کہتے ہیں جو قومیں اپنا آپ بھول جاتی ہیں وہ تباہ ہو جاتی ہیں اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کیلئے دفن ہو جاتی ہیں کچھ یہی حال اس وقت ہمارے معاشرے کا ہو چکا ہے ہم لوگ اس وقت بہت سے مسائل سے دو چار ہیں کبھی امریکہ کی بمباری ‘ دہشت گردی کا خوف ‘ بیرونی قرضے ہر پیداہونے والے بچے پر مسلط بیروز گاری ‘غربت ‘ کرپشن ‘ رشوت ستانی‘ جھوٹ ‘ فریب ہماری رگوں میں خون کی طرح گردش کر رہا ہے لیکن ایک ایسی جنگ کو ہم نے اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہے جو ہم خود اپنے خلاف لڑ رہے ہیں یہ ہے ثقافتی جنگ جس میں ہم لوگ خود اپنے ہاتھوں اپنی ثقافتی اقدار اور روایات کو پامال کر رہے ہیں اور اس کیلئے ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں اور اس ثقافتی یلغار کی ذمہ دار کوئی دوسرا نہیں ہمارا اپنا الیکٹرانک میڈیا ہے یہ بات ٹھیک ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے عوام میں سیاسی شعور بیدار ہوا ‘بہت سے مسائل اجاگر ہوئے بہت سے چہرے بے نقاب ہوئے ‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے ایک تہذیب دوسری تہذیب میں گم ہو رہی ہے مغرب میں مشرقی لباس کو اپنایا جا رہا ہے لیکن وہاں کے میڈیا اور حکمرانوں نے لوگوں کو سکارف وغیرہ پہننے پر پابندی لگا دی ہے اور دلیل یہ دی کہ سکارف پہننے کی وجہ سے معاشرے میں تفریق پیدا ہو تی ہے آپ اس بات سے ان لوگوں کا اندازہ لگاسکتے ہیں لباس کسی بھی معاشرے کی پہلی پہچان ہو تی ہے آپ کہیں جاتے ہیں تو سب سے پہلے لباس سے ان کی عادات و اطوار کا اندازہ لگاتے ہیں اس کے بعد زبان اور دیگرروایات پر جاتی ہے لیکن بد قسمتی سے ہم نے اپنی اس پہچان پر بہت آسانی سے سمجھوتا کر لیا ہے ۔قومی سطح پر نہ سہی لیکن ہمارے میڈیا والے اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں ڈراموں سے لیکر کوکنگ آئل کے پروگراموں‘ ٹاک شومیں مغربی لباس تو بڑے فخر سے پہنا جاتا ہے آج سے پندرہ سال پیچھے چلے جائیں تو ٹی وی میزبان کے سر پر دوپٹہ نظر آتا تھا لیکن اب یہ حال ہے کہ اگر ڈھنگ کے لباس میں ہی نظر آجائے تو شکر ہے ورنہ ان کو دیکھ کر کسی غیر ملکی چینل کی خاتون لگتی ہے ہماری حکومت غیر ملکی چینلز پر تو پابندی لگادیتی ہے لیکن وہ کمی ہمارے اپنے چینلز نے پوری کر دی ہے ۔نیوز چینلز پر برائے نام لباس میں ملبوس پڑوسی ملک کی اداکاروں کے سین بڑے دھڑلے سے دکھائے جاتے ہیں اور تمام چینلز اس کام میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں لگے ہوئے ہیں۔فیشن شو اور مارننگ شو کے اندر اپنی ثقافت اور روایات کا جس انداز میں بغاوت کی جاتی ہے بڑے فخر سے دکھایا جاتا ہے اور یہ کہہ کر لباس کی تعریف کی جاتی ہے کہ مشرق و مغرب کا حسین امتزاج ہی تو یہ بات ہمارے معاشرے میں ہضم نہیں ہو تی ۔ہم اسلامی ملک کے باشندے ہیں ہم لوگ لباس کو پردے کیلئے استعمال کرتے ہیں جبکہ یہ شو اگر خواتین کے لباس کی نمائش کیلئے ہو تے ہیں تو یہ برہنگی اسلام کے سراسر خلاف ہے بلکہ مسلم معاشرے میں سختی سے منع ہے ۔مرد اور خواتین گلوکاروں‘ اداکاروں اور ماڈلز کو دیکھیں تو وہ چمکیلے ‘بھڑکیلے لباس اور مضحکہ خیز بالوں میں کسی اور سیارے کی مخلوق لگتے ہیں اگر یہ کہہ دیا جائے کہ یہ شوبز کی دنیا ہے تو حقیقت کی دنیا اس دنیا سے بری طرح متاثر نظر آتی ہے عام گھروں میں شلو ار قمیض کی جگہ پینٹ شرٹ نے لے لی ہے اور شلوار قمیض والوں کو بعض جگہ بری بری نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔سادگی معاشرے سے ختم ہو رہی ہے ہم مہنگائی کا رونا روتے ہیں لیکن گھر کے باہر کھانا بھی فیشن بن چکا ہے اور بے ہنگم کپڑے پہننا بھی ‘ موبائل نے ایک الگ مصیبت برپا کی ہوئی ہے ‘ٹی وی پر اسی فیصد اشتہارات موبائلز اور سم کنکشن کے ہو تے ہیں اور وہ جس طرح نوجوان لڑکے او ر لڑکیوں کو سم اور موبائلز کی خریداری پر مائل کرتے نظر آتے ہیں وہ کسی طرح اسلامی معاشرے کے شایان شان نہیں ۔پھر ہو تا یہ ہے کہ ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں فون کو اسی مقصد کیلئے استعمال کر نے لگ جاتے ہیں جس کی تربیت انہیں میڈیا دیتا ہے اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں اپنے ہم عمروں سے بیک ورڈ‘ پینڈو اور ناجانے کیا کیا سننا پڑتا ہے ۔یہ ایک کڑوا سچ ہے کہ اگر واقعی معاشرے کو سدھانا ہے تو میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا اپنی مذہبی اور معاشرتی اقداراور روایات کو سامنے رکھنا ہو گا اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو ایک مسلمان ملک کے طور پر اجاگر کرنا ہو گا اور اس پر فخر بھی کرنا ہو گا کیوں کہ آج کے دور میں معاشرے کے بگاڑ اور سنوار میں ذمہ داری گھر اور سکول سے بڑھ کر میڈیا پر ہے کیوں کہ ہریہ ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے اور ہمارے ماحول پر اثر انداز ہے ۔مہنگائی کا رونا روتے عوام کو اگر شاندار گاڑیوں‘ بے ڈھنگے لباس اور ڈبہ پیک امپورٹڈ کھانوں کی بجائے سادہ زندگی کو خوبصورت اندز میں ان کے سامنے لایا جائے تو اس کے بہت سے فوائد ہو ں گے۔اپنے قومی لباس کو فخر اور نفاست کے ساتھ پیش کیا جائے تو شاید ہم لوگ بہت سی پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچ جائیں اور پھر جب میڈیا حکمرانوں کی عیاشیوں ‘ کرپشن اور ان کی شاہ خرچیوں پر اعتراض کرے گا تو شاید حکمرانوں پر بھی کوئی اثر ہو جائے اور وہ لوگ بھی اپنا قبلہ درست کر سکیں لیکن اس سے پہلے ہم میڈیا والوں کو اپنا احتساب کرنا ہو گا پھر کوئی بات بنے گی ۔