اسلام آباد(یو این پی) سپریم کورٹ نے سرگودھا اور حسن ابدال میں قتل کے دو الگ الگ مقدمات میں ملوث دو ملزمان کی بریت کی اپیلیں خارج کرتے ہوئے مقدمات نمٹا دیئے۔ دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں کوئی سچ بولنے کو تیار نہیں ہے یہاں نہ کسی کو اللہ کا خوف ہے اور نہ ہی سچ کی اہمیت کا احساس، دھڑے بندیاں ہیں ہر کوئی اپنے دھڑے کے ساتھ چلتا ہے۔ مقدمہ کی کارروائی شروع ہوئی تو محمد یوسف ضیاء ایڈوکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مقتول کے بھائی عمران نے اپنے بھائی کے ساتھ ملکر ایاز کے گھر حملہ کیا دونوں کے درمیان جامن کے درخت پر چڑھ کر سامنے والے گھر میں جھانکنے پر تلخ کلامی ہوئی جس پر عمران اور دیگر نے گھر پر ہلا بول دیا اور ملزم ایاز اور اس کے بھائی منصور کو مار کر زخمی کر دیا، مقتول عبداللہ کے بھائی عمران نے ہی ایاز کے والد کی لائسنس یافتہ بندوق اٹھا کر فائر کرنے کی کوشش کی جس پر ایاز نے چھیننے کی کوشش کی تو عمران کے بھائی کو گولی لگ گئی جس سے وہ جاں بحق ہو گیا۔ ملزم ایاز پیشہ کے اعتبار سے انجینئر ہے اور دبئی میں ملازمت کرتا تھا، ایک آنکھ میں نظر کم ہونے کی وجہ سے وطن واپس آنا پڑا، جبکہ ملزم کے بھائی نے جیل میں رہتے ہوئے ایم ایس سی مکمل کر لی، ملزم کو بری کیا جائے، ملزم پر جولائی 2007 میں عبداللہ نامی شخص کو قتل کرنے کے الزم تھا، سیشن عدالت کی جانب سے ملزم کو سزائے موت، ہائی کورٹ سے عمر قید جبکہ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے بریت کی اپیل خارج کر دی ہے۔ دریں اثنا جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے حسن ابدال میں سفارت خان نامی شخص کو قتل کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا پانے والے ملزم نثار کی بریت کی درخواست خارج کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے، مقتول کے ورثا کی جانب سے وکیل بشیر پراچہ عدالت میں پیش ہوئے تاہم ملزم کے وکیل عدالت میں پیش نہ ہو سکے، جبکہ مذکورہ کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ قتل ہوتے دیکھ کر بھاگتا کوئی نہیں ہے، لوگ لڑائی پوری دیکھتے ہیں لیکن گواہی دینے کوئی نہیں آتا، اللہ کا حکم ہے اللہ کے لیے سچی شہادت دو سچی شہادت کو مت چھپائو، عدالت نے ملزم کے وکیل شیخ احسن کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وکیل صاحب اپنے قائد کے ساتھ سندھ کے دورے پر ہیں عدالت کو وجہ بتائی کہ ذاتی کام کے سلسلے میں سندھ جا رہا ہوں، سچ بتا دیتے تو ان کی استدعا کو منظور کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت ملتوی کر دیتے، آصف سعید کھوسہ نے مزید کہا کہ جب کوئی شخص اپیل کرتا ہے تو وہ ججوں کے سامنے کرتا ہے، تاہم موکل وکیل کو ججوں کی معاونت کے لیے مقرر کرتا ہے، عدالت کی معاونت کرنے والا کیس میں پیش نہ ہو تو عدالت کی ذمہ داری ختم نہیں ہو جاتی، ہماری زمہ داری موکل سے ہوتی ہے، سپریم کورٹ میں ایسا نہیں ہونا چاہیے، دریں اثنا عدالت نے ملزم نثار کی بریت کی درخواست خارج کرتے ہوئے مقدمہ نمٹا دیا۔