پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے شہر ہنگو میں عین اس وقت ڈرون حملہ جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت عوام کو یہ بات باور کرانے میں لگی ہوئی کہ امریکہ سے دو ٹوک انداز میں بات کی گئی ہے کہ وہ آئندہ ڈرون حملے نہ کرے تا کہ تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کئے جا سکیں اور ان میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو، یزید وقت کا تازہ ترین ڈرون حملہ حکومت وقت اور سرتاج عزیز کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ثابت ہوا یہ اور بات ہے کہ ’’غیرت مند‘‘ حکمرانوں، امن کی آشا کا راگ الاپتے ہوئے امن کا تماشہ بنانے والوں کو احساس ندامت ہے یا نہیں، اس ضمن میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا عین موقع پر دیا گیا بیان بالکل درست ثابت ہوا کہ امریکہ پاکستانی حکمرانوں کو جوتی کی نوک پر بھی نہیں لکھتا، آہ! پاکستانی حکمرانوں کی عزت نفس، پاکستان کی خود مختاری کے رکھوالوں اور ٹھیکیداروں کو میرا سلام!
اگر خود مختاری کی رکھوالی اور حکمرانوں کی عزت نفس کا یہی عالم رہا تو بعید نہیں کہ امریکہ ’’بہادر‘‘ پارلیمنٹ ہاؤس پر بھی ڈرون حملہ کر دے اور کہے کہ اس میں کوئی دہشت گرد چھپا بیٹھا تھا، امریکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑتا ہے یا نہیں لڑتا یا کس طرح لڑتا ہے یہ اس کا اپنا مسئلہ ہے مگر جب پاکستان کی سرحدوں اور سر زمین پاکستان پر حملے کی بات کی جائے تو اس بات کا امریکہ کو کوئی اختیار نہیں کہ پاکستانی قوم کی خود مختاری کو للکارے، حکمرانوں کی غیرت کا تو مجھے معلوم نہیں ہاں البتہ پاک فوج حالات سے بالکل بے خبر نہیں اور پاکستانی قوم کے اندر کا لاوا جس کو اندرونی و بیرونی خلفشار، مہنگائی، بڑھتے ہوئے جرائم نے پال پوس کر بڑا کیا ہے کسی بھی وقت باہر آ سکتا ہے، ماضی کی طرح اس بار بھی پاکستانی قوم اپنے کئے ہوئے فیصلے پر ڈھٹائی کیساتھ شرمندہ ہے اور کہتی نظر آ رہی ہے کہ اب کیا ہو سکتا ہے، ہم نے تو یہ سوچ کر ’’شیر‘‘ کو ووٹ دیا تھا کہ وہ عوام کی عزت کا رکھوالا بن جائے گا مگر وہ تو الٹا فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر درندگی پر اتر آیا ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے والے اور پاکستان مسلم لیگ کے کئی اہم و سر گرم کارکنان دوست اس وقت منہ چھپاتے نظر آ رہے ہیں یعنی وہ وقت جو پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو منتخب کروانے والے جیالوں کو 4 سال کے بعد دیکھنا پڑا تھا وہ (ن) لیگ کے جیالوں نے اپنے قائدین کی مہربانی سے چند ماہ میں ہی دیکھ لیا، پاکستانی حکومت نے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کو دیکھتے ہوئے ہنگامی طور پر اسے روکنے کا فیصلہ کیا اور اس ضمن میں ٹماٹر 140 روپے کر دیا گیا تاکہ یہ کہا جا سکے کہ ڈالر کی کیا اوقات ہے اس سے زیادہ تو فی کلو ٹماٹر کی قیمت ہے یعنی ڈالر ہمارے ہاں ایک کلو ٹماٹر سے بھی سستا ہے اور یہ سب حکومت کی آئی ایم ایف اور امریکہ سے لازوال محبت کا نتیجہ ہے، پچھلے دنوں انتہائی مدبر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا تھا کہ پٹرول کی قیمت بڑھانا مجبوری ہے کینوکہ ہم آئی ایم ایف کیساتھ وعدہ خلافی نہیں کر سکتے۔
ہاں البتہ پاکستانی عوام کیساتھ وعدہ خلافی کرنے میں حکومت اور اسحاق ڈار کو کوئی عار نہیں کیونکہ پاکستان کی حکومت کے سنگھاسن پر مسلم لیگ (ن) کو عوام نے نہیں امریکہ ’’بہادر‘‘ نے بٹھایا تھا، عوام بے چاری یہ سوچتی رہ گئی کہ ’’شیروں‘‘ کی حکومت ہم سے بے وفائی نہیں کر سکتی۔۔۔ ہائے پاکستانی عوام کے بھولے پن پر قربان جاؤں کیونکہ اس کو تو یہ معلوم ہی نہیں جو اقتدار دلواتا ہے تعظیم اور ایفائے عہد اسی کیساتھ کیا جاتا ہے اور یہی صورتحال اس وقت بھی جاری ہے تو رونا دھونا کیسا؟ جس نے اقتدار دلوایا اس کے ساتھ وعدہ خلافی تو کی ہی نہیں گئی،امریکی شر پسند اور تو ہمارے اپنے درمیان موجود ہیں اور ان کی دن رات کی محنت کی بدولت شر پسندی اپنے عروج پر ہے، 40 برس گزر گئے اور ہم یہ نہیں سمجھ سکے کہ ہم امریکی مفادات کی خاطر جنگ میں خود کو اندر سے کتنا کھوکھلا کر چکے ہیں، ہماری سیاسی جماعتیں اگر طالبان سے مذاکرات کیلئے ایک قدم آگے بڑھاتی ہیں تو امریکہ بہادر ایک نہیں2 ڈرون حملے کر دیتا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری اور پاکستان کو داؤ پر لگانے والے جواری پاکستان میں امن چاہتے ہی نہیں ہیں اور ہم یہ بات کیوں بھول بیٹھے ہیں کہ دہشت گردی، فرقہ پرستی، ہمیں آپس میں لڑوانا امریکہ کی ہی پیداوار ہے، خیر یہ سب باتیں ’’ابا اماں‘‘ کے سامنے بھیگی بلی بن کر کھڑے ہونے والوں کی سمجھ میں نہیں آئیں گی کیونکہ ان کو تو صرف ایک ہی زبان سمجھ میں آتی ہے اور وہ ہے ’’ڈالر‘‘ کی زبان، یعنی ڈالر دکھاتا جا اور سمجھاتا جا، چند برس قبل تک ہمارے بڑے جی حضوری کیلئے گزرے وقت کے باشاہوں کے چاپلوس وزیروں اور مشیروں کی مثالیں دیتے تھے مگر اب ان مثالوں کی جگہ موجودہ ’’عوامی‘‘ رہنماؤں نے لے لی ہے جو امریکہ کے ایک اشارے پر اپنا نہیں بلکہ اپنے ملک کا بیڑہ غرق کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار بیٹھے ہیں۔
مزے کی بات کہ دو دن قبل ملک کے ایک موقر اخبار کی ایک خبر کے مطابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ راولپنڈی کے بارے میں حساس اداروں کو پہلے رپورٹ مل چکی تھی، یعنی حساس اداروں نے حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت کو پہلے سے مطلع کر کے اپنا فرض پورا کر دیا تھا، رانا ثناء اللہ کے بیان کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے یہ بات کون پوچھے کہ سانحہ راولپنڈی کا اگر آپ کو پہلے سے علم تھا تو آپ کی حکومت نے اس کیلئے کیا اقدامات کئے؟ اور رانا ثناء اللہ کے بیان سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سانحہ راولپنڈی شر پسندوں کی طرف سے پہلے سے تیار کردہ یعنی کہ مکمل ’’پلینڈ‘‘ تھا، اور اس بار بھی یہی ہوا کہ پہلے سے رپورٹ ہونے کے باوجود بقول شیخ رشید کے حکومت ’’ستو‘‘ پی کر سوئی ہوئی تھی اور حالات جب قابو سے باہر ہو گئے تو ماضی کی طرح پاکستان کی جانباز فوج کو بلوا کر حالات کو کنٹرول میں کیا گیا، مگر اس بات کا رانا ثناء اللہ اور ان کی حکومت سے جواب طلب کون کرے؟۔