مزدوروں کی خود احتسابی

Published on May 2, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 433)      No Comments

Maqsood
یکم مئی مزروروں کا دن پوری دنیا میں بھر پور جوش اور ولولے سے منایا جاتا ہے اس روز مزدوروں کی ریلیاں کانفرنسیں اور اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جس میں شکاگو کے قربان ہونے والے مزدوروں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔دنیا کے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو مزدور اتحاد یکجہتی اور بھائی چارے کے مظاہروں سے متاثر کرنے کی سعی و کوشش کی جاتی ہے اس دن یہ عہد بھی کیا جاتا ہے کہ مزدوروں کے حقوق سے کھیلنے والی آمرانہ منفی اور طاغوتی طاقتوں کا متحدہ پلیٹ فارم سے مقابلہ کیا جائے گا۔آڑے آنے والی قوتوں کو کچل کر رکھ دیا جائے گا۔مزدور لیڈر اس روز اسٹیجوں پر کھڑے ہو کر بلند و بانگ دعوے اور گلے پھاڑ پھاڑ کر مزدوروں کے جذبات بر انگیخت کرتے ہیںَاس روز مزرود لیڈر اگر کسی حکمران کا دھڑن تختہ کرنا چاہیں تو باآسانی کر سکتے ہیں یہ تو ان کی حب الوطنی ہے کہ وہ کسی تخریب کاری اور غنڈہ گردی کی مر تکب نہیں ہوتے۔میرے وطن کے مزدور نہایت بھولے بھالے اور سادہ سوچ اور مزاج کے مالک ہیں ۔ان کی سادہ لوحی سے ہی پیشہ ور لیڈر کی موج بنی ہوئی ہے کہ وہ مزدوروں کے جذبات سے کھیل کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کر لیتا ہے جس کے نتیجے میں آج ہمارے ہاں صنعتی امن آئے روز خطرات کے گور اندھیروں میں ڈوبا رہتا ہے۔سرمایہ کار کی تو یہ خواہش ہوتی ہے کہ مزدور ،مزدور کا گلا گھونٹتا رہے۔مزدوروں کی کشمکش سے گو اس کے سارے مقصد پورے تو نہیں ہوتے لیکن پھر بھی کچھ نہ کچھ اس کی روح کو سکون ضرور حاصل ہو ہی جاتا ہے۔
یوم مئی مزدوروں کے اتحاد اور بھائی چارے کی علامت ہے۔اس روز مزدور کو چاہے معاشی حقوق نہ بھی حاصل ہوں لیکن وہ نفسیاتی طور پر انتہائی مطمئن نظر آتا ہے۔اس روز حکومتی سظح پر بھی محفلیں اور جلسے منعقد ہوتے ہیں۔جن میں حکومتی عہدیدار مزدوروں کے حقوق و مسائل کے تدارک کے لیے انہیں یقین دلاتے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ وقتی ہوتا ہے۔لیکن میرے وطن کے مزدور کی سادگی دیکھئے کہ وہ ان مصنوعی دعوں کو بھی حقیقی رنگ تصور کر بیٹھتا ہے۔اور دل ہی دل میں خیا لی منصوبے اور پروگرام تخلیق و تشکیل دے کر دل کو جھوٹی تسکین دے لیتا ہے۔یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں۔زیادہ تر مزدور انتہائی معاشی اور سماجی پسماندگی کا شکار ہیں اور اس صورتحال نے مزدور کی جسمانی ،روحانی صلاحیتوں کو سلب کر رکھا ہے۔جس کے نتیجے میں صنعتی پیداواری عمل اور معیاری مصنوعات کی ترسیل یقینی نہیں بن سکی ۔یہ نہایت افسوس ناک امر ہے کہ ہمارے ہاں سرکاری و غیر سرکاری صنعتی اداروں میں مزدوروں کے معاوضوں میں یکسانیت نہیں پیدا ہو سکی ۔ایک سرکاری اداروہ ایک مزدور کو ماہانہ نو ہزار روپے دیتا ہے تو دوسری جگہ دس ہزار روپیہ دیا جاتا ہے۔اس غیر مساویانہ طرز عمل کے باعث پیشیہ ور مزدور لیڈرکو مزدوروں کے جذبات سے کھیلنے کا موقع باآسانی مل جاتا ہے۔صنعتی کارکن کی تعریف میں بھی ترمیم کی جانی چاہیے۔مشاہدے میں آیا ہے کہ بیشتر اداروں کے افسر اور سپر وائزر ی سٹاف کے ممبران بھی لیبر کے زمرے میں آتے ہیں۔جس سے نہ صرف انتظامی معاملات دگرگوں رہتے ہیں بلکہ صحیح صنعتی کارکن جو صرف ہاتھ سے کام کرتا ہے کے حقوق بھی مجروح ہوتے ہیں۔شعبہ انچارج کو بھی لیبر کی کیٹگری میں شمار کرنا اس شعبے کی تباہی و بربادی کا مژدہ سنانے کے مترادف ہے اور مزدور کی شان گھٹانے والی بات ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی لیبر پالیسی میں ایسی ترمیمات کی جائیں جس سے ماضی کی فرسودگی ،بے ہودگی تعصبات اور تفرقات کا خاتمہ ہو ۔صنعتی انقلاب کی پالیسی کو ہر ممکن کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار کرنے میں کوئی رکاوٹ ،قباحت یا مزاحمت درپیش نہ آسکے کہ نئی لیبر پالیسی میں مزدور کے معاشی ،سماجی تحفظات کو مکمل طور پر یقینی بنانے کی ہر ممکن سعی و کوشش کی جائے۔آجر اور آجر کے درمیان پائی جانے والی دشمنی اور نفرت کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔علاوہ ازیں صنعتی کارکن کے معاشی ،سماجی حقوق و مسائل کی بیخ کنی کے لیے جہاں تک ممکن ہو سکے سرکاری وسائل کوبھی بروئے کار لانے میں کوتاہی تساہل اور بخل سے کام نہ لیا جائے ۔ہر شخص کو بخوبی علم ہے کہ مزدور کی معاشی خوشحالی ملک و ملت کی خوشحالی اور سلامتی ہے۔مزدور خوش رہے گا تو پیداواری عمل معیاری اور تیز ہو گا۔مصنوعات کی ترسیل میں تیزی آئے گی۔درآمدات میں اضافہ سے زرمبادلہ میں اضافہ ہو گا۔اس طرح ملک و قوم کی خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔مزدور کی بہبود اور بھلائی بالواسطہ اور بلا واسطہ ملک و ملت کی بہتری سے ہے۔لہٰذا ہمارے سرمایہ دار کو چاہیے کہ وہ مزدور کی عزت نفس اور اس کی سماجی اور معاشی خوشحالی کے لیے بخل سے کام نہ لیں۔
یہ حقیقت ہے کہ میرے وطن کا مزدور انتہائی محنتی اور دیانتدار ہے ۔مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی مزدور صحت مند محنتی اور دیانتدار ہے۔بھارت ،بنگلہ دیش،سری لنکا ،سوڈان اور مصری مزدور کی نسبت پاکستانی مزدور میں جسمانی اور ذہنی صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ہمارے صنعت کاروں ،تاجروں اور جاگیرداروں کو بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات کے تحت خود کو بدلنا ہو گااور مزدور کی قوت اور صلاحیتوں کو لوہا منوانا ہو گا۔
حکومت کو چاہیے کہ مزدوری میں گھپلا کرنے والے صنعت کاروں کے خلاف سختی سے نوٹس لے۔مشاہدے میں آیا ہے کہ سرمایہ دار مزدور کو کئی کئی برس تک اس کی تنخواہ یا معاوضے میں اضافہ نہ کر کے اس کی مجبوریوں سے کھیلتا ہے۔۔راقم کی رائے ہے کہ مزدور کی تنخواہ فکس کی جائے اور سالانہ ترقی با قاعدگی سے دی جائے ۔ سرمایہ دار کے پاس حکومت کو لوٹنے کے بہت سے وسائل طریقے اور انداز ہیں۔۔مزدور کی مزدوری سے لوٹ مار کر کے اسے کچھ فائدہ نہیں ہو گا بلکہ وہ اپنی آخرت بھی خراب کر لیں گے ۔مزدور کی مزدوری میں گھپلے بازی کر کے خیرات و صدقات وغیرہ بانٹنے کا کوئی فائدہ نہ ہو گا اس سے ثواب کی بجائے گناہ ہو گا۔خدارا مزدور سے پیار کیجیے اسے عزت دیجئے یہ اس کے عوض آپ کو وفاداری اور قربانی دے گا۔

Readers Comments (0)




Weboy

Free WordPress Themes