ماہ رجب رواں ہے ، اس ماہ کی ایک بڑی فضلیت یہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج ہوئی جس میں فرضیت نماز کا حکم دیا گیا۔ واقعہ معراج کی تاریخ اور سال کے متعلق ‘ مؤرخین اور مفسرین کی رائے مختلف ہیں،ان میں سے معروف رائے یہ ہے کہ نبوت کے بارہویں سال ۲۷ رجب کو ۵۱ سال ۵ مہینہ کی عمر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج ہوئی۔ غرضیکہ مشہور ومعروف قول کے مطابق نماز کی فرضیت کا حکم رجب کے مہینہ میں ہوا۔صرف نماز ہی دین اسلام کا ایک ایسا عظیم رُکن ہے جسکی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات ہوا۔ نیز اس کا حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم تک نہیں پہنچا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرضیتِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و سلم کو عطاء فرمایا۔ قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث مبارکہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نماز کی مسلمہ اہمیت وفضیلت کو کثرت سے ذکر کیا گیا ہے جن میں نماز کو قائم کرنے پر بڑے بڑے وعدے اور نماز کو ضائع کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔نماز، ایمان کے بعد اسلام کا اہم ترین رُکن ہے قرآن وحدیث میں اس اہم اور بنیادی فریضہ کی ادائیگی کی تاکید کو کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔ صرف قرآنِ پاک میں تقریباً سات سو مرتبہ، کہیں اشارۃً اور کہیں صراحۃً مختلف عنوانات سے نماز کا ذکر ملتا ہے۔
نماز کی ادائیگی کے بارے میں قرآن کریم کر سورۂ العنکبوت کی آیت نمبر ۴۵ میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں ’’ جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کیجئے، یقیناًنماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ نماز میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے مگر دن میں چوری کرتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہُ اس کی نماز عنقریب اُس کو اِس برے کام سے روک دے گی۔ (مسند احمد) ‘‘ سورۂ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۵۳ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، بیشک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ جب بھی کوئی پریشانی یا مصیبت سامنے آئے تو مسلمان کو چاہئے کہ وہ اُس پر صبر کرے اور نماز کا خاص اہتمام کرکے اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم بھی ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہوتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا، آپ فوراً نماز کا اہتمام فرماتے۔ (ابو داود ومسند احمد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پانچ فرض نماز وں کے علاوہ نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، تحےۃ الوضوء اور تحےۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے، اور پھر خاص خاص مواقع پر اپنے رب کے حضور توبہ واستغفار کے لئے نماز ہی کو ذریعہ بناتے، سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاتے۔ زلزلہ، آندھی یا طوفان حتی کہ تیز ہوا بھی چلتی تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔ فاقہ کی نوبت آتی یا کوئی دوسری پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد تشریف لے جاتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔ اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ نماز کا خاص اہتمام کریں۔ اور اگر کوئی پریشانی یا مصیبت آئے تو نماز کی ادائیگی اور صبر کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔
سورۂ المائدہ کی آیت ۱۲میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم رکھوگے اور زکواۃ دیتے رہوگے۔ ‘‘ یعنی نماز کی پابندی کرنے سے بندہ اللہ تعالیٰ کے بہت زیادہ قریب ہوجاتاہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بندے کو اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ قرب سجدے کی حالت میں حاصل ہوتا ہے۔ ‘‘ قرآن کریم میں ہی ارشاد ربانی ہے’’ یقیناًان ایمان والوں نے فلاح (کامیابی) پائی جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں۔۔۔اور جو اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں، یہی وہ وارث ہیں جو (جنت) الفردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ (سورۂ المؤمنون) ‘‘ ان آیات میں کامیابی پانے والے مو منین کی چھ صفات بیان کی گئی ہیں پہلی صفت‘ خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا،اور آخری صفت پھر‘ نماز کی پوری طرح حفاظت کرنا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نماز کا اللہ تعالیٰ کے پاس کیا درجہ ہے اور کس قدر مہتم بالشان چیزہے کہ مومنین کی صفات کو نماز سے شروع کرکے نماز ہی پر ختم فرمایا گیا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو جنت کے وارث یعنی حق دار ہوں گے، جنت بھی جنت الفردوس‘ جو جنت کا اعلیٰ حصہ ہے جہاں سے جنت کی نہریں جاری ہوئی ہیں۔ غرض جنت الفردوس کو حاصل کرنے کے لئے نماز کا اہتمام بے حد ضروری ہے۔ ایک دوسری جگہ ارشاد ہے کہ ’’بیشک انسان بڑے کچے دل والا بنایا گیا ہے جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑبڑا اٹھتا ہے اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے، مگر وہ نمازی جو اپنی نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں،یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔ (سورۂ المعارج ۱۹۔۳۵) ‘‘ ان آیات میں جنتیوں کی آٹھ صفات بیان کی گئی ہیں جن کو نماز سے شروع اور نماز ہی پرختم کیا گیاہے۔ معلوم ہوا کہ نماز اللہ کی نظر میں کس قدر مہتم بالشان عبادت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائیگا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ اس حدیث مبارکہ کو جامع ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود، مسند احمدنے نقل کیا ہے۔‘‘ ایک دوسری جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز اچھی ہوئی تو باقی اعمال بھی اچھے ہوں گے اور اگر نماز خراب ہوئی تو باقی اعمال بھی خراب ہوں گے۔ (طبرانی)‘‘ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ اللہ کو کونسا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا والدین کی فرمانبرداری۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے کہا کہ اس کے بعد کونسا عمل اللہ کو زیادہ محبوب ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ ‘‘ (بخاری ، مسلم) حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرتے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تین مرتبہ یہی کہا، تو ہم نے اپنے ہاتھ بیعت کے لئے بڑھادئے اوربیعت کی، ہم نے کہا اے اللہ کے رسول! ہم نے کس چیز پر بیعت کی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا صرف اللہ کی عبادت کرو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ،اورنماز کی پابندی کرو۔اس کے بعد آہستہ آواز میں کہا لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو۔ (نسائی، ابن ماجہ، ابوداود، مسند احمد) ‘‘ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز کا ذکر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا جو شخص نماز کا اہتمام کرتا ہے تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور ہوگی، اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی دلیل ہوگی ، اور قیامت کے دن عذاب سے بچنے کا ذریعہ ہوگی۔ اور جو شخص نماز کا اہتمام نہیں کرتا اس کے لئے قیامت کے دن نہ نور ہوگا، نہ اس (کے پورے ایماندار ہونے) کی کوئی دلیل ہوگی، نہ عذاب سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہوگا۔ اور وہ قیامت کے دن فرعون، قارون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔ (صحیح ابن حبان ، طبرانی، بیہقی، مسند احمد)‘‘ علامہ ابن قیم ؒ نے (کتاب الصلوٰۃ) میں ذکر کیا ہے کہ ان کے ساتھ حشر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اکثر ان ہی باتوں کی وجہ سے نماز میں سستی ہوتی ہے جو ان لوگوں میں پائی جاتی تھیں۔ پس اگر اسکی وجہ مال و دولت کی کثرت ہے تو قارون کے ساتھ حشر ہوگا، اور اگر حکومت و سلطنت ہے تو فرعون کے ساتھ، اور وزارت یا ملازمت ہے تو ہامان کے ساتھ، اور تجارت ہے تو ابی بن خلف کے ساتھ حشر ہوگا۔ جو لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہنے کے باوجود بالکل نماز ہی نہیں پڑھتے یا کبھی کبھی پڑھ لیتے ہیں، وہ غور کریں کہ ان کا انجام کیا ہوگا۔ یا اللہ! اس برے انجام سے ہماری حفاظت فرما۔ آمین
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’ نماز نور ہے، صدقہ دلیل ہے، صبر کرنا روشنی ہے اور قرآن تمہارے حق میں دلیل ہے یا تمہارے خلاف دلیل ہے (یعنی اگر اسکی تلاوت کی اور اس پر عمل کیا تو یہ تمہاری نجات کا ذریعہ ہوگا ،ورنہ تمہاری پکڑ کا ذریعہ ہوگا)۔ (مسلم)‘‘ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھا۔ ایک دن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب تھا، ہم سب چل رہے تھے۔ میں نے کہا اے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ مجھے ایسا عمل بتادیجئے جسکی بدولت میں جنت میں داخل ہوجاؤں اور جہنم سے دور ہوجاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم نے بڑی بات پوچھی ہے۔ لیکن اللہ جس کے لئے آسان کردے اس کے لئے آسان ہے۔ اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، زکواۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اوراللہ کے گھر کا حج کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں تمہیں اس معاملہ کی اصل، اس کا ستون اور اسکی عظمت نہ بتادوں؟ میں نے کہا ضرور۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا معاملہ کی اصل اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے ، اور اسکی عظمت اللہ کی راہ میں جہاد ہے۔ (ابن ماجہ، ترمذی، مسند احمد)‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو اِن نمازوں کو اس طرح لے کر آئے کہ ان میں لاپرواہی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے تو حق تعالیٰ شانہ کا عہد ہے کہ اس کو جنت میں ضرور داخل فرمائیں گے۔ اور جو شخص ایسا نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کا کوئی عہد اس سے نہیں، چاہے اسکو عذاب دیں چاہے جنت میں داخل کردیں ۔ ‘‘ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں، جو نماز کو (قیامت کے دن) اس طرح لے کر آئے کہ ان میں لاپرواہی سے کسی قسم کی کوتاہی نہ کی ہو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس بندے سے عہد کرکے اس کو جنت میں داخل فرمائیں گے اور جو نماز کواس طرح لے کر آئے کہ ان میں لاپرواہیوں سے کوتاہیاں کی ہیں تو اللہ کا اس سے کوئی عہد نہیں چاہے اسکو عذاب دیں ، چاہے معاف فرمادیں۔ (موطا مالک، ابن ماجہ، مسند احمد)‘‘ قارئین غور فرمائیے کہ نماز کی پابندی پر جس میں زیادہ مشقت بھی نہیں ہے، مالک الملک دو جہاں کا بادشاہ جنت میں داخل کرنے کا عہد کرتا ہے پھر بھی ہم اس اہم عبادت سے لاپرواہی کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا’’ جو شخص پانچوں نمازوں کی اس طرح پابندی کرے کہ وضو اور اوقات کا اہتمام کرے، رکوع اور سجدہ اچھی طرح کرے اور اس طرح نماز پڑھنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے ذمہ ضروری سمجھے تو اس آدمی کو جہنم کی آگ پر حرام کردیا گیا۔ (مسند احمد)‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’ جنت کی کنجی نمازہے، اور نماز کی کنجی پاکی (وضو) ہے۔ (ترمذی، مسند احمد)‘‘ حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس (آپکی خدمت کیلئے) رات گزارتا تھا، ایک رات میں نے آپ کے لئے وضو کا پانی اور ضرورت کی چیزیں پیش کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کچھ سوال کرنا چاہتے ہو تو کرو ۔ میں نے کہا میں چاہتا ہوں کہ جنت میں آپ کے ساتھ رہوں،آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کے علاوہ کچھ اور، میں نے کہا، بس یہی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے زیادہ سے زیادہ سجدے کرکے میری مدد کرو ۔ (یعنی نماز کے اہتمام سے یہ خواہش پوری ہوگی)۔ خوش نصیب ہیں اللہ کے وہ بندے جو اِس دنیاوی زندگی میں نماز کا اہتمام کرکے جنت الفردوس میں تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی مرافقت پائیں ۔ (مسلم)‘‘ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں رکھی گئی ہے۔ (نسائی، بیہقی، مسند احمد)‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانِ مبارک سے نکلا آخری کلام (نماز، نماز اور غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ) تھا۔ (ابو داود، مسند احمد)‘‘ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخری وصیت یہ ارشاد فرمائی ، نماز، نماز ۔ اپنے غلاموں (اور ماتحت لوگوں) کے بارے میں اللہ سے ڈرو، یعنی ان کے حقوق ادا کرو۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ وصیت فرمائی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانِ مبارک سے پورے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ (مسند احمد)‘‘ حضرت عمرو اپنے والد اور وہ اپنے دادا (حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا’’اپنے بچوں کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم کرو۔ دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر انہیں مارو، اور اس عمر میں علیحدہ علیحدہ بستروں پر سلاؤ ۔ (ابوداود)‘‘ اس حدیث مبارکہ میں والدین کو حکم دیا گیا کہ جب بچہ سات سال کا ہوجائے تو اسکی نماز کی نگرانی کریں، دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر پٹائی بھی کریں تاکہ بلوغت سے قبل نماز کا پابند ہوجائے، اور بالغ ہونے کے بعد اس کی ایک نماز بھی فوت نہ ہو کیونکہ ایک وقت کی نماز جان بوجھ کر چھوڑنے پر احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو یہ حکم جاری فرمایا کہ میرے نزدیک تمہارے امور میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی ہے۔ جس نے نمازکی پابندی کرکے اسکی حفاظت کی، اس نے پورے دین کی حفاظت کی اور جس نے نماز کو ضائع کیا وہ نماز کے علاوہ دین کے دیگر ارکان کو زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا۔ (موطا امام مالک)‘‘ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جو شخص نماز میں کوتاہی کرتاہے، وہ یقیناًدین کے دوسرے کاموں میں بھی سستی کرنے والا ہوگا۔ اور جس نے وقت پر خشوع وخضوع کے ساتھ نماز کا اہتمام کرلیا، وہ یقیناًپورے دین کی حفاظت کرنے والا ہوگا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شبِ معراج میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں، پھر کم ہوتے ہوتے پانچ رہ گئیں۔ آخر میں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) اعلان کیا گیا۔ اے محمد! میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی، لہٰذا پانچ نمازوں کے بدلے پچاس ہی کا ثواب ملے گا۔ (ترمذی)‘‘
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے یمن بھیجا تو ارشاد فرمایا تم ایسے لوگوں کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں، لہذا سب سے پہلے ان کو اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ جب اس بات کو مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے روزانہ پانچ نمازیں ان پر (ہر مسلمان پر) فرض کی ہیں۔(بخاری ،مسلم)‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’سات قسم کے آدمی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنی (رحمت کے) سایہ میں ایسے دن جگہ عطا فرمائے گا جس دن اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اُن سات لوگوں میں سے ایک وہ شخص بھی ہے جس کا دل مسجد سے اٹکا ہوا ہو (یعنی وقت پر نماز ادا کرتا ہو) ۔ (بخاری ،مسلم)‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’ تم میں سے جب کوئی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اللہ سے مناجات (سرگوشی) کرتا ہے۔ (بخاری)‘‘ ہم تمام مسلمانوں کو اہم ترین عبادت نماز باجماعت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، بلاشبہ نماز دین کا اہم ستون ہے ، نماز مومن کی معراج ہے، اور مرنے کے بعد سب سے پہلے نماز کے بارے میں ہی سوال ہوگا۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو خشوع خضوع کے ساتھ وقت پر نماز ادا کرنے والا بنائے۔ اور ہماری عبادات کو اپنی بارگاہ رحمت میں قبول و منظورفرمائے۔ آ مین