جب لٹ جائے گی غریبوں کی کمائی تب انصاف کرو گے

Published on May 5, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 506)      No Comments

شیخ توصیف حسین
تحریر ۔۔۔ شیخ توصیف حسین
گزشتہ روز میں اپنے دفتر میں بیٹھا صحافتی فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل تھا کہ اسی دوران شوکت نامی شخص جس کے ہونٹ خشک پتوں کی طرح خشک آ نکھوں میں آ نسو ؤں کی بہتی ہوئی لمبی قطار قصہ مختصر وہ بے بسی اور لا چارگی کی تصویر بنا میرے دفتر میں داخل ہو کر کہنے لگا کہ غیر مسلم ممالکوں کے حاکمین اپنے ملک کے غریب اور بے بس افراد کے علاوہ بیمار اور زخمی خونخوار درندوں کی حفاظت کو بھی اپنا فرض عین سمجھتے ہیں جبکہ دوسری جانب اسلامی ملکوں کے حاکمین خونخوار درندوں کی حفاظت تو دور کی بات غریب اور بے بس افراد سے ایسا رویہ اپناتے ہیں جیسے ہندو بر ہمن قوم اچھوتوں کے ساتھ توصیف بھائی کیا ہم اور ہمارے غریب معصوم بچے یوں ہی بے بسی اور لا چارگی کی موت مر جائے گے ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہمارے دکھوں کا کوئی مداور نہیں جہنیں ہم اپنے ووٹ کی طاقت سے قومی و صوبائی اسمبلیوں میں بھیجتے ہیں وہ بھی ہم سے اسمبلیوں میں پہنچنے کے بعد سوتیلی ماں جیسا سلوک کرنا شروع کر دیتے ہیں آ خر کیوں الیکشن کے دوران تو وہ ہمیں گلے لگاتے لگاتے تھکتے نہیں بات بات پر ہمیں عظیم ہم وطنوں بھائیوں کہتے ہیں لیکن بعد ازاں وہ بھی ہم سے طوطے کی طرح آ نکھیں بدل کر ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر پر سے سینگ آ خر کیوں کیا یہی ہمارا مقدر ہے کیا ہمارے معصوم بچے کبھی خوشحال زندگی نہیں گزار سکے گے کیا وہ بھی ہماری طرح بے بسی اور لا چارگی کی زندگی گزارتے ہوئے بے موت مر جائے گے اگر ایسا ہی ہمارا اور ہمارے معصوم بچوں کا مقدر ہے تو پھر ہمارے ملک کے حاکمین ہمیں ایک بار کیوں نہیں مار دیتے یہ ٹی وی اور اخبارات میں جھوٹے وعدے کر کے اپنی عاقبت کیوں خراب کرتے ہیں خداوندکریم حقوق اللہ میں کوتاہی برتنے والے شخص کو تو معاف کر سکتا ہے لیکن حقوق العباد میں کوتاہی برتنے والے شخص کو معاف نہیں کرتا توصیف بھائی خداوندکریم نے قرآن پاک میں واضح ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے تمام عبادات سے افضل عبادت حقوق العباد کو قرار دیا ہے حقوق العباد کے معنی کیا ہیں انسانیت کی بہتری اور بھلائی تاریخ گواہ ہے کہ نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام نے انسانیت کی بقاکے حصول کی خا طر نہ صرف اپنے آ پ کو بلکہ اپنے عزیز و اقارب جس میں چھ ماہ کا علی اصغر بھی شامل ہے کو قربان کر دیا تھا یہ بخوبی جانتے ہوئے بھی ہمارے ملک کے حاکمین و دیگر ارباب و بااختیار ہم جیسے لاتعداد غریب افراد پر ظلم و ستم کے پہاڑ گرا کر انسانیت کی تذلیل کرنے میں مصروف عمل ہیں اُس کی ان دکھ بھری باتوں کو سننے کے بعد میں نے اس سے کہا کہ شوکت بھائی آپ تو بڑے ہنس مکھ تھے آج تم اتنے دکھی اور مایوس کن باتیں کیوں کر رہے ہو جس پر اس نے ٹھنڈی سانس بھرنے کے بعد روتے ہوئے کہا کہ چند سال قبل میری شادی میرے ہی خاندان کی ایک غریب لڑکی سے طے پاگئی جسے میں لیکر ایک کرایہ کے مکان میں رہائش پذیر ہو گیا میں دن رات مزدوری کر کے اپنا اور اپنی اہلیہ کا پیٹ پالتا رہا وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ ایک دن مالک مکان نے مکان کا کرایہ دو گنا بڑھاتے ہوئے کہا کہ اگر تم مکان کا کرایہ دو گنا دے سکتے ہو تو ٹھہیک ورنہ مکان خالی کر دو یہ سن کر تو میرے ہواس اُڑ گئے چونکہ میں پہلے ہی مکان کا کرایہ ملک میں روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے بڑی مشکل سے ادا کرتا تھا دو گنا کرایہ کیسے ادا کر سکتا تھا بالآ خر کافی سوچ بچار کے بعد میں نے اپنی اہلیہ کے زیوارت فروخت کر کے شوگر ملنر جھنگ کے عقب میں ایک پلاٹ خرید کر ایک جھو نپڑی نما مکان تعمیر کر لیا لیکن بد قسمتی نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا چونکہ یہاں جناح کالونی ماہنک موڑ کے علاقہ کا پانی شو گر ملنر جھنگ کی وجہ سے اس قدر خراب تھا کہ جس کے پینے سے نہ صرف پورے علاقے کی غریب آ بادی بلکہ میرے اہلخانہ مختلف موذی امراض میں مبتلا ہو کر اپنی زندگی کے سفر پر جو گھپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی رواں دواں رہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شوگر ملنر جھنگ علاقے کے امیر ترین افراد کو صاف اور شفاف پانی کی سپلائی اپنی پرائیویٹ ٹینکوں کے ذریعے جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ہم غریب افراد کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھ کر صاف اور شفاف پانی کی سپلائی جاری رکھنے سے قاصر ہیں بحرحال بے رحم وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ اسی دوران مجھے اپنے بچوں کو پڑھانے کی ایک دل میں خواہش ابھری لیکن وسائل نہ ہونے کے سبب میں اپنے بچوں کو تعلیم جیسے زیور سے آ راستہ کرنے سے قاصر رہا کہ اسی دوران خداوندکریم نے میرے دل کی آ واز سن لی ندیم نامی شخص اپنی اہلیہ کے ہمراہ جو کہ انسان کے روپ میں فرشتہ تھے ہماری غریب آ بادی میں آئے اور ہمارے غریب معصوم بچوں کو جو کہ بغیر کپڑوں کے سرعام گلیوں میں کھیل رہے تھے کو دیکھ کر انھیں ملک و قوم کی بقا کے حصول کی خا طر تعلیم جیسے زیور سے آ راستہ کرنے کا فیصلہ کر لیا لیکن وسائل نہ ہونے کے سبب انہوں نے گھر گھر جا کر بچوں کو اکٹھا کر کے بغیر چاردیواری کے کھلے آ سمان کے نیچے بیٹھ کر پڑھانا شروع کر دیا وقت اسی طرح گزر رہا تھا کہ اسی دوران علاقے کے تقریبا ایک سو پچاس لڑکے اور لڑکیاں ان کے زیر سایہ پڑھنے لگے اس بڑھتی ہوئی بچوں کی آ بادی کے پیش نظر مذکورہ شخص اور اس کی نیک دل اہلیہ نے اپنے زیورات وغیرہ فروخت کر کے کومل پبلک ماڈل سکول ایلمنٹری سکول جناح کالونی کی تعمیر رکھی ہم سب علاقے کے غریب افراد دل و جان سے خوش تھے کہ جو پریشانیاں ہم نے دیکھی ہیں وہ ہمارے معصوم بچے پڑھ لکھ کر نہ دیکھ سکے گے لیکن افسوس کہ ہماری یہ دلی خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکے گی چونکہ مذکورہ سکول کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے رقوم چاہیے جو کہ ان فرشتہ نما انسانوں کے پاس نہیں حالانکہ انہوں نے مذکورہ سکول کو بہتر سے بہتر بنانے کیلئے ایجوکیشن فاؤنڈیشن لاہور کو متعدد بار تحریری طور پر مطلع کیا ہے لیکن ہر بار مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے ایک بار تو مذکورہ فرشتہ نما انسان ایجوکیشن فاؤنڈیشن لاہور از خود پہنچے لیکن انھیں یہ کہہ کر وہاں سے ٹال دیا کہ اگر آپ نے مذکورہ فاؤنڈیشن لاہور کے چیرمین قمر اسلام سے ملاقات کا ٹائم لیا ہے تو آپ ان سے مل سکتے ہیں ورنہ نہیں بھائی توصیف شاید یہ مذکورہ فرشتہ نما انسان رقوم کے نہ ہونے کے سبب مذکورہ سکول کو بند کر دیں جس کے نتیجہ میں ہمارے بچے تعلیم جیسے زیور سے آ راستہ ہونے سے محروم ہو جائے توصیف بھائی کیا ہمارے بچے تعلیم جیسے زیور سے آ راستہ ہو کر خاشحال زندگی نہیں گزار سکتے کیا وہ بھی ہماری طرح یونہی گھٹ گھٹ کر مر جائے گے کیا اس ملک کے حاکمین ہماری بر بادی پر یونہی خاموش تماشائی بنے رہے گے ان حاکمین میں سے کوئی خدا ترس حاکم ایسا ہے جو مذکورہ سکول کو مکمل طور پر بند ہونے سے بچا لے کوئی ایسا ہے تو سامنے آئے تاکہ ہمارے غریب معصوم بچے ذلت آ میز موت کے مرنے سے بچ جائے

Readers Comments (0)




WordPress Blog

Free WordPress Theme