اگر سوال یہ ہو کہ علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ علیہ کی نظر میں فلسفہ حیات کیا ہے تو اسکا جواب صرف ایک لفظ میں دیا جا سکتا ہے اور وہ ہے ،،خودی،،۔اقبال نے اپنی فکرو نظر سے اس لفظ کو جملہ مباحث کا محور بناتے ہوئے فلسفہ حیات کو نظریہ خودی کے لفظ سے موسوم کیا ہے ۔اس محور تک رسائی کیلئے انہوں نے ذات و کائنات کے بارے میں فلسفہ زندگی کے بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں کی ہے۔ان سوالات میں انسان کیا ہے ؟ کائنات اور اسکی اصل کیا ہے؟کیا کائنات کا وجود اصل ہے یا محض نظر کا دھوکہ؟اگر یہ ایک چھلاوہ ہے تو اس کے پسِ پردہ کیا ہے؟اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے کے جواب میں اقبالؒ نے دلائل اور برہان سے کام لیتے ہوئے اسے مستقل فلسفہ حیات میں ڈھال دیا ہے اور اسی فلسفہ حیات سے علامہ محمد اقبال کے نظریاتِ زندگی مشرق و مغرب کے حکمائے جدید سے بالکل الگ ہو گئے ہیں ۔نظریہ خودی میں خود بینی و خدا بینی لازم و ملزوم ہیں کیونکہ خود بینی ،خدا بینی سے الگ نہیں بلکہ خدا بینی کی معاون ہے ۔خدا کو فاش تر دیکھنے کیلئے خود کو فاش تر دیکھنا از بس ضروری ہے ڈاکٹر سید عبداللہ علامہ اقبال کے نظریہ خودی کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں ؛خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے ،خودی عشق کے مترادف ہے،خودی ذوق تسخیر کا نام ہے ،خودی سے مراد خود آگاہی ہے ،خودی ذوق طلب ہے ،خودی ایمان کے مترادف ہے ،خودی سر چشمہ جدت و ندرت ہے،خودی یقین کی گہرائی ہے،خودی سوز حیات کاسرچشمہ اور ذوق تخلیق کا ماخذ ہے ،، ۔عام طور پر ہم خودی کا لفظی مطلب غروروتکبراور بڑکپن سے لیتے ہیں لیکن اقبال کے نزدیک خودی کے معنی احساس غیرت مندی،جذبہ خودداری کا ،،اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا ،اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا ،حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا ،مظاہراتِ فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کی بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے ہیں ۔یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اقبال کی نظر میں ،،خودی،، زندگی کا آغاز ،وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فردو ملت کی ترقی و تنزلی ،خودی کی ترقی وتنزلی پر منحصر ہے ۔خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام زندگی کااستحکام ہے ،ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے ۔اسکی کامیابیاں اور کار کشائیاں اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں ۔علامہ اقبال کی نظر میں لا الہٰ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے توحید،خودی کی تلوار کو آب دار بناتی ہے اور خودی ،توحید کی محافظ ہے ۔انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پرہے قوت و تربیت یافتہ خودی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ،خودی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشاہی کی شان پیدا ہو جاتی ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تصوف میں آ جاتا ہے۔اقبالؒ کا نظریہ خودی ،نظریہ وحد ت الوجود اور نظریہ وحدت الشہود کی بھی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔در اصل یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ نظریہ خودی ہی اصل میں اقبال کی فکر کا محور و موضوع بنا رہا جس کے تمام پہلوؤں پر انہوں نے ہر ادوار پر محیط روشنی ڈالی ہے ۔انہوں نے عارضی خودی کو ترک کئے بغیر اسی کو وسیلہ بنا کر بے خودی تک رسائی حاصل کی مطلب انہوں نے فلسفہ خودی کے تمام اساسی مضامین درحقیقت قرآن سے اخذکئے۔ان کے نزدیک مخلوقات میں انسان اس لئے سب سے افضل ہے کیوں کہ اس میں خودی کا عنصر موجود ہے اور اسی وجہ سے فطرت انسان مشاہدہ کی پابند ہے اقبال ؒ کے مطابق خودی کی منزل زمان و مکاں کی تسخیر پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کا تخیل انسان کی جدو جہد و عمل سے نئے نئے میدان دکھاتا ہے ۔اقبالؒ کے نزدیک خودی کو آگے بڑھانے میں ایک چیز سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے اور وہ ہے آرزو،عشق کہ جو ارتقائے خودی میں سب سے بڑا محرک ثابت ہوتا ہے اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہر راہ کی منزل تک پہنچانے کیلئے ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے اور نظریہ خودی کی منزل تک پہنچنے کیلئے اگر کوئی رہنما ہے تو وہ عشق ہے جسے مرد کامل کی اس محبت کو کہتے ہیں جو معرفت نفس کے مداروں میں سفر کرتا ہوا خودی کی معراج تک پہنچ چکا ہو۔اقبالؒ نے سبھی انسانوں کو ہمیشہ برابری کا درجہ دیا ہے لیکن جو لوگ خودی سے ہٹ کر مفلس و دولت مندوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے یہاں تک کہ اگر کوئی بادشاہ جو غریبوں کی کمائی پر بسر کرتا ہے کو بھی سب سے بڑا گدا گر قرار دیا ہے اس کے نزدیک گداگری صرف مرد کامل کے سامنے خودی کیلئے جائز ہے کہ جو خودی کو مستحکم بناتی ہے۔ان کے مطابق گدائی اور فقر کو مختلف معنوں میں لینا غلط نہیں ہو گا کہ گدائی مال کی حاجت میں دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کے مترادف ہے اور فقر مادیت سے بے نیاز کائنات کو تسخر کرنے ،فطرت پر حکمرانی اور مظلوموں کو ظالموں کے ظلم سے بچانے کا دوسرا نام ہے ۔جیسے کسی بھی کام کا آغاز کرنے سے پہلے اسکی تربیت لینا ضروری ہے اسی طرح اقبالؒ کے نزیک بے قیدو بے ترتیب خودی کی مثال شیطان ہے ان کے مطابق خودی کی تربیت کے تین مراحل ہیں اطاعت الٰہی یعنی اللہ کے قانون حیات کی پاسداری کرنا ،ضبط نفس یعنی نفس کو قابو میں رکھنااور نیابت الٰہی یعنی انسان اللہ کے نزدیک اس درجے پر فائز ہو جائے کہ اللہ اسے اپنا حبیب بنا لے اور نیابت الٰہی کا درجہ ہی ارتقائے خودی کا بلند ترین نصب العین ہے ۔علامہ محمد اقبال ؒ نے ہمیشہ اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کی ایمان کی طاقت کو بیدار کیا اور ان میں اس بات کا شعور پیدا کیا کہ اصل میں نظریہ خودی ،نظریہ اسلام کا پیامبر ہے اسی کی بدولت مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک پوری دنیا پر حکومت کی اور جب خودی کے لفظ کا مطلب غلط نکال کر غرور و تکبر کو خودی سمجھنا شروع کیا تو ان کی سلطنت فنا ہ ہو گئی اور وہ زمانے کی تاریک راتوں میں گم ہو کر رہ گئے ۔وہ ہمیشہ چاہتے تھے کہ مسلمان یکجا ایک ملت بن کر رہیں اور اپنی خودی کی پاسبانی کرتے ہوئے فلسفہ حیات کو سمجھ کر زندگی گزاریں کہ بے شک یہ دنیاوی زندگی فانی ہے جس کیلئے انسان محنت کر رہا ہے وہ اپنی اصل کو بھول کر دھوکے کے پیچھے بھاگ رہا ۔