پیپلزپارٹی کے زوال کے قصے تو پہلے ہی آسمانوں میں تھے اور گونج زمین پر لیکن ہمیں امید تھی پیپلزپارٹی ایک دفعہ پھر آئے گی اور چھا جائے گی۔ مگر اب تو ہم بالکل ہی مایوس ہو گئے کہ وہ آخری ’’کوہِ نور‘‘ بھی پیپلزپارٹی سے جدا ہو گیا، جس کے دم قدم سے بازارِسیاست میں کچھ رونقیں باقی تھیں۔ وہ ’’کوہِ نور‘‘ جسے دنیا راجہ ریاض کے نام سے جانتی اور پہچانتی تھی، جس کی پہلوانی کے قصے گلی گلی اور جس کی انگریزی کی دھوم اداکارہ ’’میرا‘‘ سے بھی سوا تھی، اب تحریکِ انصاف میں رونق افروز ہونے کے لیے پیپلزپارٹی کو داغِ مفارقت دے گئے۔ ہم نے کسی ’’اندر کی بات‘‘ جاننے والے سے پوچھا ’’پیپلزپارٹی کے ساتھ یہ سانحہ کیونکر ہوا؟‘‘ تو جواب ملا ’’دراصل راجہ ریاض کی جگہ اب اعتزاز احسن نے لے لی ہے اور وہ آج کل اپنے راجہ صاحب سے بھی بڑھ چڑھ کر ’’بونگیاں‘‘ مار رہے ہیں‘‘۔ خیر لفظ ’’بونگیاں‘‘ پر ہمیں اعتراض ہوا کہ آخر راجہ صاحب میں کوئی تو ’’گُن‘‘ ہو گا جو نوازلیگ نے انھیں پنجاب حکومت میں سینئر وزیر بنایا۔ تب ہر روز میڈیا پر راجہ صاحب اور راناثناء اللہ کی چشمک جاری رہتی اور ہمیں پرانی پنجابی فلموں کے اکمل اور مظہر شاہ کی جوڑی یاد آ جاتی۔ جب اکمل اللہ کو پیارے ہوئے تو مظہر شاہ بھی پھر فلموں میں جم نہیں سکے اور منصۂ شہود سے غائب ہو گئے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کا دور ختم ہوا تو راجہ صاحب بھی مفقود الخبر ہو گئے اور راناثناء اللہ اکیلے ہی بڑھکیں لگاتے رہے لیکن اب ان کا ٹارگٹ پیپلزپارٹی نہیں تحریک انصاف تھی۔
ادھر تحریک انصاف کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پاس کوئی ’’رانا ثناء اللہ‘‘ نہیں تھا، بس اکیلے خاں صاحب ہی ’’کھڑاک‘‘ کرتے رہتے جبکہ دوسری طرف پرویز رشید، دانیال عزیز، طلال چودھری، عابد شیر علی اور رانا ثناء اللہ پر مشتمل ایک بھرپور ٹیم تھی جنھیں کپتان صاحب ’’درباری‘‘ کہا کرتے ہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ کوئی تو ہو جو نوازلیگ کو منہ توڑ جواب دے سکے۔ اب راجہ صاحب میدان میں آ گئے ہیں، اس لیے یہ کمی بھی پوری ہو جائے گی۔ لیکن ایک بات پر حیرت کہ یہ پیپلزپارٹی کے جیالے فیصل آبادیوں نے راجہ صاحب کے تحریک انصاف میں سُدھارنے کے بعد منوں مٹھائی کیوں تقسیم کی، ڈھول کیوں بجائے اور بھنگڑے کیوں ڈالے؟ کیا ہمارے راجہ صاحب اتنے ہی ’’گئے گزرے‘‘ تھے کہ اُن کی ’’رخصتی‘‘ کا ایسے جشن منایا جا رہا ہے کہ جیسے سر سے بَلا ٹل گئی ہو؟۔ ویسے ’’جیالے‘‘ تو شاید راجہ صاحب کی اہمیت سے واقف نہ ہوں لیکن کپتان صاحب خوب واقف ہیں۔ اسی لیے تو انھوں نے راجہ صاحب کی شمولیت کے بعد اعلان کر دیا کہ 20 مئی کو فیصل آباد میں عظیم الشان، فقیدالمثال اور دھوم دھڑکے سے بھرپور جلسہ ہو گا۔ انھوں نے تو خواتین تک کو بھی جلسے میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہہ دیا کہ اُن کی حفاظت کا بھرپور انتظام کیا جائے گا۔ یقیناًیہ ذمہ داری بھی راجہ ریاض نے ہی اٹھائی ہو گی۔ ورنہ خاں صاحب تو لاہور اور پشاور کے جلسوں کے بعد کانوں کو ہاتھ لگا چکے تھے۔ بہرحال تحریک انصاف کو راجہ صاحب اور راجہ صاحب کو تحریک انصاف مبارک ہو، ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ ’’خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔‘‘
اُدھر ایک کھڑاک چیف جسٹس صاحب نے بھی یہ کہہ کر کر دیا ’’بے اختیار کمیشن سے بدنامی ہو گی۔ حکومتی ٹی او آرز اتنے وسیع ہیں کہ تحقیقات کے لیے کئی سال لگ جائیں گے۔ جن افراد، خاندانوں، گروپوں اور کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کرنی ہیں، ان کی تعداد اور متعلقہ کوائف ہونے چاہئیں۔‘‘ دست بستہ عرض ہے کہ ’’اس حمام میں تو سبھی ننگے ہیں۔‘‘ اگر متعلقہ اصحاب، خاندانوں اور کمپنیوں کی فہرست مرتب کی گئی تو ’’پانامالیکس‘‘ والے شرم سے منہ چھپاتے پھریں گے کیونکہ انھوں نے تو غالباً صرف 360 افراد کا ذکر کیا ہے لیکن ہماری ’’پٹاری‘‘ میں تو یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔ ہماری اتنی حیثیت تو نہیں لیکن پھر بھی چیف جسٹس صاحب کو کہے دیتے ہیں کہ وہ حکومت کو لکھا گیا اپنا خط واپس لے لیں کیونکہ حکومت جو فہرست پیش کرے گی، اس کی تحقیقات کے لیے بھی عشرے درکار ہوں گے۔ اندازہ چیف صاحب خود ہی لگا لیں کہ وہ لوگ جو ’’پانامالیکس‘‘ پر سب سے زیادہ ’’رولا‘‘ ڈالتے تھے، خود اُن کا نام بھی ’’آف شور‘‘ میں نکل آیا اور تسلیم بھی کر لیا گیا۔ کپتان صاحب نے تسلیم کر لیا کہ انھوں نے 1983ء میں آف شور کمپنی بنائی تھی۔ انھوں نے کہا ’’یہ کمپنی اکاؤنٹنٹ کے کہنے پر ٹیکسوں سے بچنے کے لیے بنائی گئی جو کہ میرا حق تھا کیونکہ میں برطانوی شہری نہ تھا۔‘‘ خاں صاحب کا یہ بیان سن کر ہماری بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی کہ یہی کچھ تو میاں نوازشریف کئی دنوں سے ’’کُرلا‘‘ رہے ہیں اور اس معاملے پر وہ دو دفعہ قوم سے خطاب بھی کر چکے ہیں، لیکن کپتان صاحب تو کسی کی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔ اب جب اُن کا نامِ نامی، اِسمِ گرامی بھی سامنے آ گیا تو انھیں بھی یاد آ گیا کہ یہ کوئی غیرقانونی کام نہیں۔ خاں صاحب کا کہنا ہے کہ اس ’’آف شور کمپنی‘‘ کا پیسہ ان کی حلال کمائی کا ہے، لیکن شریف خاندان نے بھی یہ کبھی نہیں کہا کہ اس کا پیسہ بے ایمانی کی کمائی کا ہے۔ یہ فیصلہ تو تحقیقاتی کمیشن نے کرنا ہے کہ پیسہ کہاں سے اور کیسے آیا۔ پھر خان صاحب خود کیوں چیف جسٹس بنے بیٹھے ہیں؟ اب اگر شریف خاندان یہ کہے ’’خاں صاحب! یہ نہیں ہو گا کہ ساڈا کتا، کتا تے تہاڈا کتا ٹومی‘‘ تو کیا غلط ہو گا؟
ہماری سمجھ میں توجو بات آتی ہے، وہ یہ ہے کہ حکومت تحقیقات چاہتی ہے نہ اپوزیشن۔ حکومت نے احتساب سے بچنے کے لیے معاملہ پاکستان کی پوری تاریخ پر پھیلا دیا جس کا ذکر چیف جسٹس صاحب نے اپنے جوابی خط میں بھی کر دیا۔ دوسری طرف اپوزیشن کا مقصد بھی احتساب نہیں، میاں نوازشریف کا گھیراؤ نظر آتا ہے۔ اُس کی بھی یہ کوشش اور خواہش کہ معاملہ صرف میاں نوازشریف
اور ان کی اولاد تک محدود رہے۔ کیونکہ اپوزیشن خوب جانتی ہے کہ اس کی صفوں میں بھی ایسے بہت سے نامی گرامی لوگ بیٹھے ہیں جن کے احتساب کے نام پر ہی اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ شریف فیملی کا احتساب نہیں ہونا چاہیے۔ ہونا چاہیے اور ضرور ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی کرپشن کے اُن مگرمچھوں کا بھی جو میرے وطن کی دولت لوٹ کر بیرونی ممالک میں جائیدادیں بنا رہے ہیں۔ اس مملکت خداداد میں اگر کوئی کمی ہے تو صرف اور صرف کڑے احتساب کی کہ ربِ کریم نے وطن عزیز کو باقی ہر قسم کی دولت سے مالامال کر رکھا ہے۔ پتہ نہیں وہ دن کب آئے گا جب ہم بھی کڑا احتساب ہوتا دیکھیں گے۔۔۔۔ پتہ نہیں کب؟۔