سوات کو اللہ تعالیٰ نے حسن کی وادئ بنا رکھا ہے ، جہاں پر قدرتی صناعی کے مظاہر اس کثرت سے بکھرے پڑے ہیں جنہیں دیکھنے کے لئے کسی زمانے میں دنیابھر سے سیاح سال کی چاروں موسموں کے مزے لوٹنے اور لطف اندوز ہونے کیلئے آیا کرتے تھے ، گرمی میں کالام اور اس کے ساتھ ملحقہ علاقوں کا موسم ناقابل یقین حدتک معتدل بہ مائل سردی ہونے کی وجہ سے ملک کے گرم علاقوں کے باسی طویل عرصہ تک یہاں ڈھیرے ڈالے رکھتے تھے جس کی وجہ سے یہاں کی ہوٹل انڈسٹری خوب ترقی پر تھی جبکہ سیاحوں کی آمد سے اس علاقے کے ہر باشندے کا کاروبار چمکتا رہتا جس سے لوگ معاشی طورپر خوب آسودہ حال رہتیلیکن گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے قسمت کی وہ مہربان دیوی روٹھ کر نہ جانے کہاں چلی گئی ہے کہ اب اس خوبصورت علاقے کے اپنے باسی اس سے نکلنے اور ملک کی دیگر علاقوں میں رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔سال 2009 تک تین چار سال کا عرصہ عسکریت پسندی اور فوجی اپریشن کے باعث متاثرہ رہا جس سے سیاحت کے شعبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور سیاحوں کی آمد موقوف ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں سیاحت کا شعبہ زبوں حالی کی انتہا پر چلا گیا لیکن اس کو سب سے زیادہ نقصان سال 2010 میں ملک میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے پہنچایا جس میں اس خوبصورت علاقے کا تمام تر انفراسٹرکچر اس بری طرح سے تباہ ہوا کہ آج چھ سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باؤجود اس کی بحالی کے لئے دعوے تو بہت کئے گئے لیکن عملی کام تاحال دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔
کالام اور اس سے ملحقہ علاقے جو خوبصورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے وہاں تک پہنچنے کے لئے32 کلو میٹرسڑک ہی واحد ذریعہ ہے جس کا اب وجود تو کیا نام ونشان بھی باقی نہیں رہا ہے ۔ سڑک کے ذریعے طے کیا جانے والا راستہ جو محض ایک گھنٹے سے بھی کم مسافت پر تھا آج پورے دن میں بھی بہ مشکل سر کیا جاسکتا ہے ۔ سڑک کے نام پر بس ایک لکیر ہے جس میں بڑے بڑے دریائی پتھر پڑے ہوئے ہیں ۔ جنہیں پار کرنا صرف پیدل ہی ممکن ہے لیکن کسی گاڑی کا اس پر گزرنا محال از خیال است کے مصداق ہے۔
اس علاقے کے لوگوں کی معاشی ضروریات پورا کرنے کیلئے دو ہی ذرائع ہیں جوآج کل مسدود ہوچکے ہیں ۔ اول سیاحت کا شعبہ تھا جب ہر سال ہزاروں کی تعداد میں سیاح اس علاقے میں�آکر جہاں اپنے دلوں کو آسودہ کرتے تھے تو دوسری جانب ان کی آمد سے یہاں کی لوگوں کا کاروبار چمکتا رہتا اس کے ساتھ ساتھ یہاں کی مقامی دستکاری وغیرہ کی پروموشن کا سلسلہ بھی جاری رہتا اور ہنر مند اپنے فن کا معاوضہ کی شکل میں صلہ پاکر آسودہ رہتے لیکن گزشتہ چھ سال سے سیاحوں کی آمد موقوف ہونے کی بناء پر اب یہ سلسلہ بھی ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کے علاوہ بحرین سے لے کر کالام تک دریائے سوات کے کنارے ہوٹل انڈسٹری کی شکل میں ایک پوری صنعت آباد تھی جسے اکثریتی طورپر باہر کے لوگوں نے لاکھوں کروڑوں کی انوسٹمنٹ کرکے آباد کیا تھا لیکن سیاح نہ آنے کیوجہ سے اب یہ شعبہ بھی مکمل طورپر تباہی کا شکا رہوکر بند ہوچکا ہے جبکہ حکومت اس پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ۔
اس کے بعد علاقے کی لوگوں کی کمائی کا دوسرا بڑا ذریعہ کاشتکاری سے وابستہ ہے یہاں آلو کی اعلیٰ قسم کی کاشت کے ساتھ شلغم اور مٹر کی بھی بہت اچھی فصل ہوتی ہے جسے کے لئے آنے والا مواد اب راستوں کی بند ش کی وجہ سے بروقت ممکن نہیں ہوتا جبکہ فصل تیار ہونے پر بھی اسے ملک کے دیگر علاقوں تک رسائی کا سلسلہ مین رابطہ سڑک کی تباہی کے باعث پچھلے چھ سال سے ممکن نہیں رہا ہے ، بحرین تا کالام سڑک محض 32 کلو میٹر کا ہے لیکن اس کو تیار کرنے کیلئے نہ جانے حکومتی ذمہ دار کیوں اتنی غفلت کا مظاہرہ کررہے ہیں کہ کالام کے باسی اب پتھرکے زمانے کی لوگوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کردئیے گئے ہیں۔
فوجی آپریشن کے بعد پاک فوج کے ذمہ داروں نے یہاں کی ثقافت کو اُجاگر کرنے اور سیاحوں کو اس علاقے کی جانب راغب کرنے کیلئے کئی طرح کے فیسٹول منعقد کئے جس میں آنے والے سیاحوں کو ان علاقوں تک پہنچانے کے لئے عارضی بنیادوں پر راستے بنائے گئے اور جو وی آئی پیز تھے ان کو ہیلی کاپٹروں میں اس خوبصورت علاقے میں لایا گیا ۔ اس دوران خیبر پختونخوا کے دو وزرائے اعلی ٰ نے سڑک کی تعمیر کا وعدہ کرکے علاقے کے محروم لوگوں کو ایک آس دلائی جو چھ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اب بھی بس آرزو ہی ہے جسے ممکن کرنے کے لئے کہیں سے بھی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
حال ہی میں کالام روڈ کی تعمیر کے لئے ٹینڈر ہونے ، فنڈز مختص ہونے کے بارے میں متضاد قسم کے دعوے سامنے آئے جس پر علاقے سے منتخب ایم پی اے سید جعفر شاہ اگر آج ایک دن افتتاح کرتا ہے ، سڑک کی تعمیر کے لئے افتتاحی فیتہ کا ٹا جاتا ہے اور زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگتے ہیں توا س سے اگلے دن وفاق کے نمائندے کے طورپر وزیر اعظم کے مشیر امیر مقام افتتاحی فیتہ کاٹنے کے لئے پہنچ جاتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ صوبائی حکومت کا اس سڑک کی تعمیر میں کوئی رول نہیں بلکہ یہ سب کچھ ہم نے کیا ہے ،ہم نے اس کا ٹینڈر منظور کرکے فنڈز جاری کردئیے ہیں اور آئندہ چند دنوں میں اس سڑک پر تعمیراتی کام شروع کردیا جائے گا موصوف کو گئے ابھی محض چند گھنٹے ہی گزرتے ہیں کہ حلقے سے منتخب صوبائی حکومت کے ایم این صاحب اس سڑک کی افتتاحی فیتہ کاٹنے کے لئے نمودار ہوجاتے ہیں اور وہ اپنی طرف سے قوم کو جھوٹی آس دلاتے ہیں کہ ہم نے تو کام مکمل کرلیا ہے اور بس کل ہی اس پر کام شروع کیا جارہا ۔ اس طرح پچھلے کئی سال سے افتتاح پر افتتا ح ہورہے ہیں لیکن کالام سڑک ہے جو تعمیر ہونے کا منتظر ہی ہے اور کوئی اس کی مسیحائی کے لئے تاحال عملی کام نہیں کرسکا ہے ۔
اب صورت حال یہ ہے کہ علاقے کے لوگ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق افتتاحی سیشنوں سے مایوس ہوکر اپنی مددآپ کے تحت اس سڑک کی تعمیر کے لئے کمر بستہ ہوچکے ہیں (جو حکومتی سرپرستی کے بغیر کسی صورت ممکن نہیں) اور انہوں نے اس 32کلو میٹر سڑک کی تعمیر کے لئے چندہ مہم کا آغاز کردیا ہے ۔ اس دوران علاقے سے منتخب تحصیل ناظم حبیب اللہ ثاقب کی سربراہی میں وفود نے اعلیٰ حکومتی ذمہ داروں سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن انہیں صرف ٹرخاؤ پالیسی کے ذریعے انہیں احتجاج سے بھی روکا جارہا ہے اور کام بھی نہیں ہورہا ہے۔ حالانکہ سڑک کی تباہی سے مشکلات کے شکار علاقے کی لوگوں نے کئی بار مقامی سطح پر احتجا ج کرنے کے بعد اسلام آباد میں دھرنا دینے کا پروگرام بنایا جسے مقامی انتطامیہ نے سڑک کی تعمیر کے حوالے سے جھوٹی آس دلا کر موخر کرانے میں کامیاب ہوئے لیکن آخر کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
حکومت اگر کالام کی اس رابطہ سڑک کو تعمیر کرنے کے لئے عملی اقدامات اُٹھائے تو اس سے اگر ایک جانب مقامی لوگوں کو سہولت ملے گی تودوسری جانب سیاحوں کی اس خوبصورت علاقے میں آمد سے سیاحت کا شعبہ ترقی کرے گا جس کا لازمی فائدہ یہاں کی لوگوں کو ہونے کے ساتھ ساتھ حکومتی خزانے کو بھی جائے گا۔ لہذ اکالام سڑک پر جاری صوبے اور وفاق کی جنگ کو علاقے کی لوگوں کے بہتر مفاد میں ا ب ختم ہونا چاہئے ، چھ سال سے خراب سڑک کی تعمیر کے لئے فوری طورپر عملی اقدامات اُٹھائے جائیں ورنہ آثار بتا رہے ہیں کہ اگراس سڑک کی تعمیر میں مزید تاخیر کی گئی تو مقامی لوگ بھی اس علاقے سے نکل جائیں گے جس کے بعد اب یہ بھوتوں کا مسکن رہ جائے گا ۔