Auto Draft

Published on May 12, 2016 by    ·(TOTAL VIEWS 551)      No Comments

Siyal
آج مجھ کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہمارا شہر ترقی کیوں نہیں کرپارہا۔ترقی کرنے کی بجائے دن بادن اس کی حالات دیکھ کر رونا آتا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے ۔کہ جیسے اس کا کوئی وارث ہی نہ ہو شہر میں وہ ہی ٹریفک جام لاری اڈے ویران اور ایوب چوک جس جگہ سے کراچی سے لیے کرخیبر تک کی ٹریفک کا گزار ہوتا ہے ۔وہاں بس اڈئے۔ویگن اڈئے بنے ہوئے ہے ۔اور تو اور کہ جھنگ جو پرانے اضلاع میں سے ہے۔اس میں آج تک ٹریفک سیگنل کسی چوک میں کسی نے نہیں لگوایااور نہ ہی اس شہر کے افسران کی اس طرف کوئی توجہ ہے۔کسی دوکان دار سے کوئی چیز خرید کرئے ۔تو اس کا ریٹ لسٹ سے زیادہ وہ رقم وصول کرئے گئے۔ نرخ نامہ سے زیادہ ریٹ وصول کررہے ہے۔آج اگر دودھ کو دیکھ لے شہر میں جو گوالے دودھ لیے کر آتے ہے۔اکثر دودھ ملاوٹ والا ہوگا۔اور اس نے اس دودھ کو بھی ڈیری کروایا ہوا ہوگا۔ایسے ہی آپ سرخ مرچ ۔دھنیا ۔ہلدی۔چائے کی پتی وغیرہ لے کر چیک کرئے ۔تو آپ کو پتہ چلے کہ ان دوکان حضرات جو ہمارئے ہی مسلمان بھائی ہے ۔ہم کوایک تو ریٹ لسٹ سے زیادہ پیسے وصول کررہے ہے۔اورجو بھی اشیاء اس سے خرید کی وہ بھی ایک نمبر نہیں ہوگئی۔ریٹ لسٹ تو دوکاندار حضرات کے پاس ہوتی ہے ۔اس کے باوجود وہ ریٹ زیادہ وصول کررہے ہوتے ہے۔خیر گوالوں کوہی دیکھ لے ۔کہ وہ جو دود ھ شہر سیل کرنے کے لیے کرآتے ہے۔پہلے اس کو ڈیری کرواتے ہیں ۔پھر جاکرلوگوں کے گھروں میں دیئے آتے۔ان لوگوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں ۔کہ ریٹ تو یہ خالص دودھ کا وصول کررہے ہے۔اور دودھ وہ دے رہے جس میں سے کریم بھی نکال لی گئی ہو۔آنے والی اس نسل کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔جس نے ایسا دودھ پینا ہے۔کچھ لوگوں کا تو دودھ میں سے کریم نکال کر بھی دل خوش نہیں ہوتا ۔وہ اس دودھ میں بھی پانی ڈال کرعوام کو پلانے میں لگے ہے۔یہ لوگ تو یہ بھی بھول گئے ہے۔کہ ایک دن مرنا ہے ۔اس دن اپنے رب کو کیا جواب دیئے گئے۔ شہر میں کئی دودھ کی دوکانے بن چکی ہے ۔جو منوں کے حساب سے ڈیلی دودھ سیل کررہے ہے۔ان کو آج تک چیک کرنے کوئی نہیں گیا۔۔ان ہمارئے مسلمان بھائیوں نے مہنگائی پر مہنگائی کر رکھی ہے ۔ریٹ لسٹ ان دوکاندار حضرات کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ۔دودھ 60سے70روپے کلو اور دودھ بھی وہ وہ جو گوالے دیہی علاقوں سے گوالے دودھ لا کر اس کو ڈیری کرواتے ہیں ۔اور وہ دودھ جو یہ گوالے دوکانداروں اور گھروں میں یہ دودھ دے کر آتے ہے۔یہ دودھ تو وہ ہی ہے جس میں سے کریم نکل لی جاتی ہے۔اور اس کو یہ گوالے ڈیری والے کو دیئے جاتے ہے۔وہ دودھ ہی 60سے70روپے فروخت کر رہے ہے۔یہ دودھ ہمارے بچے پی رہے ہے ۔ان کو اس دودھ سے کیا کوئی طاقت ملے گئی ۔کہ بس وہ صرف پیٹ بھرئے گا۔کیا بات ہے ہمارئے مسلمان بھائیوں کی پیسے خالص دودھ کے لیتے ہے ۔اور دودھ ڈیری والا۔اور ان دودھ والوں نے جو دودھ کی کے ناپ کے لیے پیمانے رکھے ہوتے ہے ۔وہ پیمانے بھی ایک لٹر کا مکمل نہیں ہوتا۔آج تک نہ تو ان لوگوں کے کسی نے پیمانے چیک کیے اور نہ ہی کوئی ان کو یہ پوچھنے والا ہے ۔کہ تم لوگ سرکاری ریٹ لسٹ سے زیادہ پیسے وصول کیوں کرتے ہے۔اور وہ دودھ جو محکمہ ہیلتھ والوں کو چیک کرنا چاہیے ۔مگر یہ تینوں محکمے نمبر ایک ۔پیمانے جات چیک کرنے والے۔نمبردو۔ریٹ لسٹ والے۔نمبر تین۔محکمہ ہیلتھ جس کو روزانہ سب کا دودھ چیک کرنا چاہئے ۔مگر آج تک وہ کسی جگہ نظر نہیں آتے۔اندھا راجا بے دارنگری۔آج جگہ جگہ دودھ سیل پوائیٹ بنے ہوئے ہے۔آج میلاد چوک جھنگ شہر پر دودھ کے پوائنٹ بنے ہوئے ہے۔موتیا مسجد۔محلہ گادھیاں والہ۔جوڑے کھوہ۔پکہ ریلوئے روڈ نذد پرانی چونگی وغیرہ جگہ جگہ سیل پوائنٹ بنے ہوئے ہے ۔مگر کیا ان کو کوئی ہیلتھ آفیسر ۔ریٹ لسٹ والے یا محکمہ پیمانے جات والے کوئی ان کوچیک کیوں نہیں کرنے جاتا۔آج جو دیہی علاقوں میں یہ لوگ کھویابنا رہے ہے ۔اس کو کبھی کسی نے چیک کیا کہ وہ کسے بنایا جاتاہے۔محکمہ ہیلتھ کے لوگوں نے آنکھوں پر کیوں پٹی باندھ رکھی ہے۔تقریبا ایک کچھ ماہ قبل منڈی شاہ جیونہ کے علاقہ میں بھی کھویابننے والی فیکٹری پر صحافیوں نے چھاپا مارا اس کی نیوز چینل پر خبریں بھی چلتی رہی مگر نہ جانے اس کا کیابنا۔ایسے ہی نہ جانے کتنی کھویابننے والے کٹرہا لگے ہوئے۔ وہ بھی دیہی علاقوں میں جو کھوا بناتے ۔وہ کھویاخشک دودھ سے تیار کیا جاتا ہے۔ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے ۔کہ یہ کھویااسلام آباد وغیرہ بھیجا جاتا ہے۔یہ جو کھویابناتے ہیں ۔کیا ان کے پاس اس کی کوئی ہیلتھ رپوٹ بھی ہوتی ہے کے نہیں ۔کیا ان کوکو ئی پوچھنے والا نہیں یا پھرتینوں محکموے خاص کر محکمہ ہیلتھ اور ریٹ لسٹ والے ۔پیمانہ جات والے انہوں نے آنکھوں پر پٹی کیوں باندھ رکھی ہے۔محکمہ ہیلتھ والے دیہی علاقوں میں جاکر ان جگوں پر چھاپے کیوں نہیں مارتے ۔جہاں یہ کھویابنانے والے کڑاہے لگے ہوئے ہے۔اور نہ ہی ان کے پاس کوئی ریٹ لسٹ ہوتی ہے۔کوئی پوچھنے والا نہیں ۔اندھا راجا بے دارنگری۔عوام تو جاگ رہی ہے ۔لیکن افسران نظر نہیں آتے ۔جو ریٹ لسٹ چیک کرئے یا یہ دودھ کوکوئی چیک کرئے۔اور کریانے اور ہوٹلوں پر کھانوں کوجاکرچیک کرئے۔کوئی تو ایسا نیک ایماندار فرض شناش افسر ہوگا ۔جس کا ضمیر زندہ ہوگا۔جو تمام چیزوں پر کنٹرول کرئے گا۔ آج ایک بھائی دوسرے کا حق ایسے کھا رہاہے ۔جیسے سب کچھ اس کا اپنا ہو۔جھنگ سٹی ریلوئے اسٹیشن جب سے وہ بنا ہے اس کے بعداس کی تعمیر وترقی کی طرف کسی نے کوئی توجہ نہ دی ۔اس میں ان کواپنا فائدہ نظر نہیں آیا اگر اس میں ان افسران کوکوئی مفاد نظر آتا تو اس کی طرف ان کی توجہ ضرور ہوتی لیکن افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج آپ اگر محکمہ ہائی وئے۔بلڈنگ۔لوکل گورنمنٹ۔ٹی ایم اے جھنگ۔ٹی ایم اے شورکوٹ ۔ٹی ایم اے احمدپورسیال۔محکمہ نہروغیرہ ان سے پوچھا جائے ۔کہ آپ نے کون کون سے کام کروائے ہے۔اور پھر ان کے کام اگر چیک کیئے جائے تو معلوم ہوجائے گا،کہ ان لوگوں نے کیسے کام کروائے اور وہ سٹرک ۔پلی۔سیوریج ۔پی سی سی سلیپ۔سولنگ وغیرہ ان افسران نے جو کام کروائے ہیں۔وہ کتنے عرصہ تک چل سکے گئے۔لیکن اس طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں۔جہاں افسیران خود دفتر نہیں آئیں گے وہاں محمد اکرم سب انجینئر تبدیل ہونے بعد بھی وہی اختیار دیئے ہوئے ایکسئین سمیت تمام افسران ٹی ایم اے جھنگ نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی ہے ان کو یہ نظر نہیں آتا کہ اس کو تبدیل ہوئے 2ماہ ہوگئے ہیں لیکن آج بھی اس کو اسی طرح پرٹوکول دیا جاتا یعنی اس کے تمام بل پاس کئے جا رہے ہیں کوئی نہیں ان کو پوچھنے والا لیکن جہاں پیسہ ہو وہاں قانون کیا کر سکتا ہے آپ نے ایسے کسی جگہ کوئی انجینئرز نہیں دیکھے ہوگئے ۔جو ٹی ایم اے جھنگ میں ماجود ہو۔جن کو سیاسی سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے مکینیکل انجینئرجو ہے۔وہ ورکس برانچ میں اپنا تبادلہ کروائے کے کام کرنے میں مصروف عمل ہے۔انہوں نے سب سے پہلے شہر کی کئی جگہ پر ٹینڈر کروائے کے پی سی سی سلیپ ۔نالیاں ۔سولنگ۔پولیاں وغیرہ تعمیر کروادی۔اور ڈسڑکٹ ہائی وے نے بھی سڑکے وغیرہ تعمیر کی جس کو بعد میں ان سب انجینئرزنے سٹرکوں کواکھاڑکران میں سیوریج پائپ ڈالنے شروع کر دیئے جس کے نتیجہ یہ کہ اب جھنگ سٹی کے علاقہ محلہ گادھیاں والہ۔بستی گھوگھے والی ۔پکہ ریلوئے روڈ۔کچہ ریلوئے روڈ۔آدھیول چوک۔لاری اڈے سے جو لنک روڈ ناصر چوک جھنگ سٹی اس کو بھی اکھاڑ کر ان میں سیوریج تو ڈال دیا گیا۔مگر اب اس شہر کا ایسے معلوم ہوتا ہے ۔کہ کوئی وارث ہی نہ ہو۔کہ سڑکوں کو اکھاڑ کر ان میں سیوریج تو ڈال دیا گیا ہے۔مگر اب تک ان سڑکوں کو مکمل نہ کیا گیا ہے۔ہرطرف گردوغباراڑتی نظر آرہی ہے۔جس کی وجہ سے لوگوں میں بیماریاں پھیلنے کا بھی خدشہ ہے۔افسوس ہے۔کوئی تو ہمارئے شہر میں نیک اور فرض شناش افسرآئے گا ۔جو جھنگ کی غریب عوام کے دکھوں کا سمجھے گا۔اوران کے مسلے بھی حل کرئے گا۔جھنگ کی عوام تواسی آس پر ہے۔اور اپنے رب سے یہی دعا کررہی ہے کہ کسی ایسے افسر کو اب جھنگ بھیج جو ہم غریبوں کے دکھ درد کاساتھی ہو۔اور کرپٹ لوگوں کوایسی سزا دئے جودوسرے کرپٹ افسران کے لیے بھی سبق اموزہو۔اور وہ ٹی ایم اے جھنگ ۔ٹی ایم اے شورکوٹ ۔ٹی ایم اے احمدپورسیال جتنے بھی سات سال میں ٹینڈر ہوئے ان کا آڈٹ کرئے۔محکمہ ہائی وئے نے جواس عرصہ میں میں کام کروائے ان کا بھی آڈٹ کرئے۔ایسے ہی لوکل گورنمنٹ ۔بلڈنگ اورمحکمہ نہر نے جو جو ترقیاتی کام کروائے اور جن کے ٹینڈر ہوئے تمام کے ایک ایک کام چیک کرئے ۔اور ان کا مکمل آڈٹ کیا جائے ۔جن لوگوں نے غیرمعیاری کام کروائے ہے۔ان کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے۔

Readers Comments (0)




Free WordPress Theme

Free WordPress Themes