صاحب جی معاف کیجئے گا

Published on May 3, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 555)      No Comments

Sultan
رہزن ہے میرارہبر ،منصف ہے میرا قاتل
سہہ لوں تو قیامت ہے اور کہہ دوں تو بغاوت ہے
پانامہ لیکس کو منظر عام پر لانے والوں کا برا ہوں جن کی وجہ سے آج وزیر اعظم کو جگہ جگہ اپنی صفائی دینی پڑ رہی ہے ساتھ میں کابینہ اراکین بھی لمبی لمبی چھوڑ رہے ہیں دوسری جانب اپوزیشن والوں کی لاٹری نکل آئی ہے جس کا اعتراف خود وزیراعظم کرچکے ہیں کہ ان کو موقع چاہیے بس ہمیں تنگ کرنے کا ویسے کل رات کو ہونے والی میٹنگ میں اپوزیشن نے بظاہر تو عوام کے سامنے بڑا نپاتلا موقف پیش کیا ہے مگر ایوان میں موقع دینا صفائی کا اس کے پیچھے بھی لمبی کہانی ہے اس کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ معہ آزاد کشمیر ،گلگت بلتستان اپنی اپنی حکومتوں کو دوام بخشنے کیلئے نت نئے منصوبوں پر عمل درآمد کیلئے بے چین و بے قرار ہیں اس مقصد کیلئے لاکھ جھوٹ بولنے پڑیں تو وہ گریز نہیں کرتے ان کے ارد گرد رہنے والی باڈی گارڈز حضرات ان سے بھی دو قدم آگے ہیں مگر حقیقت حال کیا ہے عوام کس عذاب سے دوچار ہیں ان حکمرانوں کو اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ان کے نزدیک عوام بھیڑ بکریاں ہیں جنہیں صرف فوٹو سیشن اخبارات اور نیوز چینلوں پر بڑے بڑے اشتہارات چلوا کر ہانکا جا سکتا ہے ویسے یہ قوم ہے بھی اس قابل ضمیر نام کی کوئی چیز جب عوام میں نہیں تو لیڈران میں کیسے آئے گی آنکھوں کے سامنے کوئی کسی کی جان لے لے یا عزت و مال لوٹ لے یہ کچھ کرنے کو تیار نہیں بقول سپریم کورٹ کے کوئی سچی گواہی دینے کو تیار نہیں ہے ایک نامور ادارہ جسے بین الاقوامی طور پر معاشرے کی آنکھ کے نام سے جانا جاتا ہے ان کو صرف اپنی ریٹنگ سے لگاؤ ہے جو مرضی چلواؤ اسلام و ملک کا بیڑا غرق کروالو ،مختلف انٹرٹینمنٹ شوز کے نام پر سوائے چند ایک جو عوامی مسائل کے حل کیلئے اپنی جان کی بازی لگاتے ہیں مگر ان کو جیل میں بھیج دیا جاتا ہے ،
ہمارے موجودہ و سابقہ حکمرانوں کو آج جب کسی ادارے نے زارا سے گھور کر دیکھا ہے تو چیخ چیخ کر عوام کی خدمت کے دعوے کر رہے ہیں صرف ایک سوال ہے ان سے اس بے بس قوم کا جناب کوئی سائیں سرکار کے نام کا لبادہ اوڑھ کر عرصہ دس سال سے عوام پر مسلط ہے تو کوئی خادم اعلیٰ کا لقب اپنا کر ۔ان دس سالوں میں کوئی ایک بھی سرکاری ادارہ ایسا نہیں ہے جسے مثالی ادار ہ کہا جاسکے سب ادارے تباہ حالی کا شکار ہیں دعوے کرنے والے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں جناب من عزت ماٰب قوم کہہ رہی ہے ہماری قسمت کے فیصلے کرنے والو قرضوں کے نام پر ہمیں غیروں کا غلام بنانے والو ایک ایسی قوم کو جس نے لاکھوں شہیدوں کے خون سے دریا بہا کر تین صدیوں کی آبلہ پائی کے بعد اس وقت کے محب وطن لیڈران کی قیادت میں سامراج سے آزادی حاصل کی تھی آج پھر ہمیں اُسی دور میں پہنچا دیا گیا ہے ۔
ہر طرف چوروں ڈاکوؤں کا راج ہے ملک عظیم کی دولت کو نوچ نوچ کر اپنے بنک بیلنس میں اضافہ کرنے والے آج پھر مگر مچھ کے آنسو بہا کر عوام کو بیوقوف بنانے کی سرتوڑ عملی کوششیں کرنے میں مصروف ہیں ان میں ضمیر نام کی کوئی چیز سرے سے نہیں ہے ایوانوں میں بیٹھ کر عوام کے پیسوں سے اللے تللے اوڑانے والے یہ مہذب اراکین ان کے بارے لکھا جائے تو ان کی توہین ہوتی ہے سوائے خادموں کی جی حضوری کے ان کو آتا ہی کیا ہے ،کسی کو قومی ترانہ تو کسی کو قرآن کی آیت تک نہیں ،اصل مقصد مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانا ہے تمام ہسپتالوں کے اندر مریض وینٹی لیٹر نہ ہونے سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں کسی ایک ڈسٹرکٹ ہسپتال میں معدے کو صاف کرنے والی مشین دستیاب نہیں ہے بچوں کو سکولوں میں بیٹھنے کیلئے فرنیچر یہاں تک بعض کو کھلے آسمان تلے بیٹھنا پڑتا ہے سر پر چھت ہی نہیں ہے 80 سے 100 بچوں کیلئے کثیر تعداد میں سکولوں میں صرف ایک استاد میسر ہے مائی ڈیئر خادم اعلیٰ صاحب اب آپ عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں آپ کا احترام ہم پر لازم ہے اسلامی روح سے مگر انتہائی افسوس کے ساتھ میں آپ کو چیلنج کرتا ہوں آپ کسی دن ضلع قصور کا سرپرائز وزٹ ہی کر لیں سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کا آپ کے سامنے حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی دعوں اور عملی اقدامات میں آپ کہا ں کھڑے ہیں ملک کے چند بڑے شہر وں کے علاوہ باقی ماندہ تمام اضلاع کے ڈسٹرکٹ ہسپتال اور تحصیل ہیڈ کوارٹرز میں صحت کی سہولتیں سرے سے ہی ناپید ہیں آج لوگ فوڈ پوائزننگ یا زہریلے مشروبات کی وجہ سے مر رہے ہیں ،تو جناب آپ نے کونسی اتنی اچھی صحت کی سہولتیں فراہم کی ہیں کہ ان بیچاروں کا ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرہسپتال میں علاج ممکن ہو تا ؟ زیادہ دور کی بات نہیں لاہور کے ساتھ واقع ضلع قصور میں ایک بھی سرکاری ہسپتال میں آرتھو پیڈک ڈاکٹر دستیاب نہیں ہے نہ وینٹی لیٹر نہ معدے کو واش کرنے والی مشینیں ،کونسی ترقی کی بات آپ قوم کو سمجھانا چاہتے ہیں سرکار کے قائم کردہ ان ہسپتالوں اور بنیادی مراکز صحت سے صرف ڈسپرین پینا ڈول یا ایک آدھ کھانسی کا شربت کے علاوہ کچھ دستیاب نہیں ڈاکٹرز حضرات لکھ دیتے ہیں یہ دو گولیاں یہاں سے لے یعنی پینا ڈول باقی سٹور سے خرید لیں اربوں کا بجٹ کدھر جاتا ہے ہے جناب ؟ حضور والا میں گستاخی پہ گستاخی کرتا جا رہا ہوں سائیں سرکاراور کے پی کے والے تو ہیں ہی نا اہل سر آپ کی دنیا معترف چاہے مخالفین جو مرضی گریہ زاری کرتے رہیں مگر آپ کے شہر رائے ونڈ کے ہسپتال سے مریضوں کو کہا جاتا ہے فلاں دوائی بھی لیتے آؤ روڈ ایکسیڈنٹ کی صورت میں ٹیٹنس کی انجیکشن بھی خرید کر لے آؤ سرنج بھی ہمارے پاس نہیں ہیں ہائے افسوس کہ کیسے ہیں ہمارے حکمران تبدیلی تبدیلی کے نعرے لگانے والے ہسپتالوں میں بیڈز فراہم نہیں کر سکتے البتہ انہوں نے اپنی پولیس ضرور ٹھیک کر لی ہے ۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Themes

Weboy