میں اپنے علاقہ کے ایک پرانے سیاستدان کی شدید خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے ملاقات کے لیے اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا وقت دینے پر تیار ہوا‘ اُسے مجھ سے بہت سے گلے شکوے تھے اور وہ اپنی پریشانیاں اور انہونی مشکلات بھی سنانے کا خواہشمند تھا لہٰذا گزشتہ دنوں وہ میرے صحافتی ڈیرے پر تشریف لے آیا۔ طویل معانقے کے بعد وہ میرے سامنے والی کرسی پر براجمان ہو گیا۔ اس نے ایک لمبی آہ بھری اور کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اپنی سیاسی کہانی اپنی زبانی کہنے لگا اور کہتے ہی چلا گیا، اس نے کہا کہ انجم صاحب ! سیاستدانوں پر کیچڑ اچھالنے کی آپکی پرانی عادت ہے ۔ آپ مشکلات و مسائل سنے بغیر ان پر برستے رہتے ہیں ۔ میں آج حقائق سے پردہ اٹھانا ضروری سمجھتا ہوں ۔ آپکو شاید یہ معلوم نہیں کہ ہم کتنے مظلوم اور بے بس ہیں ۔ ٹکٹ لینے کے لیے پارٹی قائد کے کس قدر نخرے برداشت کرنا پڑتے ہیں اور ان کے دفتر کے کتنے طواف کرنا مجبوری ہوتا ہے ۔ ٹکٹ کے حصول کے لیے اعلیٰ سیاسی سفارش کے ساتھ ساتھ پارٹی فنڈزکی ادائیگی بھی لازم قرار دی جاتی ہے جو ہزاروں میں نہ لاکھوں میں اب کروڑوں کی بات بن چکی ہے ۔ ٹکٹ لینے کے بعد ایڈورٹائزمنٹ اور ساتھ ساتھ پارٹی کے سیاسی ورکروں کے اللّے تللّے اور ان کی خدمات کی انجام دہی کے لیے رقم کے ساتھ دستر خوان سجانا ہوتے ہیں ۔ انتخابات کے دنوں میں بھکاریوں کی طرح ہر ووٹر کے سامنے ہاتھ پھیلائے پھرتے ہیں اور وہ جو نخرے کرتا ہے جس قدر منتیں ترلے کرواتا ہے اس وقت اپنی حالت زار پر رونا آتا ہے لیکن یہ سب کچھ دلیری سے سہا جاتا ہے ۔ انجم صاحب! ہمارے ڈیرے پر سیاسی ورکروں نے ہمارا ناک میں دم کر رکھا ہوتا ہے اور پھر اس پر اکتفا نہیں کرتے ،ان کی مٹھی اور جیبیں گرم کرنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ازاں بعد ایسے حرام خور ورکروں سے واسطہ پڑتا ہے جو ووٹوں کی قیمت ایڈوانس لینے کی ضد کرتے ہیں اور ہمیں یہ زہر بھی پینا پڑتا ہے اور پولنگ ایجنٹوں کی ڈیمانڈ بھی پوری کرنا ہوتی ہے ۔
انجم صاحب! رکن اسمبلی بننا کوئی آسان کام نہیں اس کے لیے سینکڑوں پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ انجم صاحب! رکن اسمبلی بننے کے بعد بھی بعض سیاسی ورکروں کو ہاتھ میں رکھنا ضروری ہوتا ہے اور پھر ان کے نان نفقہ کا اہتمام بھی کرنا پڑتا ہے ۔ اتنے بھاری اخراجات کہاں سے لائیں ۔ خون تو الیکشن نے ہی نچوڑ لیا ہوتا ہے پھر کھال اُدھیڑنے والے سیاسی ورکربھی آن ٹپکتے ہیں اور پھر ہمیں حرام خوری ، بدعنوانی ، کرپشن سکھانے کا گُر یہی ورکرسکھاتے ہیں جو چیلوں کی طرح ہماری کھال نوچنے کے لیے ہمارے ارد گرد منڈلاتے پھرتے ہیں۔ وہ کسی نہ کسی بہانے ہماری جیب کو نقب لگانے کے در پے ہوتے ہیں ۔
انجم بھائی! بس اڈوں سے بھتہ وصول کرنا، پٹوار خانوں سے فنڈز لینا اور ٹھیکیداروں کو کمیشن دینے پر مجبور کرنا ہماری عادت بن جاتی ہے ۔ انجم صاحب! آپ تو جانتے ہوں گے کہ ایک رکن اسمبلی کو کس قدر مالی مشکلات ہوتی ہیں اسے اپنے سٹینڈرڈ کو قائم و دائم رکھنے کے لیے کس قدر بُرے کام کرنا پڑتے ہیں ۔ کبھی کبھار تو ہمارا ضمیر بھی جاگ اٹھتا ہے اور خود کو کوستے بھی ہیں لیکن گلے پڑی آفت کا مقابلہ کرنا بھی مجبوری بن جاتا ہے ۔
انجم صاحب! آپ کو معلوم ہے کہ میں ایسا سیاستدان نہیں جو بے غیرتی اور بے شرمی کے کام کر کے اپنا سیاسی تشخص بڑھاتا رہوں ۔ میں نے آج تک کسی مظلوم شہری کو پریشان نہیں ہونے دیا ۔ شہر میں ماضی کی طرح ہونے والی ہلڑ بازی کو بھی ختم کیا ۔ کسی شہری کو جھوٹے کیس میں ملوث نہیں ہونے دیا ۔ چوروں، ڈاکوؤں ، راہزنوں اور اشتہاریو ں کو کبھی پناہ نہیں دی ۔ استانیوں کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر کے عوض ان کی عزتیں نہیں لوٹیں ۔ ہر شہری کو جھک کر سلام کرتا ہوں اس سے گلے ملتا ہوں اسے عزت و وقار بخشتا ہوں ۔
انجم صاحب آپ کو تو معلوم ہے کہ میں متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہوں ۔ میرے پاس حرام مال کی کمائی نہیں ہے اور نہ ہی میں نے تجوریاں بھری ہیں اور اب تو میرے پاس پارٹی ٹکٹ لینے کے لیے فنڈز بھی نہیں رہے۔ میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میں نے اپنے سیاسی ورکروں کے پیٹ بھرنے کے لیے تھوڑی بہت کرپشن کی ہے۔ اللہ مجھے معاف کرے۔