یومِ دستورکے موقعے پرایسے ایسے غیردستوری حربے آزمائے جارہے ہیں کہ پوری قوم انگشت بدنداں ۔کل کے دشمن آج باہوں میں باہیں ڈالے نظرآتے ہیں اور یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے ہمارے سیاستدانوں کے بلغمی مزاج کو مارشل لاء کی گرمی ہی راس ہو ۔تحریکِ انصاف پانامہ لیکس کاڈھنڈورا پِیٹ کرنوازلیگ کے خلاف ’’اکٹھ‘‘ کے لیے دَردَر کی بھکاری بنی نظرآتی ہے اورپیپلزپارٹی کوبھی نوازلیگ پراپنا غصّہ نکالنے کاموقع مِل گیا۔تحریکِ انصاف کاوفداُس پیپلزپارٹی کے دَرِدولت پربھی حاضر ہوگیا جس کے چیئرمین آصف زرداری کے خلاف کپتان صاحب کے غیرپارلیمانی الفاظ قوم کوآج بھی یادہوں گے ۔یہ اَکٹھ اُس دھرنے کے لیے ہے جس کی خواہش عمران خاں کے دِل میں ایک بارپھر جنم لے رہی ہے۔ پہلے اُنہوں نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کا وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد سے مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ چودھری صاحب ایف آئی اے سے تحقیقات کروائیں۔ جب چودھری صاحب نے بَرملایہ کہاکہ کپتان صاحب ایف آئی اے کے جس آفیسرکو بھی نامزدکریں ،وہ اُسی سے انکوائری کروانے کوتیار ہیں،توکپتان صاحب نے یوٹرن لیتے ہوئے اپنے دیرینہ دوست شعیب سڈل کانام لے دیا جوکہ ریٹائر ہوچکے ہیں ۔ جب شعیب سڈل پرکسی بھی سیاسی جماعت نے صاد نہ کیاتو کپتان صاحب نے اپنے ’’خودساختہ‘‘ قوم سے خطاب میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی کمیشن کامطالبہ کردیا لیکن سپریم کورٹ نے واضح کردیا کہ تحقیقات کرنا عدالت کاکام نہیں ۔حیرت ہے کہ خاں صاحب کوایک ریٹائرڈ آفیسرپر تواعتماد تھالیکن سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جسٹس پرنہیں ۔اب خاں صاحب کے کُنجِ لَب سے کیانکلے گا،کسی کوکچھ پتہ نہیں لیکن یہ بہرحال طے ہے کہ پیپلزپارٹی کسی بھی صورت میں نہ تو رائیونڈ میں دیئے جانے والے مجوزہ دھرنے کاحصّہ بنے گی اورنہ ہی وزیرِاعظم کے استعفے پر زوردے گی ۔جماعت اسلامی کے بارے میں البتہ کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ اکثرایسے فیصلے کربیٹھتی ہے جن پربعد میں اُسے پچھتانا پڑتاہے ۔خاں صاحب لاکھ کہیں کہ اُنہیں’’سولوفلائیٹ‘‘ کاشوق ختم ہوچکا اوراب سب کواحتجاجی تحریک کے لیے دعوت دی جائے گی لیکن محسوس یہی ہوتاہے کہ اب کی بار بھی اُنہیں ’’سولوفلائیٹ‘‘ ہی کرنی پڑے گی ۔اُنہوں نے تویہ بھی کہاکہ تحریکِ انصاف کے اِنٹراپارٹی الیکشن اِس لیے ملتوی کیے کہ پانامہ لیکس پرتحریک چلانی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ پارٹی میں انتشاربہت بڑھ گیاتھا اورشاہ محمودقریشی توکھُل کرجہانگیرترین اورچودھری سرورکے سامنے آگئے تھے ۔اگرپانامہ لیکس کاشور نہ بھی اُٹھتاتوپھر بھی خاں صاحب نے انٹراپارٹی الیکشن بہرحال ملتوی کرنے ہی تھے ۔
میاں نواز شریف صاحب آج اپناتفصیلی طِبّی معائنہ کروانے اپنے خاندان کے ہمراہ لندن جارہے ہیں ۔وہ 2011ء سے افعالِ دِل کی بے ضابطگی کے مریض ہیں اورلندن میں زیرِعلاج بھی رہ چکے ہیں ۔ڈاکٹروں نے اُنہیں سال میں دو مرتبہ طِبّی معائنہ کروانے کی ہدایت کررکھی ہے اور اُن کے لندن کے اِس دورے کی وجہ بھی یہی ہے لیکن افواہ ساز چمنیوں سے دھواں اُٹھنے لگاہے ۔کچھ بزرجمہروں نے تویہ بھی کہہ دیاکہ اب وہ واپس نہیںآئیں گے ۔چودھری اعتزازاحسن نے کہاکہ پانامہ لیکس سے خوفزدہ میاں نواز شریف صرف آصف زرداری کے دربارمیں حاضری کے لیے جارہے ہیں ۔یہ وہی اعتزازاحسن ہیں جوکبھی لہک لہک کر’’دھرتی ہوگی ماں کے جیسی‘‘ گایاکرتے تھے لیکن جب بحالی کے بعدچیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے گھاس نہیں ڈالی تواُنہی کے خلاف ہوگئے ۔یہ وہی اعتزاز احسن ہیں جوعین اُس وقت کُنجِ عافیت میں جا چھپے جب ذوالفقارعلی بھٹو ،ضیاء الحق کے پنجۂ استبداد میں تھے اوریہ وہی اعتزازاحسن ہیں جو عمران خاں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ڈی چوک اسلام آباد میں مشترکہ دھرنے کے دوران نوازلیگ ،خصوصاََ چودھری نثاراحمد پرمحض اِس لیے گرجتے برستے رہے کہ اُنہیں پتہ تھانوازلیگ بے بَس ہے اوراُسے پیپلزپارٹی کی حمایت کی ضرورت ۔
وزیرِداخلہ چودھری نثاراحمد کہتے ہیں ’’اعتزازاحسن اورخورشید شاہ کے خلاف تحقیقات ہوئیں تواُن کوبڑی تکلیف ہوگی ۔ مے فیئر فلیٹ کی بات کرنے والے سرے محل کی بات کیوں نہیں کرتے‘‘۔ قوم چودھری نثاراحمد سے سوال کرتی ہے کہ اگرچودھری اعتزازاحسن اورسیّد خورشیدشاہ کے خلاف ایف آئی اے کے پاس ثبوت ہیں توپھر اُن کے خلاف تحقیقات میں کیااَمر مانع ہے؟۔ کیاقوم سمجھ لے کہ یہ ایک چورکی دوسرے چورکو بچانے کی کوشش ہے ؟اورہاں اگر مے فیئر فلیٹ مَنی لانڈرنگ کانتیجہ ہے توکیا اُس سے محض اِس لیے صرفِ نظرکر دیاجائے کہ چونکہ سرے محل آصف زرداری کی کرپشن کامُنہ بولتاثبوت ہے اِس لیے دونوں پر ’’مٹی پاؤ‘‘۔ یہ کہاں کی شفافیت ہے کہ جب قبیلۂ اشرافیہ کے کسی ایک فردکے خلاف انگلیاں اُٹھنے لگتی ہیں تو فوراََ شورمچ جاتاہے کہ فلاں ابنِ فلاں نے بھی ایساہی کیا ۔گویاایسا کرنااُن کاحق ٹھہرا ۔آج وزیرِاطلاعات پرویزرشید کہتے ہیں کہ عمران خاں نے شوکت خانم کینسر ہسپتال کے زکواۃ کے پیسوں سے آف شورکمپنی بناکر پیسے ڈبودیئے لیکن قوم کامطالبہ توکچھ اورہے ۔قوم تویہ چاہتی ہے کہ پانامہ لیکس میں جس کسی کابھی نام آیاہے ،اُس کے خلاف انکوائری ہونی چاہیے اوریہ انکوائری بھی ایسی ہوکہ جس پرکوئی انگلی نہ اٹھاسکے ۔یہ انکوائری قوم کامطالبہ ہے ،سیاسی جماعتوں کا ہرگِز نہیں کیونکہ اُن کے ارادے کچھ اورہیں۔
آف شورکمپنی بنانا غیرقانونی نہیں،اصل نکوائری تواِس بات کی ہونی چاہیے کہ آف شور کمپنی بنانے والوں کے پاس پیسہ کہاں سے آیا ۔کچھ عرصہ پہلے وزیرِاعظم کے صاحب زادے حسین نوازنے ایک انٹرویو میں کہا کہ جلاوطنی کے دوران اُنہوں نے سعودی حکومت سے قرض لے کرسٹیل مِل لگائی اورپھر جب وہ لوگ جلاوطنی کے خاتمے پر پاکستان واپس آئے تویہی سٹیل مِل بیچ کربیرونی ممالک میں کاروبار کیا ۔وزیرِاعظم کے دوسرے صاحب زادے حسن نوازکے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ برطانیہ
میں فلیٹس تعمیر کرکے فروخت کرنے کے کاروبار سے منسلک ہیں ۔اگرایسا ہی ہے توپھربااعتماد اور غیر جانبدارتحقیقاتی کمیشن کے سامنے سب کچھ کھُل کرسامنے آجائے گا۔