داخلی دروازے پر جلی حروف میں تحریر تھا کہ لواحقین آپریشن کے بعد کسی عملہ کے آدمی کو بخشیش دینے سے پرہیز کریں ۔اگر کوئی مطالبہ کرے تو اس کی اطلاع ایم ایس کو درج ذیل نمبر پر دیں ۔یار لوگوں نے موت کے خوف کو ایک طرف رکھ کر تحریر کو کچھ جگہوں سے کھرچ کر اس صفائی سے مٹایا ہے کہ لگے جیسے قدرتی طور پر ماحول کی دھول نے ایسا کر دیا ہے ۔اطلاع دینے کے لئے درج شدہ نمبر کے بھی دو ہندسے کمال صفائی سے مٹا دےئے ہیں۔تاکہ لوٹ مار چلتی رہے۔اگر کوئی چکایت کا سوچے بھی تو اسے نمبر ہی نہ ملے۔دو ہندسے ڈھونڈننے کی کوشش میں جٹنے سے یہ بہتر لگے چندی چوروں کو سو پچاس دے کر جان چھڑوائی جائے۔آپریشن بھلے چھوٹا ہو یا بائی پاس جیسا طویل اس کا نام ہی دہشت کی علامت ہے ۔ایک آپریشن کی دہشت دوسرا قدم قدم پر لٹیروں کا ڈر ۔حیرت ان ڈاکٹروں پر بھی کہ جنہوں نے آپریشن تھیٹر داخل ہوتے وقت زخمی تحریر کی کبھی خاموش پکار کا نوٹس ہی نہیں لیا کہ چلو دوبارہ اسے مکمل تحریر کروا دیا جائے۔یا شاید انہوں نے سوچا ہو کہ عادتیں سر کے ساتھ ہی جاتی ہیں تحریر دوبارہ لکھوا بھی دی جائے تو بھی کونسا بھوکے گدھ ماس نوچنے سے باز آئیں گے۔آپریشن تھیٹر کے باہر عین اس وقت جب دھوپ میں سڑ رہے بنچوں پر آپریشن کی باری کے لئے مریض پریشان مرجھائے چہروں کے ساتھ اپنا نام پکارے جانے کے منتظر ہوتے ہیں ان پر جعلی بھکاریوں کی فوج کا حملہ ہوتا ہے۔یہ بھکاری دنیا کے خوفناک تریں بلیک میلرزہوتے ہیں۔یہ آپریچن کے لئے انتظار میں بیٹھی مان کو گود میں لئے اکلوتی بچی کو آخری پیار کرتے دیکھ کر حملہ کرتے ہیں تو کہیں بیٹے کو تسلی دیتی ماں کے پرس پر حملہ آور ہوتے ہیں۔اکژ بھکاری ہٹے کٹے بلکہ مشٹنڈے ہوتے ہیں۔اور خوامخواہ گھسٹ گھسٹ کر بھیک مانگنے کا ناٹک کر رہے ہوتے ہیں۔ان کی جعلی دعاؤں کے بجائے اگر خود لواحقین صدق دل سے خدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے دعا کریں تو وہ کہیں زیادہ بہتر عمل ہے۔انتظامیہ کے پاس شاید ان بھکاریوں کا کوئی علاج نہیں یا وہ ان کا علاج کرنا نہیں چاہتے۔اندر کی کہانی بھکاری جانیں یا ہسپتال کی انتظامیہ۔آپریشن کے بعد وارڈ بوائز ،سویپر اور گیٹ اٹیڈنٹ ہی پریض کے لئے ڈاکٹر کا روپ دھار لیتے ہیں۔کوئی آ کر فائل چیک کرتا ہے یوں پڑھتا ہے جیسے کچھ دیر پہلے اسی نے ہی آپریشن کیا ہو۔نبض دیکھے گا اور اعلان کرے گا کہ اب مریض کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ہر کوئی اپنا حصہ بقدر ہوشیاری اور کرتب بازی ڈسچارج تک مریض یا اس کے لواحقین سے وصول کرتا رہتا ہے۔میں یہ جھوٹے روپ کے درشن کبھی نہ دیکھ پاتا اگر اپنے کزن کے آپریشن کے دوران اس کے ساتھ ایڈمشن سے ڈسچارج تک وقت نہ گزارتا۔مریضوں کی اکژریت ایسی تھی جنہوں نے اپنی جہالت کے ہاتھوں سموکنگ نشہ اور دوسری علتوں کر روگ کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا مسکن بنا لیااور انجام کار ہسپتال کے وارڈ تک آن پہنے۔معدے کی تکلیف میں مبتلا ایک صاحب کی عیادت کی جو روحی کے باسی تھے انہوں نے چار سال کی عمر سے سگریٹ کو اپنا لیا نتیجہ یہ نکلا کہ چالیس سال کی عمر میں معدے کی شدید تکلیف ،خوفناک کمزوری اور بڑھاپے کے آثار چہرے پر سجائے وارڈ کے بیڈ پر آن دراز ہوئے۔خدا کسی دشمن کو بھی دکھ اور تکلیف نہ دے مگر اپنے ہاتھوں خود کو اذیت دینا بھی ہمارے معاشرے میں عام ہو چکا ہے۔جہاں مردہ مرغیاں اور گدھے کا کوشت بکتا ہو وہاں صحت کا خیال اور حفظان صحت کے اصولوں کا ذکر بھونڈا مذاق لگتا ہے۔خیر ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کا بی ہیو اچھا یا نارمل ہوتا ہے میں نے اپنے ہسپتال میں گذارے وقت کے دوران کسی ڈاکٹر کو بدتمیزی کرتے نہ دیکھا نہ کسی مریض سے سنا۔ڈاکٹری وہ واحد پیشہ ہے کہ اگر ڈاکٹرز کوئی نیک عمل زندگی بھر نہ بھی کرے تب بھی دکھی انسانوں کی خدمت کے عوض ملنے والی دعائیں ہی انہیں پل صراط سے اڑا کر کراس کروا دیں۔ایک دفعہ میرے ایک دوست نے واقعہ سنایا کہ وہ ایک آئی اسپیشلسٹ کے کلینک پر چیک اپ کے لئے انتظار کر رہا تھا کہ ایک بوڑھی عورت آئی اس نے فیس پوچھی ہزار کا نوٹ بے چاری کے پاس تھا نہیں سو اس نے ریسپشن بوائے سے درخواست کی کہ ڈاکٹر سے مجھے کوئی اچھے سے قطرے تو پوچھ دو ڈاکٹر صاحب نے انکار کر دیا تو میرے دوست نے بڑھیا کو بلایا است آنکھوں میں خارش تھی اس نے جیب سے پرچی نکالی گوگل پر دوائی سرچ کی اور لکھ کر دے دی کہ اماں اﷲشفاء دے گا ۔اماں جی نے بدلے میں خوب دعائیں دیں ۔یہ دعائیں ڈاکٹر صاحب بھی کما سکتے تھے ناس ہو ہوس کا کہ جس کا پیٹ ہی نہیں بھرتا کہ انسان قبر کا پیٹ بھرنے جا پہنچتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرہ بدل رہا ہے رفتار بہت سست ہے اتنی سست کہ
یاران تیز گام نے منزل کو جا لیا
اورہم محو نالہ جرس کارواں رہے

Readers Comments (0)




WordPress Themes

Free WordPress Theme